وزیر خارجہ اسحاق ڈار صاحب نے کہا ہے کہ پاکستانی تاجر بھارت سے تجارت کرنے کے خواہاں ہیں۔ اور یہ کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تجارت بحال کرنے سے متعلق جائزہ لے گا۔ یہ تعلقات پانچ برس پہلے اُس وقت ختم کیے گئے تھے جب مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ ہم اور تو کچھ کر نہیں سکے‘ تجارتی تعلقات پر کلہاڑا چلا دیا۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح ہمارے قصباتی کلچر میں بات بات پر قطع کلامی کر لی جاتی ہے۔ تجارتی تعلقات ختم کرنے سے مقبوضہ کشمیر کو کیا فائدہ ہوا؟ یا پاکستان نے کیا حاصل کیا؟ کیا بھارت نے اپنا فیصلہ تبدیل کیا؟ کیا کسی نے ہماری منت سماجت کی کہ جناب! کرم کیجیے! تجارتی تعلقات بحال کر دیجیے۔ پانچ سال کے بعد ہم خود ہی بحال کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں!
چین اور تائیوان کی باہمی دشمنی سے زیادہ آخر کیا دشمنی ہو گی۔ چین تائیوان کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے تسلیم ہی نہیں کرتا۔ اس کا مؤقف ہے کہ یہ چین کا حصہ ہے۔ مگر دونوں کے درمیان تجارت بالکل نارمل انداز میں ہو رہی ہے۔ 2022ء کے اعداد و شمار کی رُو سے چین تائیوان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ چین کے ساتھ تجارت تائیوان کی کُل تجارت کا 23 فیصد ہے جبکہ جاپان کے ساتھ 9.7 فیصد۔ ہانگ کانگ کے ساتھ 7.3 فیصد اور جنوبی کوریا کے ساتھ 6.2 فیصد ہے۔ بھارت اور چین کی مخالفت ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بھارت کے شمال مغربی اور شمال مشرقی‘ دونوں کونے‘ چین کے مؤقف کی رُو سے متنازع ہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم مودی نے شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کا دورہ کیا تو چین نے احتجاج کیا۔ چین کا مؤقف یہ ہے کہ اروناچل تبت‘ یعنی چین کا حصہ ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی جھڑپیں بھی ہو جاتی ہیں۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں میں تجارت روز افزوں ہے۔ گزشتہ ماہ نئے چینی سال کے موقع پر نئی دہلی میں واقع چینی سفارتخانے کی ناظم الامور نے بہت نمایاں انداز سے بتایا کہ 2023ء میں بھارت اور چین کی باہمی تجارت بڑھتے بڑھتے 136.2ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے جبکہ اُس سے ایک سال پہلے یہ تجارت 135.98 ارب ڈالر تھی۔ بھارت چین سے الیکٹرانکس‘ ٹیلی کمیونیکیشنز‘ مشینری‘ ایٹمی ری ایکٹرز‘ بوائلرز‘ نامیاتی کیمیکل‘ پلاسٹک‘ کھادیں‘ میڈیکل‘ ٹیکنیکل‘ آپٹیکل آلات‘ فوٹو گرافی کے آلات‘ لوہا‘ سٹیل اور گاڑیاں درآمد کرتا ہے جبکہ چین کو صاف شدہ پٹرول‘ خام لوہا اور سمندری خوراک بھیجتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ بھارت اپنی دانست میں چین اور پاکستان‘ دونوں کو مخالف گردانتا ہے۔ ایک کے ساتھ اس کی سالانہ تجارت اربوں ڈالر کی ہے۔ دوسرے کے ساتھ صفر ہے۔ جہاں تک تنازعوں کا تعلق ہے‘ تجارت کے باوجود چین نے اپنا مؤقف بدلا نہ بھارت نے!
اب ذرا چین اور امریکہ کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ امریکہ پوری دنیا میں چین کو اپنا سب سے بڑا حریف سمجھتا ہے۔ لیکن تجارت دونوں کے درمیان زور و شور سے ہوتی ہے۔ عام امریکی سستی چینی اشیا سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ دوسری طرف امریکی کمپنیوں کیلئے چین ایک وسیع و عریض منڈی کا کام دے رہا ہے۔ 2022ء میں دونوں ملکوں کے درمیان 690 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔ ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان بھی تجارت ہو رہی ہے اور خوب ہو رہی ہے۔ ایک طرف ترکیہ حماس کی حمایت کرتا ہے۔ دوسری طرف تجارت اسرائیل سے ہو رہی ہے۔ 1995ء میں ترکی کی برآمدات اسرائیل کو 28 کروڑ ڈالر کی تھیں۔ ستائیس سال بعد 2022ء میں یہ تجارت سات ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد ترکیہ نے یہ اعلان ضرور کیا ہے کہ جو ترک کمپنیاں اسرائیل کے ساتھ تجارت کریں گی‘ پیچیدگی اور مشکلات کی صورت میں ترکیہ کی حکومت ان کی کوئی مدد نہیں کرے گی۔ پابندی نہیں لگائی۔
یہ ہے بین الاقوامی صورتِ حال۔ سیاسی محاذ پر یہ ممالک اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ سفارتی محاذ پر مخالفتیں برپا کر رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ اپنے اپنے ملک کے مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں! ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ خواندگی کی شرح خطرناک حد تک کم ہے۔ عوام جذباتی ہیں۔ ایسی جماعتوں کی کمی نہیں جن کا وجود صرف اور صرف تقریروں کا مرہونِ منت ہے۔ اقتدار میں وہ کبھی آئیں نہیں۔ حکومتی مشکلات سے مکمل نا آشنا ہیں۔ بجٹ کی پیچیدگیوں سے کبھی پالا نہیں پڑا۔ نہ معلوم ہے کہ توازنِ ادائیگی کس چڑیا کا نام ہے نہ یہ معلوم ہے کہ توازنِ تجارت کیا ہوتا ہے۔ ان کی بقا صرف اور صرف اس میں ہے کہ عوام کے جذبات سے کھیلا جائے اور جذباتی نعروں کی مدد سے اپنے وجود کو زندہ رکھا جائے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک کا فائدہ کہاں ہے اور عوام کو تکالیف سے کیسے بچایا جائے۔ بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے کا زیادہ فائدہ پاکستان کو ہو گا نہ کہ بھارت کو۔ بھارت ایک بہت بڑی‘ وسیع و عریض منڈی ہے جو پاکستانی بر آمد کنندگان کو ملے گی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان چھوٹی منڈی ہے جو بھارتی برآمد کنندگان کو میسر آئے گی۔ لدھیانہ میں ایک خاتون نے خواتین کیلئے پاکستانی کپڑوں کا کاروبار شروع کیا ہے۔ اسے پورے بھارت سے دھڑا دھڑ آرڈر موصول ہو رہے ہیں۔ ملبوسات اور کپڑے کے پاکستانی برانڈز کو اگر بھارتی منڈی تک براہِ راست رسائی مل جائے تو کسی شک و شبہ کے بغیر وہ بھارت پر چھا جائیں گے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ پاکستان اتنا بھی نحیف و نزار نہیں کہ بھارت کے ساتھ تجارت کھلے تو موم کی طرح پگھل جائے گا۔اس وقت بھارت اور پاکستان کے درمیان کتابوں اور رسالوں کا لین دین بند ہے۔ بھارت میں کسی کو کوئی کتاب بھیجی جائے تو اول تو اسے ملتی ہی نہیں‘ اور اگر مل بھی جائے تو مہینوں بعد ملتی ہے۔ سب سے زیادہ زَد ادبی کتب و جرائد پر پڑ رہی ہے۔ بھارت میں کئی بین الاقوامی پبلشر بیٹھے ہیں جیسے پین گوئن‘ ہارپر کولنز اور پَین میکملنز۔ ان کی بھارت میں چھپی ہوئی کتابیں پاکستانیوں کو اُن کتابوں کی نسبت ارزاں پڑتی ہیں جو یہی کمپنیاں برطانیہ اور امریکہ میں شائع کرتی ہیں۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ پبلشر پاکستان میں اپنی شاخیں کیوں نہیں کھولتے۔ اس پر حکومت کو غور کرنا چاہیے۔ سویڈن کی مشہور عالم کمپنی ''IKEA‘‘ کی بھارت میں پانچ برانچیں ہیں اور پاکستان میں ایک بھی نہیں۔ کیوں؟ اس کا جواب بھی حکومت کو دینا چاہیے۔ بھارت اس وقت آئی ٹی کی دنیا کا بادشاہ ہے۔ اگر تجارتی اور دیگر معاشی حالات دونوں ملکوں کے درمیان نارمل ہو جائیں تو پاکستانیوں کو گھر بیٹھے حیدر آباد‘ چنائی اور بنگلور کی آئی ٹی کمپنیوں سے ملازمتیں مل سکتی ہیں!
امریکہ دنیا پر حکومت کر رہا ہے صرف اور صرف علم کی وجہ سے! چین نے دنیا کو اپنی برآمدات کے ذریعے فتح کر لیا ہے۔ بھارت چین سے آگے بڑھنے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔ ہم اِس زمانے میں بھی دنیا کو تلوار اور تیر و تفنگ کی مددسے فتح کرنا چاہتے ہیں۔ لال قلعہ سے لے کر وائٹ ہاؤس تک تمام عمارتوں پر ہم سبز ہلالی پرچم لہرانا چاہتے ہیں۔ ترقی کی شرح ہماری دو فیصد ہے، آئی ایم ایف کے سامنے ہم رکوع میں کھڑے ہیں۔ نعرے اور تقریریں ہماری کوئی سنے تو اسے لگتا ہے ترقی یافتہ ممالک ہمارے سامنے ذرّے سے بھی کمتر ہیں!! ہم یہ حقیقت ماننے کیلئے تیار ہی نہیں کہ مضبوط معیشت کے بغیر کوئی نعرہ کام آتا ہے نہ کوئی نظریہ! یہ جو بھارت نے سفارتی محاذ پر مشرقِ وسطیٰ کو فتح کر لیا ہے تو وجہ اس کی مضبوط معیشت ہے! سات سے زیادہ دورے وزیراعظم مودی نے متحدہ عرب امارات کے کیے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے اہم ترین ملک نے اپنا بلند ترین سول ایوارڈ وزیراعظم مودی کو دیا ہے۔ زمانے کی گاڑی کو نعرے چلاتے ہیں نہ جذباتی تقریریں! زمانے کی گاڑی کو روپیہ چلاتا ہے! صرف روپیہ!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved