کسی ماں کے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کا پتہ چلے تو دل ڈوب سا جاتا ہے۔ میرے پرانے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ گاؤں سے دکھی خبر آئی ہے۔ میرے کزن کی بیوی‘ جو چار بچوں کی ماں تھی‘ کینسر سے لڑتے فوت ہو گئی۔ دسمبر میں گاؤں گیا تھا تو کافی دیر تک بیٹھا اُن سے باتیں کرتا رہا۔ ان کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ موت کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ اُن کے بڑے بیٹے ماجد کلاسرا کا واٹس ایپ پر میسج آیا تھا کہ انکل اماں چلی گئی ہیں۔ ماجد نے اپنی ماں کی تازہ کچی قبر کی تصویر بھیجی تو دل کٹ سا گیا۔
30‘ 32برس پہلے اُس کے والدین کی شادی میں مَیں خود شریک تھا۔ اُن دنوں ہمارے گاؤں میں دلہنوں کو ایک گھر سے دوسرے گھر تک لے جانے کیلئے رنگ برنگی ڈولی میں بٹھایا جاتا تھا۔ دلہن کی ڈولی اٹھانے والوں کو 'معاوضہ‘ ملتا تھا ورنہ وہ چاروں نوجوان کزنز دلہن کے سسرال میں ڈولی اٹھائے کھڑے رہتے تھے۔ پہلے گاؤں کے کمہار یہ کام کرتے تھے۔ ان بے چاروں کو جو کچھ مہر صاحبان دے دیتے وہ چپ کرکے لے لیتے یا تھوڑا سا احتجاج کرتے تو پچاس‘ سو روپے مزید مل جاتے۔ لیکن پھر دلہا کے کزنز نے یہ کام سنبھال لیا کیونکہ اس کے پیسے ملتے تھے۔ دلہن کی ڈولی اٹھائے وہ نوجوان اس دوران دلہا یا اس کے والدین اور بہنوں سے بھاؤ تاؤ کرتے رہتے۔ بولی لگتی۔ ایک شغل ہوتا تھا۔ ڈولی اٹھانے کیلئے رشتہ داروں میں بھی مقابلہ ہوتا تھا کہ کون سے چار نوجوان ڈولی اٹھائیں گے۔ اس طرح کئی دن پہلے گاؤں میں رشتہ داروں میں بحث چھڑ جاتی کہ شہ بالا کون ہوگا۔ مشکل سے فیصلہ ہوتا۔ زیادہ تر شہ بالے بڑے کزنز ہوتے تھے۔ وہ چاروں ڈولی خود تیار کرتے یا گاؤں کے کمہاروں کے ساتھ مل کر کراتے۔ رنگ برنگی ڈولی کے ساتھ ڈھول بجاتے دلہن کو میکے سے سسرال تک باراتیوں کے ہجوم میں ناچتے گاتے لے جاتے۔ دلہا اکثر ڈولی کے آگے اَکڑ کر چل رہا ہوتا۔ اگر ان ڈولی اٹھانے والوں کو تنگ کرنا مقصود ہوتا تو چند شرارتی کزنز چپکے سے دلہن کے ساتھ ایک موٹی تازی کزن بھی بٹھا دیتے تاکہ ڈولی کا زیادہ وزن ان سب کی چیخیں نکال دے۔
مجھے ماجد اور وقار کی اماں کی شادی اچھی طرح یاد ہے۔ میں اُس وقت شاید لیہ کالج میں پڑھتا تھا۔ یہ بچے میرے سامنے ہی بڑے ہوئے۔ ہمارے گاؤں اور علاقے میں تعلیم عام کرنے کا سہرا میرے نانا غلام حسن صاحب کو جاتا ہے جو چندرائن سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے‘ جو ہمارے گاؤں سے کافی دور تھا۔ وہ گاؤں کے بچوں کو ساتھ لے کر جاتے۔ اپنی بیٹی آمنہ (میرا نام اسی خالہ نے رکھا تھا) کو 1960ء کی دہائی میں لیہ گاؤں سے پنجاب یونیورسٹی بھیجا جہاں سے انہوں نے ماسٹرز کیا اور بینک میں اچھی پوسٹ حاصل کی۔ میرے نانا کے پروگریسو ہونے کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انہوں نے 1960ء کی دہائی میں دور دراز پسماندہ گاؤں‘ جس میں بجلی 1983ء میں آئی ‘ وہاں سے اپنی بیٹی کو پنجاب یونیورسٹی لاہور ماسٹرز کرنے بھیجا۔
ہمارے گاؤں میں اَن پڑھ ماؤں کا بچوں کو تعلیم دلوانے میں اہم کردار رہا ہے۔ اکثر والد بھی اَن پڑھ تھے اور کاشتکاری کرتے تھے۔ مائیں خود اَن پڑھ تھیں لیکن ان میں ایک جذبہ اُبھرا کہ اپنے بچوں کو اَن پڑھ نہیں رہنے دینا۔ میری اپنی اماں تین چار جماعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی تھیں جس کا انہیں عمر بھر افسوس رہا حالانکہ ان کی بڑی بہن آمنہ نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کیا تھا۔ لہٰذا اماں نے ہم سب بچوں پر سخت دباؤ رکھا کہ سب نے پڑھنا ہے۔ یوں ہمارے گاؤں میں خواتین کا تعلیم عام کرنے میں اہم رول تھا۔پہلے بیٹوں کی تعلیم پر زور دیا گیا تو پھر لڑکیوں کی باری آئی۔ ایک مقابلہ شروع ہوا کہ کس کے بچے زیادہ پڑھتے ہیں۔ میرے والد صاحب نے گاؤں میں لڑکیوں کے پرائمری سکول کی تعمیر کیلئے زمین دی۔ اللہ بھلا کرے سلیم بھائی کے دوست‘ لیہ کے سرور باجوہ صاحب کا جن کی پھوپھی 1983ء میں لیہ میں ایجوکیشن افسر تھیں۔ انہوں نے اُس وقت میری ایف اے پاس بہن کے اس سکول میں استانی کے آرڈر کرا دیے۔ میری وہ بہن تین ماہ قبل ہی چالیس سال سے زائد نوکری کرنے کے بعد ریٹائر ہوئی ہیں۔ جب میری بہن سکول میں استانی لگی تو جہاں کچھ لوگوں نے منفی باتیں کی تھیں وہیں پورے گاؤں میں ایک نئی تحریک بھی اُبھری تھی۔ ماؤں کو احساس ہوا کہ ان کی بیٹی بھی پڑھ کر استانی لگ سکتی ہے۔ شروع میں شاید اَجی بہن کی تنخواہ چار پانچ سو روپے تھی۔ میں لیہ کالج میں چار سال اپنی اسی بہن کی تنخواہ پر پڑھا۔
اپنی اماں کے بعد گاؤں میں اگر کسی ماں کو اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے بہت فکر مند پایا تو وہ وقار اور ماجد کی اماں تھیں۔ وہ میری پھوپھی کی بہو تھیں لہٰذا اکثر وہ اور بوا بچوں کی تعلیم بارے مجھ سے ڈسکس کرتے۔ بچوں کے داخلوں کا مسئلہ ہوتا یا ان کی اعلیٰ تعلیم کا معاملہ ہوتا‘ وہ بچوں کو کہتیں کہ میری ''روفو‘‘ سے بات کراؤ۔ وہ مجھے رئوف کی بجائے روفو کہتی تھیں۔ اگر کوئی بڑا مسئلہ ہوتا تو پھر ماجد کی اماں اپنی ساس یا میری پھوپھو کو کہتیں کہ اب آپ اپنے بھتیجے کو فون کریں۔ میری ایک ہی پھوپھو ہیں‘ جو بہت لاڈلی ہیں۔ پھر وہ مجھے کال کرتیں۔
میرے کزن کی بیوی نے مشکل دن بھی دیکھے۔ میرے کزن کی نوکری ایسی تھی کہ گھر سے دور رہنا پڑتا۔ یوں گھر کے کاموں سے لے کر بچوں کی تعلیم تک سب کا وہ خیال کرتی تھیں۔ جب مجھے چھ ماہ قبل ماجد نے میسج کرکے بتایا کہ انکل اماں کو کینسر ہو گیا ہے تو مجھے اپنی اماں یاد آئیں جو کینسر سے لڑتی ہوئیں قبر میں جا لیٹی تھیں۔ آٹھ ماہ تک نشتر ہسپتال کے کینسر وارڈ کے تکلیف دہ دن میری نظروں کے سامنے اُبھرے۔ اب یہ چار بھائی بہن اس درد و تکلیف سے گزرنے والے تھے۔ میں نے رپورٹس منگوا کر امریکہ میں ڈاکٹر عاصم صہبائی کو بھیجیں۔ ڈاکٹر عاصم صہبائی ایک فرشتہ صفت کینسر سپیشلسٹ ہیں۔ انہوں نے رپورٹس پڑھ کر تفصیلی علاج بتایا لیکن ساتھ میں لکھا کہ سروائیول کے امکانات کم ہیں۔ میں نے ماجد اور وقار کو نہیں بتایا۔ بچوں کو کیسے بتایا جا سکتا ہے کہ ان کی ماں چند ماہ کی مہمان ہے۔ آگاہی بھی بہت بڑا کرب ہے۔
دسمبر میں گاؤں گیا تو ان کی خیریت دریافت کرنے بھی گیا۔ میں نے انہیں کئی واقعات سنائے کہ کیسے لوگوں نے کینسر کو شکست دی۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری تھی۔ انہیں میری باتوں سے امید کی کرن نظر آئی تھی۔ جب میں ان سے مل کر روانہ ہورہا تھا تو مجھے علم تھا کہ میں انہیں آخری دفعہ مل رہا ہوں۔ مجھے برسوں پہلے کروڑ کا اپنا روم میٹ اور دوست کبریا خان سرگانی یاد آیا جس کی اماں کو کینسر تھا۔ انہی دنوں میری اماں کینسر سے فوت ہوئی تھیں۔ کبریا خان نے جب اپنی ماں کو تسلی دینے کی کوشش کی کہ آپ تندرست ہو جائیں گی تو کبریا خان کی اماں نے اسے کہا تھا کہ تمہارے روم میٹ رؤف کی اماں کوئی بچ گئی کہ میں بچ جاؤں گی۔
اب ان چار بچوں کی ماں کی گاؤں کے قبرستان میں قبر بن گئی ہے۔ ابھی پچھلے ماہ نعیم بھائی کی برسی پر گاؤں گیا تو قبرستان بھی گیا۔ میں نے چار سُو موجود اپنے پیاروں کی قبروں کو دیکھ کر سوچا کہ وہ گاؤں جہاں میں پیدا ہوا‘ بڑا ہوا‘ جن پیاروں کے درمیان بچپن‘ لڑکپن اور جوانی گزری وہ تو سارے یہاں آن بسے ہیں۔ اُس سرد دوپہر میں قبرستان سے دور میں نے دھند میں لپٹے اپنے گاؤں کی طرف دیکھا تو عجیب سی اجنبیت کا احساس ہوا۔ یوں لگا کہ یہ گاؤں تو کسی اور جنم کی کہانی ہے۔ میرے بچپن کا گاؤں تو اب اس قبرستان میں آباد ہے جہاں ایک اور ماں کی تازہ تازہ قبر بن گئی ہے جس پر اس کے بچے چند پھول رکھ کر رات گئے اپنے اداس گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved