پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاملات طے پا چکے ہیں۔ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے بڑے اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے کئی مرتبہ کو ششیں کی گئیں لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ جو افراد اور کاروبار پہلے سے رجسٹرڈ ہیں انہی پر مزید بوجھ ڈال کر ٹیکس اہداف حاصل کیے جاتے رہے ہیں‘ حالانکہ مسئلے کا اصل حل ٹیکس بیس کو بڑھانے میں ہے۔ اربوں روپوں کا کاروبار کرنے والے اکثر دکاندار ایک تنخواہ دار شہری سے بھی کم انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں شبر زیدی اور اس سے پہلے (ن) لیگ کے دور میں اسحاق ڈار نے مخصوص حد سے زیادہ خرید و فروخت پر شناختی کارڈ کی شرط عائد کی تھی جسے تاجروں کے دباؤ پر تبدیل کرنا پڑا‘ لیکن اس مرتبہ زیادہ بہتر اور قابلِ عمل حل پیش کیا گیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے دکانداروں اور تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے ڈیلرز‘ ریٹیلرز‘ مینوفیکچرر اور امپورٹر کم ری ٹیلرز کی لازمی رجسٹریشن سکیم کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ دکاندار سالانہ کم از کم 1200 روپے ٹیکس دے گا۔ یکم اپریل سے ابتدائی طور پر چھ بڑے شہروں میں رجسٹریشن کی جائے گی۔ رجسٹریشن نہ کرانے والے کی نیشنل بزنس رجسٹری میں زبردستی رجسٹریشن کی جائے گی۔ ابتدائی طور پر کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ کوئٹہ اور پشاور میں رجسٹریشن کی جائے گی۔ تقریباً 31 لاکھ ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے پلان بنایا گیا ہے۔ تاجروں سے ٹیکس دکان کی سالانہ رینٹل ویلیو کے حساب سے وصول کیا جائے گا۔ پہلی ٹیکس وصولی 15 جولائی سے ہو گی۔ سکیم کے تحت ہر ماہ کی 15 تاریخ سے پہلے ٹیکس دینے کی صورت میں 25 فیصد رعایت مل سکتی ہے۔ 2023ء کا انکم ٹیکس گوشوارہ جمع کرانے والے تاجروں کو بھی رعایت دی جائے گی۔ ایف بی آر کی تاجر دوست ایپ کے ذریعے تاجروں اور دکانداروں کا سینٹرل ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا۔ لازمی رجسٹریشن سکیم پر سٹیک ہولڈرز سے بھی رائے طلب کی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ منصوبہ پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان قلیل مدتی قرض پروگرام کے جائزہ مذاکرات کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس آمدنی بڑھانے کے پلان کے طور پر آئی ایم ایف کوپیش کر دیا تھاجس کے مطابق ٹیکس دہندگان کی تعداد بڑھا کر محصولات کو بڑھائے جانے کا منصوبہ ہے۔وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ تقریباً80 فیصد بینک اکاؤنٹس ایف بی آر میں ظاہر ہی نہیں کیے جاتے۔ تقریبا ڈھائی فیصد آبادی ٹیکس ریٹرن فائل کرتی ہے۔ ان میں سے بھی تقریباً 55 فیصد صفر آمدن کی ریٹنگ فائل کرتے ہیں۔ 90 فیصد ٹیکس صرف 3.25 فیصد ٹیکس دہندگان ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح صرف 9 فیصد ہے اور34 لاکھ سے بھی کم لوگ فائلر ہیں۔
ایف بی آر کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے پاکستان اور بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے فنڈز استعمال کرنے کیلئے معاہدہ کیا گیا ہے۔اس کی مدت دو سال ہے جسے توسیع دی جا سکتی ہے۔ ایک ڈونر کارپوریشن کمیٹی بھی بنائی جائے گی تا کہ مانیٹرنگ کا مؤثر نظام بھی قائم ہو۔ پاکستانی سرکار ایک فرم کو ہائر کرے گی جو ایف بی آر کی ری سٹرکچرنگ پر کام کرے گی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ ہیومن ریسورس مینجمنٹ‘ سافٹ ویئر سسٹم پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔تاہم اس سے قبل ورلڈ بینک کے چار سو ملین ڈالرز اور ایشین ڈویلپمنٹ فنڈ کے تین سو ملین ڈالرز ایف بی آر میں مطلوبہ تبدیلیاں نہیں لا سکے۔اس کے علاوہ عالمی بینک کے بورڈ آف ایگزیکٹو ڈائریکٹرز نے پاکستان کے دو منصوبوں کی معاونت کیلئے 14 کروڑ 97 لاکھ ڈالر کی فنانسنگ کی منظوری دی ہے۔ ڈیجیٹل اکانومی اِن ہانسمنٹ (7کروڑ 80 لاکھ ڈالر )کا پروجیکٹ شہریوں اور فرموں کیلئے ڈیجیٹل طور پر عوامی خدمات کی فراہمی کی توسیع میں مدد کرسکتا ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت کی حمایت معاشی اور سماجی ترقی‘ رابطے کو وسعت دینے اور شہریوں اور کاروباری افراد‘ خاص طور پر خواتین کیلئے حکومت اور مالیاتی خدمات تک رسائی کو وسعت دینے کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ ڈیجیٹل اکانومی انہانسمنٹ پروجیکٹ ڈیجیٹل تصدیق اور ڈیٹا شیئرنگ پلیٹ فارمز تیار کیے جائیں گے۔ یہ منصوبہ خاص طور پر خواتین کو بینک اکاؤنٹ کھولنے یا سمارٹ فون ایپلی کیشن کے ذریعے کریڈٹ کیلئے درخواست دینے کے قابل بنا کر خواتین کی مالی شراکت کو بھی فروغ دے سکتا ہے۔ ڈیجیٹل معیشت اور ڈیجیٹل سرکاری خدمات کی مانگ ملک میں بڑھ رہی ہے‘ جس سے رابطے‘ ڈیجیٹل ادائیگیوں اور محفوظ اور قابلِ اعتماد ڈیجیٹل لین دین کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے۔ سندھ بیراجز امپروومنٹ پروجیکٹ (ایس بی آئی پی) کیلئے ورلڈ بینک سے دوسری اضافی مالی اعانت گڈو اور سکھر بیراج کی بحالی کے کاموں کی تکمیل اور کمیشننگ میں مدد کرسکتی ہے اور سندھ میں تین بڑے بیراجوں (گدو‘ سکھر اور کوٹری) کے انتظام کو بہتر بنا سکتی ہے؛ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ عالمی بینک سے ملنے والے فنڈز کو درست طریقے سے استعمال میں لایا جائے اور ورلڈ بینک اس حوالے سے آڈٹ کا انتظام بھی کرے تاکہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہو۔
وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ رواں سال300 ملین ڈالرز کے پانڈا بانڈز چینی مارکیٹ میں جاری کیے جائیں گے۔ چینی سرمایہ کار پانڈا بانڈز سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور پاکستان کی فنڈنگ کے ذرائع وسیع ہو سکتے ہیں اورسرمایہ کاروں کونئی مارکیٹ میں رسائی مل سکتی ہے۔چین دنیاکی دوسری بڑی بانڈمارکیٹ ہے۔ ابتدائی طور پر 250 سے300 ملین ڈالرکے بانڈز جاری کیے جائیں گے‘ بعد ازاں پانڈا بانڈز کے حجم میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف بانڈز جاری کرنے کی بات کی جا رہی ہے اور دوسری طرف پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان چینی آئی پی پیز کے 493 ارب ڈالرز ادا کرنے کیلئے مزید بجٹ مختص نہیں کرے گا جبکہ چینی حکومت کی جانب سے کئی مرتبہ دباؤ بڑھایا گیا ہے۔ موجودہ منصوبے مستقبل میں کیا نتائج سامنے لا سکتے ہیں اس بارے میں سردست دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ 300 ملین ڈالرز کے پانڈا بانڈز کا کافی انحصار پاکستان میں دیگر ممالک کی جانب سے سرمایہ کاری پر بھی ہے۔ فی الوقت سرمایہ کاری کے حوالے سے اچھی خبر ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 70 میگاواٹ کے ہائیڈرو پاور منصوبوں پر دستخط ہوگئے ہیں۔ سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ کے وفد نے وزیر اقتصادی امور احد چیمہ سے ملاقات کی ہے اور 48 میگاواٹ کے شونٹر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر دستخط کیے گئے ہیں۔ منصوبے پر 6 کروڑ 30 لاکھ ڈالر لاگت آئے گی۔ اس کے علاوہ 22 میگاواٹ کے جاگراں فور ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر بھی دستخط کیے گئے جس پر 4 کروڑ 10 لاکھ ڈالر لاگت آئے گی۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے چند ماہ قبل سعودی عرب اور پاکستان کی درمیان سرمایہ کاری کے طریقوں پر اتفاق ہوا تھااور خلیج تعاون کونسل کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کی توثیق کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ پاکستان اس اقدام کا 19 سال سے منتظر تھا۔ 29 ستمبر کو پاکستان اور خلیج تعاون کونسل نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں مذاکرات کا آخری دور مکمل ہونے کے بعد آزاد تجارتی معاہدے کے ابتدائی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ادھر سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے یوم پاکستان کی پریڈ کے موقع پر بطور مہمان خصوصی شرکت کی‘ بعد ازاں انہیں 'نشانِ پاکستان‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ سعودی وزیر دفاع کے ایک روزہ دورے کے دوران کئی اہم معاملات پر بات چیت ہوئی۔ ان حالات میں یہ رائے تقویت اختیار کر رہی ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے مستقبل میں سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ اس معاملے میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا کردار اہم ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved