یہ بات کہی جاتی رہی ہے‘ اور سننے میں آتی رہی ہے کہ چیف جسٹس انوار الحق نے اپنے ساتھی ججوں کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ اگر اتفاقِ رائے سے بھٹو صاحب کو ''مجرم‘‘ قرار دے دیا جائے تو انہیں پھانسی کے بجائے عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے لیکن بھٹو صاحب کو بری کرنے والے ججوں نے یہ 'سودا‘ قبول نہیں کیا۔ اپنے تئیں وہ کسی بے گناہ شخص کو گناہ کااقرار دے کر 'گناہ‘کے مرتکب نہیں ہو سکتے تھے۔ تاریخ کے سامنے بھٹو صاحب کا سراونچا رکھنے کیلئے وہ اپنی رائے پرمصر رہے‘ جبکہ چیف جسٹس انوارالحق اور ان کے رفقا سمجھتے تھے کہ ایوانِ اقتدار میں بیٹھ کر اگر کوئی وزیراعظم اپنے کسی مخالف (احمد رضا قصوری) کے قتل کا منصوبہ بناتا ہے تو وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ہے‘ اسے محض معاونِ جرم (Abetter)قرار دے کر نرم سلوک نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی دانست میں بھٹو صاحب کی معاونت (یا تحریک یا حکم) کے حق میں جو ٹھوس شواہد موجود تھے‘ انہیں انتہائی سزا کا حق دار ثابت کرتے تھے ۔
اس مقدمے کا اہم پہلو یہ ہے کہ تمام جج اس بات سے متفق ہیں کہ نواب محمد احمد خان کو ایف ایس ایف نے قتل کیا۔ یہ فیڈرل سکیورٹی فورس بھٹو صاحب ہی کی تخلیق تھی‘اس کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ مخالفین کو دبانے اور نشانہ بنانے کے لیے بنائی گئی ہے۔ ایف ایس ایف کے اہلکاروں ہی کے حملے کے نتیجے میں نواب محمد احمد خان جاں بحق ہوئے تھے۔ سرکاری اسلحہ استعمال کیا گیا تھا اور واردات کے فوراً بعد مقتول کے بیٹے احمد رضا قصوری نے جو کار میں ان کے ساتھ موجود تھے جو ایف آئی آر درج کرائی تھی‘اس میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ہی کو ملزم نامزد کیا تھا۔ ان کا اصرار تھا کہ قتل اُنہی کے حکم پر ہوا ہے اور اُنہی نے کرایا ہے۔ ایف آئی اے تو درج ہو گئی لیکن اسے سربمہر کر دیا گیا۔
بھٹو صاحب جب تک اقتدار میں رہے‘کوئی عدالتی کارروائی نہیں ہو سکی۔مارشل لاء نافذ ہو گیا تو احمد رضا قصوری نے لاہور کی سیشن کورٹ میں استغاثہ دائر کیا‘ جس میں اپنی ایف آئی آر میں نامزد ملزم کے خلاف کارروائی کی استدعا کی گئی تھی۔ بعدازاں احمد رضا قصوری نے لاہور ہائی کورٹ میں یہ درخواست دائر کی کہ ان کے ملزم چونکہ انتہائی بااثر ہیں‘ اس لیے مقدمہ ہائی کورٹ میں منتقل کیا جائے‘ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پر نہ چھوڑا جائے۔ ایک طرف یہ کارروائی جاری تھی‘دوسری طرف مارشل لاء حکام کے زیر نگرانی تفتیش کا آغاز کر دیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری عمل میں آگئی‘ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس صمدانی نے ان کی ضمانت منظور کر لی‘ جس پر وہ مارشل لاء حکام کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ یہ مقدمہ بالآخر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ کے پاس پہنچا‘ جہاں اُنہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔
مولوی مشتاق حسین کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے دو بار چیف جسٹس بننے سے روکا تھا۔لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انوار الحق کا تقرر جب سپریم کورٹ میں کر دیا گیا تو مولوی صاحب اُس وقت لاہور ہائیکورٹ کے(اپنے تئیں) سینئر موسٹ جج تھے۔انہوں نے اور جسٹس سردار اقبال نے جج کے طور پر ایک ہی دن حلف اٹھایا تھا‘ قواعد کے مطابق اگر دو جج صاحبان ایک ہی روز حلف اٹھائیں تو جو عمر میں بڑا ہو‘ اُسے سینئر تصور کیا جاتا ہے۔مولوی صاحب جسٹس سردار اقبال سے عمر میں بڑے تھے‘اس لیے وہ عدالت کی سربراہی پر اپنا حق جتاتے تھے۔پاکستان کے ممتاز قانون دان ایم انور بار ایٹ لاء اُن کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ایم انور بار ایٹ لاء بھٹو دور میں بننے والے مقدمات میں ادارہ ''اُردو ڈائجسٹ‘‘ اور ''زندگی‘‘ کے ابتدائی وکیل تھے۔انہوں نے کبھی کوئی فیس وصول نہیں کی‘ حکومتی جبر کا شکار افراد کے لیے ان کے دروازے کھلے رہتے‘اور وہ بلا معاوضہ ان کے مقدمات کی پیروی کرتے۔ایم اے رحمن اور اعجاز بٹالوی بھی ان کے چیمبر کا حصہ تھے۔یہ سب حضرات اپنے اپنے مقدمات کی پیروی کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی معاونت بھی کرتے‘ اور مظلوموں کی آواز بننے کے لیے تیار رہتے۔ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی(مرحوم) اور جناب الطاف حسن قریشی کے ساتھ میرا بھی ایم انور بار ایٹ لاء سے رابطہ رہتا‘ اور اکثر ہم ان کی رہائش گاہ پر کہ سہ پہر کو ان کا دفتریہیں سجتا‘ اکٹھے ہو کر حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیتے‘ اور حکومتی جبر کا سامنا کرنے کی قانونی تدبیروں پر غور کرتے۔
ایک سہ پہر میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ کوئی خاص مہمان ملاقات کے لیے آئے ہوئے ہیں‘اس لیے دوسرے کمرے میں بیٹھ کر انتظارکرنا پڑے گا۔کچھ دیر بعد مطلع صاف ہوا تو ایم انور صاحب سے ملاقات ممکن ہوئی۔بعدازاں پتہ چلا کہ مولوی مشتاق حسین تشریف لائے ہوئے تھے۔ایم انور بار ایٹ لاء نے جسٹس سردار اقبال کے چیف جسٹس بنائے جانے کا خدشہ ظاہر کیا‘اُن کی رائے تھی کہ اعلیٰ عدلیہ کے وقار اور مفاد کو برقرار رکھنے کے لیے یہ تقرری روکنی چاہیے۔اس موضوع پر ان سے تبادلہ خیال جاری رہا‘اور بالآخر طے پایا کہ ہمارا ہفت روزہ اس مسئلے کو اٹھائے۔اُن کے فراہم کردہ نکات کی بنیاد پر اداریہ تحریر کرنے کا فیصلہ ہوا۔ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا نام اُن دنوں مدیر منظم کے طور پر اور میرا مدیر کے طور پر ہفت روزہ کی پیشانی پر چھپتا تھا۔ اداریہ لکھ لیا گیا تو ڈاکٹر صاحب نے پیشکش کی کہ جس شمارے میں یہ شائع ہو‘ اُس پر سے میرا نام ہٹا دیا جائے تاکہ میں کسی قانونی کارروائی سے محفوظ رہوں۔ڈاکٹر صاحب تنہا یہ بوجھ اٹھانے اور ''توہین عدالت‘‘ کی کارروائی کا سامنا کرنے پر تیار تھے۔اداریہ لکھ تو لیا گیا لیکن مجھے اس کی اصابت پر اطمینان نہیں تھا کہ کسی جج پر لگائے جانے والے الزامات درست ہوں تو بھی توہین عدالت کے مقدمے میں یہ قانونی دفاع نہیں ہوتا۔ ''سچ‘‘ کا جواز بنا کر ملزم کو بری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایم انور پُرجوش تھے کہ وہ اس ''روایت‘‘ کو تبدیل کرا کر رہیں گے۔ مقدمہ قائم ہو گا تو ''جھوٹ کی نائو‘‘ اُن کے دلائل میں تنکے کی طرح بہہ جائے گی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اُردو ڈائجسٹ کے ڈیکلیریشن کے مقدمے میں سردار اقبال صاحب اس کے خلاف فیصلہ دے چکے تھے‘ یوں ہمارے دل ان کے لیے خیر سگالی کے کسی جذبے سے خالی تھے۔بہت غور و خوض کے بعد فیصلہ ہوا کہ اداریہ داغ دیا جائے۔میری ''مدیرانہ تمکنت‘‘ نے یہ گوارا نہ کیا کہ محض سزا کے خوف سے اپنا نام پیشانی سے ہٹا دیا جائے۔ اداریہ چھپا اور میرے نام سے چھپا۔اس کے چھپتے ہی توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو گئی۔جسٹس سردار اقبال کی سربراہی میں فل بینچ قائم ہوا۔اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ اس کی تفصیل بعد میں بیان ہو گی۔اداریے کا کارتوس نشانے پر نہ لگا‘جسٹس سردار اقبال کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقرر کر دیا گیا۔مولوی صاحب کی اَنا کو ٹھیس تو پہنچی لیکن چونکہ اس معاملے میں سنیارٹی کا تعین ایک ''فنی‘‘ معاملہ تھا‘ اس لیے انہوں نے غصہ پی لیا۔کچھ ہی وقت گزرا ہو گا کہ چیف جسٹس سردار اقبال بھی بھٹو اقتدار کی نگاہوں میں کھٹکنے لگے‘تو آئین میں ترمیم کر ڈالی گئی۔ (جاری)
(یہ کالم روزنامہ پاکستان اور روزنامہ دنیا میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved