پاکستان کی سرزمین پر چینی باشندوں پر دہشتگرد حملے انتہائی قابلِ مذمت فعل ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی مہارت اور محنت سے پاکستان کی تعمیر اور ترقی میں حصہ لے رہے ہیں‘ سی پیک کے تحت چینی کمپنیاں اور انجینئر پاکستان میں سڑکیں‘ ریلوے لائنز‘ بجلی گھر اور بندرگاہیں تعمیر کر رہے ہیں‘ ان پر حملے نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہیں بلکہ پاکستان اور چین کے درمیان مضبوط تعلقات کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں بشام کے مقام پرچینی باشندوں پر خودکش حملہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔یہ حملہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے حالیہ واقعات کی ایک کڑی ہے‘ جنہوں نے تربت میں نیول ایئر بیس پر حملہ کیا جو کہ ملک کے سب سے بڑے نیول ایئر سٹیشنز میں سے ایک ہے۔ اگرچہ بشام حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی لیکن اس سے پاکستان اور چین کے درمیان جاری تعاون اور منصوبوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کا واضح اشارہ ملتا ہے۔دشمن کی سازشوں اور دہشتگردی کے متعدد واقعات کے باوجود چین نے ترقیاتی منصوبوں کو جاری رکھنے کا واضح پیغام دیا ہے‘ اس ضمن میں چینی وزارت ِخارجہ نے کہا ہے کہ داسو میں دہشتگرد حملے کے باوجود سی پیک کے دوسرے مرحلے کو فروغ دینے اور اعلیٰ معیار کی ترقی کیساتھ دوطرفہ تعاون کو آگے بڑھانے کی کوششیں جاری رہیں گی‘ دنیا کو یہ واضح پیغام دیتے ہیں کہ چین پاک تعاون کو سبوتاژ کرنے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہوگی‘ہم پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی اور اپنے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوششوں کی حمایت جاری رکھیں گے‘ پاکستان کے ساتھ کام کرنے اور عوام کیلئے مزید فوائد فراہم کرنے کیلئے پُرعزم ہیں۔
بشام میں چینی عملے پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد یہ خبریں سامنے آئیں کہ چینی کمپنیوں نے دیامر بھاشا ڈیم پر سول کام روک دیا ہے جبکہ اس سے قبل داسو اور تربیلا ڈیم پر بھی کام روک دیا گیا تھا‘ تاہم بشام خودکش حملے میں پانچ چینی انجینئرز کی المناک ہلاکت کے باوجود چین نے تربیلا ڈیم توسیعی منصوبے پر دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔پاور کنسٹرکشن کارپوریشن آف چائنا لمیٹڈ کی جانب سے 28 مارچ کو جاری کردہ ایک دفتری سرکلر میں کارکنوں کو اپنے فرائض پر واپس آنے کی ہدایت کی گئی۔
دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں پاکستان اور چین کی قیادت ایک پیج پر دکھائی دی ہے۔ وزیر اعظم شہبازشریف کے وقوعہ کے فوری بعد چینی سفارتخانے کا دورہ اور مشترکہ تحقیقات سے دوطرفہ اعتماد میں اضافہ ہوا ہے‘ چینی قیادت بخوبی جانتی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے چیلنجز کا سامنا ہے اور یہ کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف کارروائی میں مخلص ہے‘ سو یقین دلایا گیا ہے کہ دہشتگردوں کے حملے بلاشبہ دونوں ممالک کے تعلقات کیلئے ایک سنگین چیلنج ہیں۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان اور چین نے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جو حملوں کے ذمہ داروں کی نشاندہی اور انصاف کے حصول میں ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔مشترکہ تحقیقاتی عمل کی افادیت کا اندازہ اس کے کئی پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ پاکستان اور چین کے درمیان تعاون مضبوط ہو گا۔ مشترکہ تحقیقات ایک دوسرے پر اعتماد بڑھانے اور اس بات کا عزم ظاہر کرنے کا ذریعہ ہیں کہ دونوں ممالک حملوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہتے ہیں۔مشترکہ تحقیقاتی عمل سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان اور چین اپنے تحقیقاتی وسائل کو یکجا کر سکتے ہیں۔ اس سے ان دونوں ممالک کو مل کر شواہد اکٹھا کرنے‘ معلومات کا تجزیہ کرنے اور حملوں کے پیچھے چھپے گروہوں کی نشاندہی کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سے تفتیش کا دائرہ وسیع ہوگا اور اس بات کا امکان بڑھ جائے گا کہ ذمہ داروں کو جلد از جلد پکڑا جا سکے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم پاکستان کی سلامتی کے اداروں کو بین الاقوامی تعاون سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرے گی۔ چینی تفتیشی ماہرین کی مہارت اور تجربے سے پاکستانی حکام کو مدد مل سکتی ہے‘ خاص طور پر دہشتگردی کے خلاف بین الاقوامی تحقیقات کے حوالے سے چینی اشتراک سے دشمن کو پہچاننے میں مدد حاصل ہو سکے گی۔ یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی عمل حملوں کے پیچھے چھپے گروہوں کو بے نقاب کرنے اور خطے میں امن بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ پاکستان میں چینی منصوبوں کو نقصان پہنچانے والے بھلے مقامی ہوں لیکن ان کے سرپرست پڑوسی ممالک میں موجود ہیں۔ جن میں افغانستان اور بھارت کا نام سرفہرست ہے‘ چونکہ چین کے افغانستان اور بھارت کیساتھ تجارتی روابط ہیں اور کسی ملک کیساتھ تجارتی تعلقات منقطع نہیں کرتا اس لیے پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے نام پر درپردہ چینی منصوبوں کو نقصان پہنچانے کی مہم بھی جاری تھی‘ اب جبکہ مشترکہ تحقیقات ہوں گی تو قوی امکان ہے کہ ان کا کردار بھی سامنے آجائے گا۔ حقیقت آشکار ہونے پر ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ قدرے آسان ہو سکتی ہے کیونکہ ملوث قوتوں کے سامنے آنے کے بعد انہیں پاکستان کیساتھ ساتھ چین کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
ایسے موقع پر جب پاکستان اور چین دہشتگردی کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی ترتیب دے رہے ہیں‘ وزیر اعظم شہباز شریف کو لکھا گیا امریکی صدر کا خط زیرِ بحث ہے‘ کیونکہ کسی بھی پاکستانی وزیراعظم کیساتھ امریکی صدر کا برسوں بعد یہ پہلا رابطہ ہے۔ خط میں امریکی صدر نے جہاں پاکستان کے ساتھ کئی معاملات میں تعاون کی بات کی ہے وہیں انہوں نے انسانی حقوق کے تحفظ کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔ خط کے مندرجات پاکستان میں امریکی سفارتخانے کی جانب سے بھی جاری کیے گئے ہیں۔ خط میں امریکی صدر نے کہا کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان شراکت داری دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی یقینی بنانے میں نہایت اہم ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کی جانب سے خط میں کہا گیا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان عالمی اور علاقائی چیلنجز سے نبرد آزما ہے‘ امریکہ پاکستان کیساتھ کھڑا رہے گا۔ بائیڈن نے کہا کہ صحتِ عامہ کا تحفظ‘ معاشی ترقی اور سب کیلئے تعلیم مشترکہ وژن ہے جسے مل کر فروغ دیتے رہیں گے۔ خط میں کہا گیا کہ امریکہ پاکستان گرین الائنس فریم ورک سے ماحولیاتی بہتری کیلئے ہم اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کریں گے‘ پائیدار زرعی ترقی‘ آبی انتظام اور 2022ء کے سیلاب کے تباہ کن اثرات سے بحالی میں پاکستان کی معاونت جاری رکھیں گے۔ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کیساتھ مل کر انسانی حقوق کے تحفظ اور ترقی کے فروغ کیلئے پُرعزم ہیں۔ جوبائیڈن نے خط میں مزید کہا کہ دونوں اقوام کے درمیان استوار مضبوط پارٹنرشپ کو تقویت دیں گے‘ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان استوار رشتے مزید مضبوط بنائیں گے۔ یہ خط ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان کو افغانستان سے دہشتگرد حملوں کا سامنا ہے۔ امریکہ نے کابل حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغان سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے۔ امریکی صدر نے خط کے ذریعے پاکستان کو وسیع تر تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے‘ دیکھا جائے تو امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات پاکستان کی ہمیشہ خواہش بھی رہی ہے مگر سوال یہ ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے پاکستان شدید معاشی مسائل کا شکار ہے‘ ہمیں آئی ایم ایف کیساتھ معاملات طے کرنے میں مشکلات سمیت متعدد چیلنجز کا سامنا رہا ہے مگر اس دوران امریکہ نے دستِ تعاون نہیں بڑھایا‘ اب جبکہ پاکستان اور چین دہشتگردی کے چیلنجز کے باوجود ایک پیج پر ہیں تو امریکہ کی کرم فرمائی دیدنی ہے۔ ہماری دانست میں یہی ترجیحات کے تعین کا وقت ہے‘ ہم کسی بھی ملک کیساتھ تعلقات خراب کرنے کے حق میں نہیں ہیں‘ تاہم ہمیں چناؤ کرنا ہے کہ دیرینہ دوست ممالک اور ہر دکھ سکھ کے ساتھی ممالک کے ساتھ چلنا ہے یا ان ممالک کیساتھ چلنا ہے جو مشکل میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور موقع ملتے ہی روابط بڑھانا شروع کر دیتے ہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved