اقوام متحدہ کے عالمی ماحولیاتی ادارے یو این ای پی (United Nations Environment Programme) کا کہنا ہے کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے جبکہ روزانہ ایک ارب کھانوں کے برابر خوراک ضائع کر دی جاتی ہے جس کی مالیت ایک ٹریلین ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے تو پروردگار اسی حساب سے رزق بھی عطا کر رہا ہے اور یہ دنیاوی تقسیم ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ اتنا پیٹ بھر کر کھاتے ہیں کہ مزید کی گنجائش نہیں رہتی‘ بلکہ اضافی خوراک ضائع جاتی ہے اور کچھ کو خالی پیٹ سونا پڑتا ہے۔ سائنسی طور پر بھی یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ روئے ارض پر اتنی وافر خوراک پیدا ہوتی ہے کہ ہر انسان کو پیٹ بھر کھانا مل سکے‘ پھر بھی اگر 78.3کروڑ افراد بھوک کا شکار ہیں تو یہ پیدا ہونے والی خوراک کی غیرمساوی تقسیم کا نتیجہ ہے۔ جس کو ملتی ہے وہ سیر ہو کر کھاتا ہے اور جو کھانا بچ جاتا ہے وہ کوڑے دان میں پھینک دیتا ہے۔ جس کو نہیں ملتی‘ اتنی بھی نہیں ملتی کہ تین نہ سہی دو یا ایک وقت کا کھانا ہی کھا سکیں۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ 25ہزار (91لاکھ سالانہ) افراد جن میں 10ہزار (ہر دس سیکنڈ میں ایک بچہ) بچے شامل ہیں‘ بھوک اور اس سے منسلک دوسری وجوہ کی بنا پر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ یہ تعداد ایڈز‘ ملیریا اور تپ دق سے جاں بحق ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہے‘ جبکہ پوری دنیا میں 85کروڑ سے زیادہ افراد کم خوراکی کا شکار ہیں‘ یعنی ان کو روزانہ اتنی خوراک بھی نہیں ملتی جو ان کی جسمانی ضروریات اور روزانہ کے افعال سرانجام دینے کے لیے کافی ہو۔ خوراک کے نرخوں میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے برسوں میں مزید 10کروڑ افراد غربت اور بھوک کا شکار ہو جائیں گے۔
دنیا بھر میں خوراک کتنی اور کس طرح ضائع ہوتی ہے‘ آئیے تھوڑا جائزہ لیتے ہیں۔ ریسٹورنٹس میں آنے والے لوگ بہت زیادہ کھانا آرڈر کرنے کے بعد پورا نہیں کھا پاتے۔ ان میں سے کچھ تو پیک کرا کے گھر لے جاتے ہیں‘ خود کھاتے ہیں یا نوکروں کو دے دیتے ہیں۔ یہ کھانا کسی کے کام آ جاتا ہے‘ لیکن زیادہ تر لوگ بچا ہوا کھانا میز پر ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ کھانا عموماً ضائع کر دیا جاتا ہے۔ گھروں میں بھی بچا ہوا کھانا کم ہی کسی غریب کو دیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ بھی پھینک دیا جاتا ہے‘ کوڑا دان کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ روزانہ ضائع ہونے والے اس کھانے سے کتنے لوگوں کی بھوک مٹ سکتی ہے‘ غربت کا گراف کتنا نیچے لایا جا سکتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گھروں میں مجموعی طور پر سالانہ اوسطاً 74 کلوگرام کھانا ضائع کیا جاتا ہے اور ریسٹورنٹس اور دکانوں سے پھینکے جانے والے کھانے کی شرح 17فیصد ہے۔
غذائی اشیا کو جن وجوہات کی بنا پر مسترد کرکے ضائع کر دیا جاتا ہے عموماً وہ انتہائی معمولی ہوتی ہیں‘ جیسے کھانا پسند نہ آنا‘ کھانے میں نمک یا مرچوں کا زیادہ ہونا۔ ارے بھائی‘ کھانا پسند نہیں آیا اور آپ نے نہیں کھانا تو اسے ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟ کسی اور کو کھانے کے لیے دے دیں‘ اُسے جسے 24گھنٹوں میں ایک بھی کھانا پیٹ بھر کر نہیں ملتا۔ جیسا کہ خبر میں بتایا گیا ہے‘ ضائع شدہ غذائی اشیا لاکھوں ٹن ہوتی ہیں جن سے پوری دنیا کے کروڑوں‘ بلکہ اربوں بھوکے پیٹ بھر سکتے ہیں۔
صرف پکا ہوا کھانا ہی ضائع نہیں ہوتا خوراک ضائع ہونے یا کرنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ سب سے پہلے تو خوراک کھیتوں میں کٹائی کے دوران ضائع ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب ان اجناس کو کھیتوں سے گھروں یا منڈیوں کی طرف لے کر جایا جاتا ہے تو لوڈ اور اَن لوڈ کرنے کے دوران خوراک کا کچھ حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ تیسرا یہ کہ جب اس خوراک کو سٹور کیا جاتا ہے‘ چاہے وہ گھروں میں کیا جائے یا گوداموں میں‘ تو اس دوران خوراک کا ایک خاصا بڑا حصہ ٹھیک سنبھال نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ اسی سٹوریج کے دوران کیڑے مکوڑے اور چوہے وغیرہ خوراک کا ایک خاصا بڑا حصہ کھا جاتے ہیں جو ایک بڑا ضیاع ہے۔ اس کے بعد جب سٹوریج یا گوداموں سے خوراک کو گھروں میں یا خوراک پراسیس کرنے والی جگہوں پر لایا جاتا ہے تو اس بار برداری کے دوران بھی خوراک ضائع ہوتی ہے۔ یہ تو ہم نے گھروں میں دیکھا ہو گا کہ کھانا پکانے کے دوران خوراک کا ایک حصہ مِس ہینڈلنگ کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے‘ اور جو کسر رہ جاتی ہے وہ پکا ہوا کھانا مسترد کیے جانے کی صورت میں پوری ہو جاتی ہے۔
انٹرنیٹ سے ماخوذ ایک رپورٹ کے مطابق خوراک ضائع کرنے والے ممالک میں ناروے دسویں نمبر پر ہے‘ جہاں سالانہ 620کلوگرام فی کس غذائی اشیا ضائع جاتی ہیں۔ ناروے مجموعی طور پر سالانہ تین لاکھ 35ہزار ٹن خوراک ضائع کرتا ہے۔ کینیڈا میں فی کس 640کلوگرام خوراک ضائع کی جاتی ہے‘ جو مجموعی طور پر ایک کروڑ 75لاکھ ٹن سالانہ بنتی ہے۔ ڈنمارک میں فی کس 660کلوگرام کھانا ضائع کیا جاتا ہے جو مجموعی طور سات لاکھ ٹن کھانا سالانہ بنتا ہے۔ آسٹریلیا میں کتنی خوراک ضائع ہوتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آسٹریلوی حکومت کو اس غذائی کچرے کو ٹھکانے لگانے پر آٹھ ملین ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ امریکہ میں فی کس 760کلوگرام غذائی اشیا ضائع کی جا رہی ہیں۔ فن لینڈ میں یہی شرح 550کلوگرام فی کس ہے۔ سنگاپور میں آنے والی تمام تر غذائی اشیا کا کل 13فیصد حصہ ضائع کر دیا جاتا ہے۔ ملائیشیا بھی خوراک ضائع کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔ یہاں 560کلوگرام فی کس غذا ضائع کی جاتی ہے۔ جرمنی میں ایک جرمن شہری ہر سال 82کلوگرام غذا ضائع کر دیتا ہے جو مجموعی طور پر 11ملین ٹن بنتی ہے۔ برطانیہ 6.7ملین ٹن غذائی کچرا پیدا کرتا ہے۔
چلیں یہ تو امیر ملک ہیں اور خوراک کا ضیاع برداشت کر سکتے ہیں لیکن پاکستان اور اس جیسے دوسرے ترقی پذیر ممالک میں بھی خوراک کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوتا ہے۔ پچھلے سال مئی میں وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی دستاویزات کے ذریعے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ شدید غذائی قلت کے شکار پاکستان میں ہر سال چار ارب ڈالر کی خوراک ضائع کر دی جاتی ہے۔ دستاویزات میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں سالانہ ملکی پیداوار کی تقریباً 26فیصد خوراک ضائع ہوتی ہے۔ خوراک کا سالانہ ضیاع 19.6ملین ٹن ہے۔ ایک غریب ملک میں خوراک کا اتنا بڑا ضیاع خود اپنے ساتھ زیادتی کے مترادف نہیں ہے؟
پہلی بات یہ ہے کہ اوور ایٹنگ سے بچنا چاہیے‘ خوراک اتنی کھانی چاہیے جتنی مناسب ہو۔ ہمارے مذہب نے بھی مناسب مقدار میں کھانا کھانے کی تلقین کی ہے۔ کہا گیا ہے کہ ایک تہائی بھوک باقی ہو تو دستر خوان سے اُٹھ جانا چاہیے۔ حکما بھی کہتے ہیں کہ پیٹ میں گنجائش رکھ کر کھانا چاہیے یعنی کھانا کھاتے ہوئے پیٹ میں ابھی گنجائش باقی ہو تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ خوراک کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے بالقصد کوشش کی جانی چاہیے۔ انفرادی کوشش خوراک کی ایک بڑی مقدار کی بچت کا سبب بنے گی‘ یوں وہ اربوں پیٹ بھی بھرے جا سکیں گے جو روٹی کے ایک نوالے کو ترس رہے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved