عمر بھر میں اپنے ان رفتگاں کی تعداد گننا چاہوں جن کے چلے جانے نے دل پر غیر معمولی اثر کیا تو وہ بھی اتنے ہیں کہ میں گن ہی نہیں سکتا۔ اور تمام رفتگاں کا شمار تو ناممکن ہے۔ ظاہر ہے یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہیں‘ ہر ایک کے ساتھ ہے۔ اندازہ کیجیے کہ یہ انسان کی ایک مختصر سی اوسط عمر کا حال ہے۔ گھر بار‘ خاندان‘ احباب‘ دوست‘ ملنے جلنے والے۔ ہر دائرے میں اَن گنت لوگ ہیں۔ صرف ادب کے حوالے سے بھی سوچوں تو شمار ممکن نہیں۔ پھر بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی یاد آتی ہے تو دل جیسے کوئی چٹکی میں پکڑ لیتا ہے۔ میرا عزیز شاعر دوست اکبر معصوم بھی میرا دل پکڑے ہوئے ایک ایسا ہی نام ہے۔ آج بھی اسے یاد کرتے ہوئے دل چھلکنے لگتا ہے۔
ستاروں بھرے آسمان پر کوئی ستارہ غیر معمولی روشن ہوتا ہے۔ سانگھڑ‘ سندھ سے اکبر معصوم شعر کی دنیا کا ایک ایسا ہی ستارہ تھا۔ شاید 1988‘ 89ء کے لگ بھگ کی بات ہو گی۔ دیرینہ دوست ڈاکٹر (اب ریٹائرڈ) عزیز ابن الحسن اس زمانے میں لاہور مقیم تھے۔ ان کا تعلق بھی سانگھڑ سے ہے۔ ان کی مہربانی کہ وہ ایک دن اکبر معصوم کو ساتھ لیے میرے پاس تشریف لائے اور ان سے تعارف کرایا۔ میں اس زمانے تک ایسے اعلیٰ شاعر سے واقف نہیں تھا۔ پہلی ملاقات ہوئی اور ان کی شخصیت اور شاعری‘ دونوں نے گھر کر لیا۔ اکبر معصوم شاید ایک ماہ کے قریب لاہور رہے اور کئی بار تشریف لائے۔ لمبی اور مختصر‘ دونوں طرح کی نشستیں ہوئیں اور ہر بار اپنائیت اور ان کی شاعری کی قدر و قیمت بڑھتی گئی۔ میرے شعر سے ان کی محبت بھی مجھے یاد ہے۔ میری روبرو ملاقاتیں یہیں سے شروع اور یہیں ختم ہو گئیں۔ بس وہ ایک ملاقات عمر بھر چلتی ہی رہی۔ اس دوران اکبر معصوم بہت سے عوارض کا شکار رہے اور سفر ان کیلئے مشکل تر ہو گیا۔ میں اپنی زنجیروں کا اسیر رہا اور دونوں مجبوریوں کا خلاصہ یہ کہ ان سے پھر ملاقاتیں ہوئیں تو ان کی شاعری اور ان کی کتابوں میں۔ یا فون پر ان کی آواز کی اپنائیت اور مٹھاس میں۔ اب سوچتا ہوں کہ قدرت نے کم ملاقاتوں اور رابطوں کا آخری زمانے میں ان کالز کے ذریعے کچھ مداوا کرنا تھا۔ اپنی کوتاہی کی بہت ہی کم تلافی شاید ہو گئی ہو۔
سانگھڑ واپسی کے بعد بھی اکبر معصوم سے رابطہ رہا اور یہ مٹھاس میرے حصے میں آتی رہی۔ 1997ء میں میرا پہلا شعری مجموعہ ''قوس‘‘ چھپا تو انہیں بھیجا اوران کی غیر معمولی داد وصول ہوئی۔ کئی مشترکہ دوستوں نے بھی ذکر کیا کہ اکبر نے بہت تعریف کے ساتھ اس کتاب کا ذکر کیا۔ پھر 2000ء میں ان کا پہلا مجموعہ ''اور کہاں تک جانا ہے‘‘ چھپا۔ ان کی محبت کہ انہوں نے مجھے یاد رکھا۔ 20 مارچ 2000ء۔ ان کے پیارے الفاظ اور دستخط ان کی کتاب پر جگمگاتے ہیں۔ اکبر معصوم نے اس مجموعے سے ہی اپنی شناخت ایک بلند پایہ غزل گو کی بنا لی۔ ایسے عمدہ شعر اور غزلیں کہ معاصر شاعری میں بہت کم لوگ اس معیار کو پہنچتے تھے۔
اس کے سوا کوئی مجھے آزار نہیں ہے ؍جو مجھ کو میسر ہے وہ درکار نہیں ہے
اب مجھ سے ترا بار اٹھایا نہیں جاتا؍ لیکن یہ مرا عجز ہے انکار نہیں ہے
اکبر کے اس مجموعے اور اسکے بعد کی شاعری نے دو مفروضے ختم کر دیے۔ اول: بڑی شاعری کو شناخت کیلئے بڑے شہر سے وابستہ ہونا ضروری ہے۔ دوم: خود کو منوانے کیلئے پی آر اور مشاعرہ بازی بہت ضروری ہے۔ اکبر معصوم نے وہ اذیتناک بیماری جھیلی جس میں شہر کے اندر سفر بھی نہایت مشکل تھا کجا دوسرے شہر۔ انکے شعروں میں کئی جگہ اس اذیت کی جھلکیاں ملتی ہیں جو انہوں نے کاٹی تھی۔ آج بھی وہ شعر پڑھیں تو دل کٹنے لگتا ہے۔
ضروری نہیں خود کشی کیجیے ؍ ہماری طرح زندگی کیجیے
ان کے لیے مشاعروں میں جانا ممکن نہیں تھا اور نہایت ملنسار ہونے کے باوجود پی آر ان کا مزاج نہیں تھا۔ ہم وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کو سلام بھجواتے رہے اور یاد کرتے رہے۔ یہ سن کر خوشی ہوتی تھی کہ وہ اپنا ہومیو پیتھک کلینک کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ اس تمام مدت میں مجھے یہ اندازہ ہوتا رہا کہ وہ مجھ سے اور میرے لکھے ہوئے سے باخبر رہتے ہیں۔
2016ء کے قریب مجھ سے بھارت کے ایک ناشر نے بالواسطہ رابطہ کیا اور دیوناگری میں میری شاعری چھاپنے کا ایک معاہدہ کیا۔ (اگست 2019ء میں یہ کتاب شائع ہوئی) رابطہ کار کو میں نے اکبر معصوم کا فون نمبر دیا اور کہا کہ یہ پاکستان کے بڑے شاعر ہیں‘ آپ ان کی شاعری بھی ضرور بھارت میں شائع کریں۔ کچھ دن بعد مجھے اکبر کا فون آیا۔ ان سے ناشر نے رابطہ کیا تھا۔ میں نے انہیں تفصیل سے آگاہ کیا اور معاہدے کی جو محتاط شرائط میں نے رکھوائی تھیں‘ وہ بھی انہیں بھیج دیں۔ اسی کے ساتھ غزلوں کے انتخاب پر اپنی رائے بھی پیش کی۔ اس سلسلے میں کئی بار گفتگو ہوئی لیکن افسوس کہ ناشر نے کسی وجہ سے بعد میں معذرت کر لی اور یہ کتاب شائع نہ ہو سکی۔ اکبر اس طرح کے جھنجھٹوں سے بالا تھے۔ میں نے اس سلسلے میں افسوس کا اظہار کیا تو بولے کہ اچھا ہی ہوا‘ میں خود اس چکر سے الجھ رہا تھا۔
انہی دنوں اکبر معصوم کے دیرینہ دوست برادرم طارق حنیف (یو کے) کی عمدہ نثری کتاب میں نے شائع کی۔ اس سلسلے میں بھی اکبر سے کئی بار رابطہ ہوا۔ میں نے کالم نگاری کا آغاز کیا تو اکبر معصوم کا مبارکباد کا فون آیا۔ بہت بھرپور طریقے سے میری نثر کی داد دی۔ مجھے یاد نہیں کہ ان تمام رابطوں میں انہوں نے کبھی کسی تکلیف‘ کسی بیماری کا اشارتاً بھی ذکر کیا ہو جن سے وہ گزر رہے تھے۔ ہمیشہ شگفتگی سے بات کی۔ یہ ایک بڑا اور صاحبِ حوصلہ آدمی ہی کر سکتا ہے۔ ان کا نیا شعری مجموعہ ''بے ساختہ‘‘ شائع ہوا تو مجھے یاد رکھا۔ اور کتاب شائع ہوتے ہی مجھے بھیجی۔ اکبرنے میرا نام اور تعریفی جملے لکھنے کے بعد میرا شعراور یہ جملہ لکھا:
ورنہ یوں کون چمک سکتا ہے دل کی صورت
آئنے! تجھ پہ کوئی خاص عطا ہو گئی ہے
(اس سے بہتر تیر میرے ترکش میں نہیں تھا)
بہت محبت کے ساتھ ... اکبر معصوم‘ سانگھڑ
''بے ساختہ‘‘ بھی کمال کی غزلیات پر مشتمل ہے۔ یہ پہلی منزلوں سے واضح طور پر آگے کا سفر ہے۔
روز ہماری مٹی اوپر ؍ بچھتا ہے غالیچہ اس کا
نیند میں گنگنا رہا ہوں میں ؍ خواب کی دھن بنا رہا ہوں میں
اب تجھے میرا نام یاد نہیں ؍ جبکہ تیرا پتا رہا ہوں میں
مجھ سے شکوہ تو ایسے کرتے ہو ؍ جیسے میں زندگی بناتا ہوں
میں تو حیران ہوں تری آواز ؍ کس قدر خامشی سے آتی ہے
بس خواب بیچتا ہوں بناتا نہیں ہوں میں
لیکن یہ بات سب کو بتاتا نہیں ہوں میں
آساں نہیں ہیں میری اذیت کے داؤ پیچ
مرتا ہوں اور جان سے جاتا نہیں ہوں میں
کون چبائے اتنا کانچ ؍ اتنا وقت گزارے کون
رکتی نہیں ہے تیری ہنسی ؍ تو ہے اے دکھیارے کون
ہم کو ایک زمانے تک ؍ روئیں گے ویرانے تک
رہ جائے گی یہ ساری کہانی یہیں دھری
اک روز جب میں اپنے فسانے سے جائوں گا
اکبر پیارے! کیا لکھا جائے اور کیسے یاد کروں آپ کو کہ حق ادا ہو؟ بس میں کچھ نہیں! بس آپ کا ایک شعر ہی آپ کو بھیجتا ہوں:
وہ ایک بار نہیں ہے ہزار بار ہے وہ
سو ہم اسی سے بچھڑ کر اسی سے ملتے ہیں
آپ کے لیے اس سے بہتر تیر میرے ترکش میں بھی نہیں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved