قدیم یونان میں جب امرا کو خوش کرنے کے لیے کھیلوں اور میلوں کا انعقاد کیا جاتا تھا تو اس میں غریب عوام کو تفریح کے لیے ایک مہرہ بنا لیا جاتا تھا۔ یعنی عوام امرا کے لیے انسان نہیں‘ تفریح کے کھلونے تھے۔ ان پر ظلم کرکے اشرافیہ کو تسکین ملتی تھی کیونکہ ان کے کھیل زیادہ تر خونیں ہوا کرتے تھے۔ ملکہ‘ بادشاہ اور وزیروں کو خوش کرنے کے لیے غریب عوام اور قیدیوں کو سورماؤں یا بھوکے شیروں کے مقابلے میں کھیل کے رِنگ یعنی اکھاڑے میں اُتارا جاتا تھا۔ کبھی ان کے مقابلے میں گینڈے‘ ریچھ‘ چیتے اور شیر جیسے جنگلی جانور ہوتے۔ جو کسی قدر جنگجو ہوتے وہ ان جانوروں سے بچ جاتے تھے‘ مگر قیدی اور غریب عوام ان جانوروں کا نوالہ بن جاتے تھے۔ جب یہ جانور ان انسانوں کو کھا رہے ہوتے تو طبقۂ اشرافیہ اس عمل کو دیکھ کر تالیاں بجا رہا ہوتا تھا۔ کھیل میں یہ ان کا پسندیدہ لمحہ ہوتا تھا۔ ان کے لیے غریبوں کی بے بسی اور تکلیف کھیل تماشا تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یونان کے اُس قدیم کولوزیم میں‘ جہاں ان کھیلوں اور میلوں کا انعقاد ہوتا تھا‘ پانچ لاکھ سے زائد انسانوں اور دس لاکھ سے زائد جانوروں کی موت ایسے ہی مقابلوں میں ہوئی۔ اس رِنگ کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ امرا کے یہ کھیل تماشے کتنے ہی بے گناہ لوگوں اور جانوروں کی جان لے گئے۔ سپین میں اب بھی بُل فائٹنگ ہوتی ہے جس سے انسان اور جانور‘ دونوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ بُل فائٹر جب لال کپڑا لے کر اکھاڑے میں اترتا ہے تو بپھرا ہوا سانڈ اسے اپنے سینگوں پر اٹھا کر پٹختا ہے۔ کبھی انسان سانڈ کے سینگوں کی وجہ سے لگنے والے زخموں تو کبھی سانڈ کے پاؤں تلے کچلے جانے کی وجہ سے جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح متعدد سانڈ بھی انسانوں کے شوق کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ ان بپھرے ہوئے جانوروں کو کنٹرول کرنے کے لیے نشہ آور ٹیکے بھی لگائے جاتے ہیں جس سے یہ نڈھال ہو کر گر جاتے ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ غصے سے آگ بگولہ سانڈ نے شائقین پر چڑھائی کردی۔ ایسے کھیل جن سے انسان زخمی ہو جائیں اور جانور کو بھی نقصان پہنچے‘ وہ کھیل نہیں‘ ظلم ہے۔
پھر جیسے جیسے انسان نے ترقی کی‘ کھیلوں کی ہیئت بدلنے لگی۔ خونیں کھیلوں کی جگہ فٹ بال‘ کرکٹ اور ہاکی نے لے لی۔ انسان نے نیزے اور تیر کمان چھوڑ کر بلا‘ ہاکی اور ریکٹ اٹھا لیے۔ پھر اولمپکس جیسی مہذب گیمز کا آغاز ہو گیا۔ ان کھیلوں کیلئے ایتھلیٹس سالوں تیاری کرتے ہیں اور اپنے اپنے ملکوں کے لیے میڈلز جیتتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک بالخصوص اپنے کھلاڑیوں اور ایتھلیٹس کی ٹریننگ پر بہت توجہ دیتے ہیں جواپنے ملکوں کا نام روشن کرتے ہیں۔ اس طرح دیگر کھیل بھی فروغ پا رہے ہیں۔
دوسری طرف دنیا کے چند ممالک میں اب بھی کچھ ایسے کھیل کھیلے جا رہے ہیں جن سے انسانوں اور جانوروں‘ دونوں کا جانی نقصان ہوتا ہے۔ یہ کھیل کے نام پر انسانیت کی تذلیل ہیں۔ بعض خلیجی ممالک میں اب بھی بچوں کو اونٹوں کی پیٹھ پر باندھ کر ریس کرائی جاتی ہے جس میں بعض دفعہ بچے گر کر اونٹوں کی ٹانگوں تلے کچل کر مارے جاتے ہیں۔ اسی طرح کتوں کی ریس‘ ریچھوں‘ مرغوں اور جانوروں کی لڑائی بھی کرائی جاتی ہے اور اس پر جوا بھی لگایا جاتا ہے۔ کوئی بھی ایسا کھیل جس سے کسی جان کو خطرہ ہو‘ وہ ہرگز نہیں کھیلنا چاہیے۔
آج کل پاکستان اور بھارت میں ایک اور بھی خونیں کھیل کھیلا جاتا ہے جس سے ہر سال سینکڑوں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں‘ حتیٰ کہ اس کھیل میں حصہ لینے والوں کے اپنے ہاتھ اور انگلیاں بھی کٹ جاتی ہیں‘ لیکن اس کے شیدائیوں کو کوئی پروا ہی نہیں کہ اس کھیل سے ان کو یا دوسروں کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ کھیل پتنگ بازی کا کھیل ہے۔ رواں سال اب تک پتنگ بازی کی وجہ سے کم و بیش سات افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ویسے تو سرکاری سطح پر صوبے بھر میں پتنگ بازی پر پابندی عائد ہے لیکن پھر بھی ہر سال موسمِ بہار میں کچھ من چلے قانون کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے بسنت کا تہوار مناتے ہیں۔ کچھ لوگ اس تہوار کو قدیم ہندو تاریخ کے ساتھ جوڑتے ہیں‘ کچھ پنجاب کی ثقافت گردانتے ہیں۔ موسم بہار کی آمد کے تہوار کو اگر کھابوں‘ موسیقی اور جھولوں تک محدود رکھا جاتا تو ٹھیک تھا لیکن پتنگ بازی کی شمولیت کی وجہ سے بسنت کا تہوار خونیں صورت اختیار کر گیا۔ کیا ہم بہار کی آمد پر پتنگ بازی کے علاوہ اور کوئی کھیل نہیں کھیل سکتے؟ ایسا کھیل جو لوگوں کی جان لینے کا باعث بنے‘ وہ کھیل نہیں۔ پتنگ بازی کرتے ہوئے اکثر بچے چھتوں سے نیچے گر جاتے ہیں‘ کچھ کے ہاتھ پاؤں ٹوٹ جاتے ہیں تو کچھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ سرگودھا میں ایک بچہ لوہے کے پائپ کے ساتھ پتنگ لوٹنے کی کوشش میں جان کی بازی ہار گیا کیونکہ لوہے کا پائپ ہائی وولٹیج تاروں سے ٹکرا گیا تھا۔ چند روز قبل ہی فیصل آباد میں ایک نوجوان ڈور پھرنے سے جاں بحق ہو گیا۔ 23سالہ آصف گھر سے افطار کا سامان لینے نکلا تھا لیکن پتنگ بازی کا خونیں کھیل اس کی جان لے گیا۔ عید کے بعد اس کی شادی تھی۔ گھر میں عید کے ساتھ ساتھ اس کی شادی کی تیاریاں بھی چل رہی تھیں۔ اس کے اہلِ خانہ پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔
پتنگ بازی کو خونیں کھیل بنانے کی اصل وجہ وہ دھاتی ڈور ہے جس کا استعمال ممنوع ہے لیکن یہ تیار بھی ہورہی ہے اور بازار میں فروخت بھی ہو رہی ہے۔ پہلے ڈور عام دھاگے سے بنی ہوتی تھی لیکن لوگوں نے ایک دوسرے کی پتنگ کاٹنے کے چکر میں ایسی ڈوریں بنا لیں جن پر کیمیکل اور شیشہ لگا ہوتا ہے۔ یہ دھاتی ڈور پیچ میں پتنگ تو کاٹتی ہی ہے لیکن بعد ازاں اس کٹی ہوئی ڈور سے کسی بھی راہ گیر یا موٹرسائیکل سوار کا گلا بھی کٹ سکتا ہے۔ چند دن قبل اسلام آباد کے سیکٹر جی سیون ون میں بھی باپ بیٹا گردن پر ڈور پھرنے سے زخمی ہو گئے جبکہ گزشتہ روز فیصل آباد میں موٹر سائیکل سوار دو نوجوان کینال روڈ پر کٹی پتنگ کی ڈور پھرنے سے زخمی ہو گئے جس کے بعد متعلقہ ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا۔
فیصل آباد میں نوجوان کی ڈور پھرنے سے ہلاکت نے پورے معاشرے میں غم و غصے کو جنم دیا ہے کہ پابندی کے باوجود قاتل ڈور اور پتنگیں بنانے والے کیسے آزادی سے کاروبار کر رہے ہیں۔ من چلے کیسے آزادی سے پتنگ بازی کر رہے ہیں؟ حکام کے مطابق اب پتنگ بازی کا زیادہ کاروبار سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے اور اس سامان کی آن لائن ڈیلیوری ہو رہی ہے۔ نوجوان کی ہلاکت کے بعد حکومت کچھ فعال ہوئی ہے اور پولیس کی طرف سے پتنگ بازوں کے خلاف کیے گئے کریک ڈاؤن کے بعد صورتحال میں کچھ بہتری بھی آئی ہے۔ مگر کچھ عرصے بعد پھر سب بھول جائیں گے اور قاتل ڈور کا کاروبار یونہی چلتا رہے گا۔ جب تک یہ دھاتی ڈور پتنگ بازی میں استعمال نہیں ہوتی تھی‘ بسنت بہت خوبصورت تہوار تھا‘ لوگ اپنے گھروں پر دعوتیں کیا کرتے تھے‘ دنیا بھر سے سیاح لاہور آیا کرتے تھے‘ میوزیکل نائٹس‘ بار بی کیو اور پتنگ بازی کا الگ ہی مزہ تھا۔ دن کو بسنت کا الگ رنگ تھا جبکہ رات کو لائٹس لگا کر الگ بسنت منائی جاتی تھی۔ لوگ سفید لباس پہنتے اور پیلے اور نارنجی رنگ کے دوپٹے گلے میں ڈالتے تھے۔ بسنت‘ بہار اور پتنگ بازی پر خصوصی گیت لکھے جاتے تھے۔ لیکن پھر دھاتی اور کیمیکل ڈور اس تہوار کو نگل گئی۔ اب نوجوانوں کو چاہیے کہ موسم بہار میں اس خونیں کھیل کے بجائے پودے لگائیں تاکہ اس سے ماحولیات پر اچھا اثر پڑے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved