دو روز قبل گزرا 23مارچ ہماری قومی زندگی کے تشخص اور جدوجہدِ آزادی کی سنہری یادیں لیے ہوئے تھا۔ کیا دن تھا جب مشرقی بنگال کے دور دراز کے شہروں اور قصبوں‘ شمال اور مغرب کے پہاڑی سلسلوں سے لے کر بحیرۂ عرب کے ساحلی علاقوں تک سے نامور سیاسی رہنماؤں‘ دانشوروں‘ ادیبوں‘ شاعروں اور نوجوانوں کا سیلاب لاہور میں اُمڈ آیا تھا۔ لاہور کا انتخاب بھی خوب تھا کہ جغرافیائی اعتبار سے برصغیر کے دیگر صوبوں کے قریب اور سیاسی اور سماجی تحریکوں کے اعتبار سے زندہ شہر تھا۔ اس یادگار جلسے میں شرکت کرنے والوں کا جذبہ دستاویزی فلموں میں دیکھیں تو دل کرتا ہے کہ ہم بھی گھروں سے نکل کر منٹو پارک‘ موجودہ گریٹر اقبال پارک کی طرف قدم اٹھانا شروع کردیں۔ یہ 84 سال پہلے مسلمانوں کی کئی دہائیوں پر محیط سیاسی اور معاشی حقوق کی آئینی اور جمہوری تحریک کا نقطۂ عروج تھا۔ اُن دو تین روز کے اجتماع کے دوران باہمی گفت و شنید‘ مجلسوں اور نظریاتی تصور اور حکمتِ عملی کا جائزہ لیں تو اس منفرد دن کی دھڑکنوں کے ساتھ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی اکثریت کے دل موسیقی کے سازوں کی طرح دھڑکتے تھے۔ جمہوری اور عوامی منشا و تائید کے ذریعے قومی ہم آہنگی اور اتفاقِ رائے کی لڑی میں پرونا اُس دن کا فیض اور صدیوں سے بکھرے اور بٹے ہوئے مسلمانوں کے ایک نشانِ منزل کے تعین کا منفرد مظاہرہ تھا۔ اُس دن ہم واقعی ایک قوم بن چکے تھے۔ ارادہ‘ جذبہ‘ تحریک اور سب سے بڑھ کر ایک بہت بڑا خواب اور اس کی تکمیل کے جوش نے سیاست‘ علاقائیت اور تمام فرقہ ورانہ تقسیم کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔ اُس دن علاقائی قومیت‘ جس کا پرچار کچھ مشہور اور قابلِ احترام کانگریسی مسلمان کرتے تھے‘ کا سحر بھی اکثریت کو متاثر نہ کر پایا تھا۔ اس دن اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی گئی تھی۔
اگرچہ آئینی مذاکرات کا راستہ کھلا رکھا گیا تھا اور کچھ مبصرین اور مؤرخین کا خیال ہے کہ قراردادِ پاکستان کو بارگین کے طور پر استعمال کرنے کا ارداہ تھا‘ لیکن کم از کم عوامی سطح پر مسلمان اکثریتی صوبوں پر مشتمل ایک آزاد وطن کو ایک واضح مقصد کے طور پر گرہ سے باندھ چکے تھے۔ یہ الگ بات کہ جب اُس منزل کے قریب پہنچے تو بنگال اور پنجاب کی تقسیم قبول کرنا پڑی۔ اسی طرح ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ کا بھارت کے ساتھ الحاق‘ جو برطانوی راج کی دو مملکتوں میں بانٹنے کے عام متفق اصولوں کے خلاف تھا‘ ہمارے سینے پر ابھی تک ایک بھاری پتھر کی طرح ہے۔ آزادی کے فوراً بعد خون ریزی اور آبادیوں کا زبردستی انخلا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ آخر ہمیں ''کرم خوردہ‘‘ پاکستان‘ دوحصوں میں شمال مغرب اور مشرق میں قبول کرنا پڑا۔ تمام تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ قائداعظم نے بنگال اور پنجاب کی تقسیم کو روکنے کے لیے بہت جتن کیے مگر برطانوی راج کے آخری برسوں میں طاقت کا توازن ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ بنگال اور پنجاب کی تقسیم نے ہمیں پورے پاکستان سے تو محروم کردیا مگر اس کے باوجود اپنی اس نئی بستی کو بسانے کا جذبہ شروع کے برسوں میں قابلِ دید تھا۔ لاکھوں کی تعداد میں مشرقی پنجاب سے مسلمانوں کے لُٹے پٹے قافلے‘ زخمی‘ بھوکے اور قریبی رشتہ داروں کی لاشیں لیے سرحدیں عبور کرتے تو سجدۂ شکر بجا لاتے۔ ایک آزاد قومی ریاست بے وسائل ضرور تھی مگر اپنے دامنِ پناہ میں ایک ماں کی طرح ہاتھ کھولے بے تابی سے منتظر تھی۔ کچھ ہی عرصے میں کیمپوں سے گھروں‘ کاروباروں‘ زمینوں اور سرکاری دفتروں کی جانب منتقلی شروع ہو گئی۔ اُجڑے ہوئے خاندان پھر سے آباد ہوگئے۔
کچھ تلخ حقیقتیں ہیں جو اکثر 23 مارچ اور 14 اگست کے روز جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ فرقہ ورانہ فسادات‘ لاکھوں معصوم جانوں کا ضیاع اور مقامی اکثریتی آبادیوں کے اقلیتی آبادیوں پر سرحد کے دونوں جانب حملوں اور خون ریزی کے ہولناک واقعات نے اس خطے میں خون کی گہری لکیرکھینچ دی۔ نفرتوں اور عدم برداشت کا جو بیج دو بڑی قومیتوں کے کچھ حلقوں نے بویا تھا‘ اب دونوں ملکوں میں تناور درخت بن چکا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اس کھیتی کا رقبہ پھیل کر وسیع ہو چکا۔ دونوں جانب مذہبی اقلیتیں انتہا پسند گروہوں کی زد میں ہیں اور ریاستیں بے بس ہیں۔ بدقسمتی سے بھارت میں تو ایسی پارٹی اقتدار میں ہے جو قیادت سے لے کارکنوں کے نچلے طبقے تک نہ صرف مسلمانوں بلکہ مسیحیوں اور کم تر سماجی قومیتوں کو بھی نشانے پر رکھے ہوئے ہے۔ بھارت میں ہندو قوم پرستی کا جن اگر بے قابو ہو چکا ہے تو یہاں انتہا پسندی کی جنونیت اور مسلمانوں کی مسلمانوں کے خلاف کھلی جنگ اور دہشت گردی کا عفریت پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ دونوں طرف تکثریت جس میں تمام مذاہب‘ فرقوں‘ زبانوں اور قومیتوں کے رنگ جھلکتے ہوں‘ دم توڑ چکی ہے۔ جنونیت کے سامنے عقل‘ تدبر اور انسانیت راستہ بدل لیتے ہیں۔
ہم حماقتوں اور جنونیت میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں مگن ہیں۔ شاید مثبت پہلوؤں کو سامنے رکھیں تو موازنہ نہ کر سکیں۔ اس وقت اتنا ہی کافی ہے کہ ترقی اور خوشحالی کے میدانوں میں زمانہ ہمیں بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اس زمانے کی آڑ میں اگر ذرا کھل کر بات کریں تو شروع کے پہلے سات برس کے بعد جو قیادت سامنے آئی پھر اس کی کوکھ سے جو نسل در نسل نئے رنگوں میں قیادت جنم لیتی رہی‘ وہ خود تو آگے نکل گئی مگر قوم اور عوام کو وہیں چھوڑ گئی جہاں آج ہیں۔ پاکستان میں موجودہ سیاسی کشمکش ہو یا قوموں کی مسابقت کی دوڑ میں آگے نہ بڑھ سکنے کی باتیں ‘ ہمارے مبصرین اکثران کا سبب قیادت کا فقدان بتاتے ہیں۔ قیادت کے بغیر تو کوئی ملک ایک دن بھی نہیں چل سکتا اور نہ کبھی پاکستان میں ایسا ہوا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جن موروثی سیاسی خاندانوں اور وہ جو اُن سے نجات کے خواب دکھانے میدان میں اترے اور آئین کو چار بار ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا‘ قیادت کا حساب انہوں نے دینا ہے۔ ان کے علاوہ کون اقتدار میں رہا ہے کہ ان سے ہم سوال کریں کہ وہ خواب جس کے لیے اس ملک کو بنانے کے لیے قربانیاں دی تھیں‘ کس نے چرایا ہے؟ اس بارے میں ایک بڑی تبدیلی چند برسوں سے مجھے نظر آرہی ہے اور وہ یہ کہ اچانک لوگوں نے یہ سوال اٹھانا شروع کر دیا ہے اور تواتر سے اُٹھایا جارہا ہے‘ اور اس کی گونج آنے والے ہر دن کے ساتھ بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی ہے۔
اچھی یا برُی خبر‘ یہ ہے کہ لوگ اپنا خواب کے لیے بے تاب ہیں‘ جبکہ پرانے بوسیدہ سیاسی حکمران گھرانے نئی نسل کو اپنا ورثہ منتقل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ سوال اتنا خوف پیدا کر چکا ہے کہ ماضی میں ایک دوسرے کے دشمن‘ اب دوست اور اتحادی ہیں۔ انہیں جوڑنے میں کچھ اتفاقات کا بھی عمل دخل ہے۔ دیکھیں وقت کا دھارا کس طرف بہتا ہے اور عوام کے سوال کی گونج کن بلندیوں کو چھوتی ہے۔ اس نظام کو اب 76 سال تو ہو چکے۔ اب ملک کی تیسری نسل جوان ہوکر جمہوریت‘ خوشحالی اور ترقی کے اس خواب پر اپنا حق تسلیم کرانے کے لیے اُٹھتے بیٹھتے‘ سوتے جاگتے سوال کرتی ہے کہ اگر حکمران ہماری غربت‘ بے روزگاری‘ پسماندگی اور بھکاریوں کے کشکول کو دنیا کے امیر ممالک کے سامنے بار بار رکھنے کے ذمہ دار نہیں تو پھر اور کون ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved