اب ہندوستان کی تقسیم ہو چکی تھی۔ بلونت سنگھ لاہور سے الہ آباد جا کر زندگی کو ایک نئے سرے سے شروع کر رہا تھا۔ اس کے افسانوں کے مجموعے ''چک پیراں کا جسا‘‘، ''بلونت سنگھ کے افسانے‘‘، ''سنہرا دیش‘‘ اور ''پہلا پتھر‘‘ لاہور سے شائع ہوئے تھے۔ 1947ء میں اُس کا تیسرا افسانوی مجموعہ ''ہندوستان ہمارا‘‘ ہندوستان سے شائع ہوا۔ 1948ء میں بلونت سنگھ وزارتِ اطلاعات و نشریات کے رسالوں ''آج کل‘‘، ''بساطِ عالم‘‘ اور نونہال کے ادارتی عملے سے وابستہ ہو گیا‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ ملازمت کے لیے بنا ہی نہیں تھا۔ خوشامد اور مصلحت کا اس کی شخصیت سے کوئی علاقہ نہ تھا۔ وہ دل ہی دل میں کڑھتا تھا کہ اوسط درجے کی ذہانت کے افراد کیسے ذہین لوگوں کو روند کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ وہ ملازمت تو کر رہا تھا لیکن اس کے اندر ایک کشمکش جاری تھی۔ ایسے میں اس کے سکون کا ذریعہ اس کی تحریریں تھیں۔ تقسیمِ ہندوستان کے بعد 1948ء ہی میں بلونت سنگھ کا پہلا ناول منظرِ عام پر آیا جس کا عنوان تھا ''رات‘ چور اور چاند‘‘۔ اُردو میں بلونت کی کل گیارہ کتابیں دستیاب ہیں جن میں سات افسانوں کے مجموعے اور چار ناول ہیں۔ بلونت سنگھ نے اُردو کے علاوہ ہندی میں بھی کتابیں لکھیں جن کی تعداد تیس ہے۔ یوں اُردو اور ہندی کتابوں کی کُل تعداد 41 بنتی ہے جو بلونت کی غیر معمولی صلاحیتوں کی دلیل ہے۔ لیکن لکھنے کے عمل میں ایک اور بات بلونت کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے‘ وہ یہ کہ وہ کہانیاں اپنے ہاتھ سے نہیں لکھتا تھا بلکہ بولتا تھا اور کوئی دوسرا لکھتا تھا۔
بلونت سنگھ کو پنجاب سے عشق تھا۔ پنجاب سے اُس کی وابستگی کی شدت اُس کی کہانیوں اور ناولوں میں نظر آتی ہے۔ بلونت سنگھ کے افسانوں اور ناولوں میں پنجاب کے کھیت‘ پگڈنڈیاں‘ چشمے‘ درخت‘ پرندے اور موسم سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ پنجاب سے والہانہ عشق کی یہ مہک بلونت کی اس تحریر میں محسوس کریں ''وارث شاہ کا پنجاب‘ گندم کے سنہرے خوشوں والا پنجاب‘ شہد بھرے کنوئوں والا پنجاب‘ ہیر کا پنجاب‘ کونجوں اور رہٹوں والا پنجاب‘‘۔ بلونت سنگھ کے افسانوں کی کُل تعداد 132 ہے جن میں پنجاب اور پنجاب میں رہنے والوں کا عکس نظر آتا ہے۔
پنجابیت کی چھاپ نہ صرف بلونت سنگھ کے موضوعات‘ کرداروں اور locale میں نظر آتی ہے بلکہ ان کے اسلوب اور ڈسکشن میں پنجابی کے الفاظ اور expression کا استعمال ہمیں کثرت سے ملتا ہے۔ بلونت کا شعری ذوق بھی اس کے اسلوب کا اہم حصہ ہے۔ مختلف تحریروں میں کہیں اُردو اور کہیں پنجابی اشعار کا استعمال معانی کے ابلاغ میں معاونت کرتا ہے۔ خاص طور پر پنجابی فوک شاعری کا استعمال کہانیوں کی اثر پذیری کو بڑھا دیتا ہے۔
بلونت سنگھ کو ایک رومانوی کہانی کار کہا جاتا ہے لیکن اس کی کہانیوں میں موضوعات کی تہہ داری ہے۔ ان میں کہیں رومان ہے‘ کہیں فسادات کا عکس ہے اور کہیں نفسیات کی گرہ کشائی ہے اور یہ سب کچھ ایک دیانتدارانہ سادگی سے پینٹ کیا گیا ہے۔ اُس کی کہانیوں میں ایک اہم موضوع سکھوں کا رہن سہن ہے۔ اردو کے افسانہ نگاروں میں پریم چند اور احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں بھی دیہاتی زندگی کے رنگ ملتے ہیں لیکن بلونت کے افسانوں میں پنجاب اس کی obsession تھا۔ اس میں بھی اس کی توجہ کا مرکز سکھ کردار‘ سکھ خاندان‘ اُن کا رہن سہن‘ اُن کی خوشیاں‘ اُن کے غم‘ اُن کے خواب‘ اُن کے آدرش اور اُن کی اقدار ہیں۔
بلونت کی کہانیوں میں ایک مشترک کردار ایک سکھ مرد کا نظر آتا ہے جو وجیہ جوان‘ بہادر‘ نڈر اور بے خوف ہے اور جو اعلیٰ اقدار پر یقین رکھتا اور جو Moment of Crisis میں ایک بہادر فرد کے طور پر ابھرتا ہے۔ یہ کردار اس کی پہلی کہانی ''سزا‘‘ میں تارا سنگھ کا ہے جو جوان اور وجیہ مرد ہے اور جو دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اپنی پس انداز رقم کی قربانی دیتا ہے۔ بلونت کی کہانی ''جگا‘‘ میں مرکزی کردار جگا بھی ایک نڈر‘ بہادر اور بے خوف شخص ہے جو علاقے کا ڈاکو ہے جس کے خوف سے لوگ تھرتھر کانپتے ہیں لیکن جو ایک معصوم سی لڑکی کے حسن کا اسیر ہو گیا ہے۔ وہ لڑکی کسی اور سے محبت کرتی ہے اور آخر میں جگا اپنی محبت کا گلا گھونٹ کر لڑکی کے راستے سے خودبخود ہٹ جاتا ہے۔ اسی طرح کے کردار دوسری کہانیوں میں بھی ملتے ہیں مثلاً ''تین باتیں‘‘ میں رویل سنگھ، ''پنجاب کا البیلا‘‘ میں جسا سنگھ، ''راستہ چلتی عورت‘‘ میں بوٹا سنگھ اور ''دو اکال‘‘ میں دیدار سنگھ۔ بلونت کے فسادات کے حوالے سے کہانیوں میں بھی ایسے ہی سکھ کردار سامنے آتے ہیں اور انسانیت کے رشتے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ یوں تو بلونت سنگھ نے اپنی زندگی میں بہت لکھا لیکن ان کی پہچان ان کے افسانے ہیں۔ بلونت کے اپنے پسندیدہ افسانوں میں جگا‘ کالی تتری‘ دید ار سنگھ‘ گرنتھی‘ ماما مہنگا سنگھ‘ سہرا‘ ہندوستان ہمارا‘ تین باتیں اور راستہ چلتی عورت شامل ہیں۔
حکومتِ ہندوستان کے زیرِ اہتمام رسالوں کی ادارت میں اڑھائی برس کام کرنے کے بعد بلونت نے ملازمت کو خیرباد کہا اور الہ آباد میں اس ہوٹل کا انتظام سنبھال لیا جو اس کے والد نے قائم کیا تھا۔ اب الہ آباد میں واقع امپریل ہوٹل بلونت کی دلچسپی کا مرکز تھا لیکن بلونت کا دل کتابوں اور لکھنے پڑھنے میں اٹکا ہوا تھا۔ کاروبار اور ملازمت اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ انہی دنوں بلونت شادی کے بندھن میں بندھ گیا۔ لیکن یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور نوبت طلاق تک جا پہنچی۔ بلونت کے مالی حالات بھی اتنے اچھے نہیں تھے آخر اس نے والد کا قائم کردہ ہوٹل بیچنے کا فیصلہ کیا اور اپنی والدہ کے ساتھ نیتا نگر میں رہنے لگا۔ کئی برس گزر گئے بلونت کی زندگی میں تنہائی کا دور دورہ تھا‘ تب اس نے ایک بار پھر شادی کا فیصلہ کیا۔ اس شادی سے اس کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں۔ دوسری بیوی نے اس کی زندگی میں اس کا بھرپور ساتھ دیا۔
حیرت کی بات یہ کہ ادبی میدان میں اس قدر متحرک رہنے والے بلونت سنگھ کی دوستی کا دائرہ بہت محدود تھا۔ اس میں دیگر عوامل کے علاوہ بلونت سنگھ کی اپنی خودپسند اور خودنگر طبیعت کا بھی دخل تھا۔ بلونت کی زندگی کے آخری دن تنہائی میں گزر رہے تھے۔ کبھی کبھی اپنے گھر میں تنہا بیٹھے اُسے لاہور کے وہ دن یاد آ جاتے جب وہ بھرپور جوان تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے جب وہ لاہور کی سڑکوں پر رکشے میں سفر کرتا اور اس کا السیشن کتا اس کے قدموں میں بیٹھا ہوتا تھا۔ اسے یوں لگتا لاہور کی فضائوں میں ہر طرف رنگ بکھرے ہیں اور سرخ گلابوں کی خوشبو اس کی ہم سفر ہے۔ لاہور کی دلبر شاموں میں اُس کی ملاقاتیں صلاح الدین احمد‘ راجندر سنگھ بیدی اور کریشن چندر سے ہوتیں۔ لوگ اس کی کہانیوں کے دیوانے تھے۔ کیسے کیسے کردار تھے جو بلونت نے اپنی کہانیوں اور ناولوں میں تخلیق کیے اور جو پڑھنے والوں کی یادداشت میں کندہ ہو گئے۔ اس کے چاہنے والے اسے خط لکھتے اور اس کی تحریروں کی تعریف کرتے۔ لاہور کی اجلی صبحوں اور رنگ برساتی شاموں کی اپنی ہی بات تھی۔ تب وہ زندگی کے ہر لمحے سے رس کشید کر رہا تھا اور اب یہ عالم کہ وہ الہ آباد میں گمنامی کے گوشے میں زندگی گزار رہا ہے۔ ایسے میں وہ سوچتا کہ وقت کیسے بدل جاتا ہے؟ زندگی کے رنگ کیوں مدھم پڑ جاتے ہیں؟ آخرکار 7 مئی 1980 کو بلونت سنگھ کی اس بے کیف زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔ پنجاب کے گلی کوچوں اور دلبر کرداروں کی کہانیاں سنانے والا ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ کوئی بڑا لکھنے والا اس کی آخری رسوم میں شامل نہ تھا۔ زندگی یوں ہی معمول پر چل رہی تھی۔ زندگی اس کے بعد بھی معمول پر چلتی رہے گی لیکن ہمیں اس قصہ گو کی کمی محسوس ہو گی جس کی تحریروں میں پنجاب کا دل دھڑکتا تھا۔ (ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved