مذہبی کتب کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟
مطالعہ مذہبی ہو یا غیرمذہبی‘ اس کا تعلق اُفتادِ طبع سے ہے اور کسی حد تک ضرورت سے۔ اس باب میں انسانی رویوں کا اِستقصا کیا جائے تو دو طریقے سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ کسی طے شدہ فارمولے یا پروگرام کے بجائے جو سامنے آئے پڑھ لیا جائے۔ عام طور پر لوگ یہی کرتے ہیں۔ کتاب ہاتھ لگی تو کتاب پڑھ ڈالی۔ اخبار دیکھا تو اسے اُٹھا لیا۔ اسی رویے کا ایک اظہار یہ بھی ہے کہ ایک سے زیادہ کتب و رسائل بیک وقت زیرِ مطالعہ رہیں۔ سرہانے تین کتابیں دھری ہیں‘ کبھی ایک اُٹھا لی اورکبھی دوسری۔
یہ عمومی طرزِ عمل ہے اور اس میں کوئی خرابی نہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص شاعری کا ایک مجموعہ اور نثر کی کوئی کتاب ایک ساتھ پڑھ سکتا ہے۔ شاعری کا مطالعہ تسلسل کا مطالبہ نہیں کرتا۔ ہر غزل اور ہر نظم اپنی منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ غزل کے معاملہ میں تو یہ ہے کہ اس کا ہر شعر انفرادیت رکھتا ہے۔ اچھی شاعری من پسند مشروب کی طرح ہوتی ہے۔ قطرہ قطرہ اور جرعہ جرعہ وقفے وقفے کے ساتھ حلق سے اُترتی ہے تو جسم و جان مسحور رہتے ہیں۔ عمومی مطالعہ اسی طرح ہوتا ہے۔
مطالعے کی دوسری صورت موضوعاتی ہے جو عام طور پر محققین یا پیشہ ور طبقہ اختیار کرتا ہے۔ جیسے ایک صحافی کو حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا ہے۔ اس لیے وہ اخبارات کا باقاعدگی سے مطالعہ کرے گا اور اسے ہر وہ تحریر اپنی طرف متوجہ کرے گی جس میں خبر پائی جاتی ہو۔ محقق بھی یہی کرتا ہے۔ وہ زیرِ تحقیق موضوع پر مواد جمع کرتا اور پھر ایک ترتیب کے ساتھ اس کامطالعہ کرتا ہے۔ اس دوران میں کوئی دوسری کتاب اگر وہ پڑھتا ہے تو حَظ اٹھانے کے لیے کم اور اپنے موضوع کی ضرورت کے پیشِ نظر زیادہ پڑھتا ہے۔ مطالعے کی اس قسم کا تعلق اُفتادِ طبع سے زیادہ ضرورت سے ہے۔
مذہبی مطالعہ بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ اس کالم کا مخاطب وہ ایک عام آدمی ہے‘ تحقیق جس کا میدان نہیں ہے اور جو اپنے مذہبی علم میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔ مطالعہ اس کی پیشہ ورانہ ضرورت نہیں‘ ایک اضافی مشغلہ ہے۔ اس کے مطالعہ کا محرک روز مرہ کی کوئی ضرورت بھی ہو سکتی ہے جیسے کسی درپیش مسئلے کے دینی حل کی تلاش۔ ایسے آدمی کے لیے میرا پہلا مشورہ تو یہ ہوگا کہ وہ مذہبی مطالعے کو کسی ترتیب کے تابع کرے‘ اگر وہ مذہب کے مقدمے کو سمجھنے میں سنجیدہ ہے۔ اس کی پہلی ترجیح الہامی ادب ہونا چاہیے۔
الہامی ادب کے تین مظاہر ہیں: قرآنِ مجید‘ قدیم آسمانی صحائف و کتب اور اللہ تعالیٰ کے آخری رسولﷺ کے فرمودات۔ مطالعۂ قرآن ایک مسلمان کا معمول ہونا چاہیے۔ رمضان میں تو اسے چاہیے کہ قرآنِ مجید کے مطالعہ کو زیادہ وقت دے۔ ہم جیسوں کے لیے‘ جن کی اصل زبان عربی نہیں‘ ترجمے کی ضرورت رہتی ہے۔ اس کی ترجیح ایسا ترجمہ ہونا چاہیے جو مستند ہو۔ اگر اس کے ساتھ مختصر حواشی بھی ہوں تو یہ مطالعہ زیادہ مفید ہو سکتا ہے۔ میں عام آدمی کے لیے چار تراجم کے مطالعے کا مشورہ دوں گا۔ وہ ان میں کسی ایک کا انتخاب کر سکتا ہے۔ ان تراجم کے ذکر سے پہلے ایک انتباہ: میں تفہیمِ دین بالخصوص فہمِ قرآن کے باب میں فراہی مکتبِ فکر کو ترجیح دیتا ہوں‘ اگرچہ اُمت کی تمام علمی روایت سے حسبِ صلاحیت استفادہ کرتا ہوں۔ اس لیے میری رائے میں کسی علمی تعصب کا شامل ہونا بعید از قیاس نہیں۔
اب آئیے ان تراجم کی طرف: جناب جاوید احمد غامدی کاترجمہ ''البیان‘‘۔ مولانا مودودی کا ترجمہ ''تفہیم القرآن‘‘۔ مولانا وحیدالدین خان کا ''تذکیرالقرآن‘‘ اور مفتی تقی عثمانی صاحب کا ترجمہ‘ جو ابھی مکمل شائع نہیں ہوا۔ میری ترجیحات اس ترتیب کے مطابق ہوں گی۔ پہلی ترجیح 'البیان‘ ہے۔ فراہی مکتبِ فکر میں فہمِ قرآن کے باب میں نظمِ کلام کی حیثیت اساسی ہے۔ نظم کی رعایت سے کیا جانے والا یہ پہلا ترجمہ ہے۔ اس میں قوسین کے اضافے سے آیات کا وہ ربط واضح کیا گیا ہے جسے عام مفسرین اپنے اپنے فہم کے مطابق تفسیر اور حواشی میں کھولتے ہیں۔ 'البیان‘ میں مختصر حواشی بھی ہیں جن کی مدد سے مضمون کی مزید تنقیح ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک خوبی اس کا ادبی حسن ہے۔ جاوید صاحب نے اردو کو اسالیبِ قرآن کے تنوع سے اس طرح مانوس کر دیا ہے کہ اس نے عربی زبان کی فصاحت اور وسعت‘ دونوں کو بلاتکلف اپنے دامن میں سمو لیا ہے۔ جہاں ذاتِ الٰہی کے جلال کا بیان ہے‘ ترجمے میں الفاظ اس کی صورت گری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں جمال ہے وہاں اردو زبان کا حسن اپنے جوبن پر ہے۔
دبستانِ شبلی نے جو دینی لٹریچر پیدا کیا ہے اس نے اردو کو ثروت مند بنایا ہے۔ ترجمہ و تفسیر کے میدان میں بطورِ خاص مولانا ابوالکلام آزاد‘ مولا نا مودودی‘ مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی صاحب نے‘ محض ادب کے پہلو سے دیکھیے تو‘ ایک نئی دنیا آباد کی ہے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب کا ترجمہ اور تفسیر بھی اس پہلو سے نمایاں ہیں۔ ان دنوں جاوید صاحب اور محترم مفتی صاحب کے تراجم و تفاسیر میرے زیرِ مطالعہ ہیں۔ مفتی صاحب نے بھی ترجمے میں قوسین کا استعمال کیا ہے اور ان کی زبان بھی شستہ اور رواں ہے۔ نئی نسل کے جو لوگ تفسیرِ ماثور کا ذوق رکھتے ہیں‘ مفتی صاحب کی تفسیر ان کے لیے خاص تحفہ ہے۔ میں اپنے کالموں میں 'البیان‘ اور مفتی صاحب کی تفسیر کا تعارف کر چکا ہوں۔
جس طرح فراہی مکتبِ فکر میں جاوید صاحب تیسری پیڑھی ہیں‘ اسی طرح مفتی صاحب برصغیر میں فہمِ دین کی اس روایت کی تیسری نسل کے نمائندہ ہیں جس کا آغاز مولانا اشرف علی تھانوی سے ہوا۔ حضرت تھانوی کا تفسیری کام خواص کے لیے تھا۔ مفتی محمد شفیع مرحوم نے اسے سہل بنا کر ایک بڑے طبقے تک پہنچایا جو قدیم اسالیبِ کلام سے مانوس نہیں تھا۔ اس میں انہوں نے اپنا حصہ بھی ڈالا جس سے یہ روایت مزید توانا ہوئی۔ مفتی تقی عثمانی صاحب کی تفسیر اس روایت کا تیسرا ارتقا ئی مرحلہ ہے۔
جاوید صاحب کا معاملہ بھی یہی ہے۔ امام فراہی نے تفسیر کے باب میں جو لکھا اس کا مخاطب خواص تھے۔ اس لیے ان کا زیادہ تر کام عربی میں ہے۔ دوسرا انہوں نے تفسیر کے علم کو فنی حوالے سے دیکھا اور اُن الجھنوں کو سلجھایا جس کا سامنا اہلِ تفسیر کو تھا۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے امام فراہی کی اٹھائی ہوئی بنیادوں پر 'تدبرِ قرآن‘ کا عظیم الشان محل کھڑا کر دیا جس سے تفسیر کے اس مکتب سے ایک بڑا طبقہ واقف ہوا۔ جاوید غامدی صاحب نے مزید تزئین و آرائش کرتے ہوئے اس محل کو نئی شناخت دے دی۔
مولانا مودودی کے ترجمے کے بارے میں کچھ کہنا تحصیلِ حاصل ہے کہ وقت اس کی انفرادیت اور محاسن پر اپنی مہرِ تصدیق ثبت کر چکا۔ انہوں نے عربی مبین کو اردو مبین میں بدل دیا۔ ان کا ترجمہ اب تفسیر کی تلخیص کے ساتھ بھی شائع ہو رہا ہے۔ یہ خدمت ایک جدید عالم مولانا صدر الدین اصلاحی نے سرانجام دی ہے۔ جہاں تک مولانا وحیدالدین خان کا معاملہ ہے تو وہ دینی لٹریچر میں ایک نئے اسلوب کے امام ہیں۔ ان کا ترجمہ ''تذکیر القرآن‘‘ اس کا نمونہ ہے۔ اس ترجمے کی روح قرآنِ مجید کا کتابِ دعوت ہونا ہے جسے انہوں نے ترجمے میں پیشِ نظر رکھا ہے۔
اس رمضان میں میرا مشورہ ہے کہ قرآنِ مجید کے مطالعے کو سب سے زیادہ وقت دینا چاہیے اور اس کے لیے میں نے اپنے علم کی حد تک اپنی ترجیحات بیان کر دی ہیں۔ الہامی ادب کے دیگر مظاہر پر ان شاء اللہ اگلے کالم میں بات ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved