سی پیک کا منصوبہ بہت دھوم دھام سے شروع ہوا تھا اور اسے ایک گیم چینجر منصوبہ قرار دیا گیا تھا جس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ اس کی رفتار میں کمی آتی جا رہی ہے۔ ان منصوبوں کی تاخیر کے عوامل میں پاکستان کی سیاسی صورتحال‘ معاشی عدم استحکام اور سکیورٹی خدشات شامل ہیں۔ شانگلہ حملے کے بعد چین کی جانب سے فوری ردعمل میں پاکستانی حکام کے ساتھ سکیورٹی معاملات کو اٹھایا گیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ ایسے حملے پاکستان اور چین کے تعلقات کو متاثر نہیں کر سکیں گے؛ تاہم سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر حملے کے بعد تربیلا ڈیم کے توسیعی منصوبے‘ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور دیامر بھاشا ڈیم پر جو مختلف چینی کمپنیاں کام میں مصروف تھیں‘ انہوں نے اپنا کام عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔ ان کمپنیوں نے اپنے مقامی عملے کو اگلے حکم تک کام پر نہ آنے کی ہدایت کی ہے۔ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر تقریباً پانچ سو پچاس چینی باشندے مختلف خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس پروجیکٹ پر عملاً تمام کام چینی کمپنی ہی کر رہی ہے اور چین ہی کا عملہ مختلف تعمیراتی شعبوں کی نگرانی کرتا ہے مگر اب چینی کمپنیوں نے کام بند کر دیا ہے جس وجہ سے کچھ دنوں سے اس پروجیکٹ پر کام بالکل بند پڑا ہے۔ اس پروجیکٹ کی تکمیل سے پاکستان کو 4320 میگاواٹ پن بجلی حاصل ہونے کی توقع ہے۔ تقریباً چار سو چینی افراد اس منصوبے سے وابستہ ہیں‘ جنہوں نے اپنا کام بند کیا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ قریب تین ہزار مقامی لوگ بھی کام کرتے ہیں جن کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔دوسری جانب تربیلا ڈیم کے توسیعی منصوبے پر تقریباً پندرہ سو مقامی لوگ کام کرتے ہیں جبکہ چین کا دو سو افراد کا عملہ خدمات انجام دیتا ہے۔ تربیلا ڈیم کے پانچویں توسیعی منصوبے سے پاکستان کو 1530 میگاواٹ بجلی حاصل ہونے کی توقع ہے۔ یہ توسیع ضلع صوابی کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ یہاں مقامی سٹاف کی نوکریوں پر شاید زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ جتنا عرصہ کام نہیں ہو گا‘ قوانین کے مطابق کمپنی ملازمین کو آدھی اجرت دینے کی پابند ہے۔ مقامی لوگوں کو امید ہے کہ یہ معاملہ جلد طے ہو جائے گا اور کام دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ مہمند ڈیم پر چین کمپنی کا دو سو پچاس افراد پر مشتمل سٹاف اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ انہیں سکیورٹی انتظامات پر اعتماد ہے۔
سی پیک کی بنیاد 2013ء میں رکھی گئی تھی اور اس منصوبے کے تحت چین نے پاکستان میں 17 سال میں 62 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا تھی۔ اپریل 2015ء میں 46 ارب ڈالر کی 51 یادداشتوں پر دستخط کیے گئے اور نومبر 2017ء میں لانگ ٹرم معاہدے کی مدت کے سمجھوتے پر دستخط کیے گئے۔ پہلا مرحلہ 2020ء میں مکمل ہونا تھا ‘ وسطی مرحلہ 2025ء میں اور تیسرا مرحلہ 2030ء تک مکمل ہونا ہے۔ اب تک تقریباً 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری والے تقریباً 28 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ تقریباً 37 ارب ڈالرز سے زیادہ والے 62 منصوبے یا تو شروع ہی نہیں ہو سکے یا نامکمل ہیں۔ اس کے علاوہ گودار بندرگاہ سی پیک کا مرکزی منصوبہ ہے۔ سی پیک کی سست رفتاری میں سیاسی عدم استحکام کے ساتھ چینی باشندوں پر ہونے والے حملے بھی ایک بڑی وجہ ہیں۔ 2021ء سے اب تک چینی باشندوں پر تین بڑے حملے ہو چکے ہیں جس میں 2021ء میں داسو منصوبے پر کام کرنے والے چین کے کارکنان کی گاڑی پر ایک حملے میں مجموعی طور پر 13 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے میں نو چینی شہری نشانہ بنے تھے۔ 2022ء میں کراچی میں ہوئے حملے میں ایک چینی استاد سمیت تین افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اب حالیہ واقعے میں شانگلہ میں چھ لوگ ہلاک ہوئے جن میں پانچ چینی شہری شامل تھے۔
ملکی معیشت کی بات کی جائے تو خسارے میں چلنے والے حکومتی ادارے اب ملکی اقتصادیات پر بہت بڑا بوجھ بن چکے ہیں۔ ملک کو درپیش معاشی مسائل میں بہت بڑا حصہ نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کا ہے۔ جتنی جلدی ان سے جان چھڑا لی جائے‘ ملک اور عوام کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ سرکار کا کام پالیسی بنانا اور اس پر عمل درآمد کرانا ہوتا ہے نہ کہ کاروبار کرنا۔ ترقی یافتہ ممالک اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ یہ کام بہت پہلے کر چکے ہیں۔ اب پاکستان میں بھی نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے جس پر کئی مہینوں سے کام ہو رہا ہے۔ میں پچھلے کالموں میں ان اداروں خصوصی طور پر پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے پیشرفت سے آگاہ کرتا رہا ہوں۔ اس حوالے سے اب بڑی پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ حکومت نے مقامی بینکوں اور ترقیاتی مالیاتی اداروں سے پی آئی اے کے تجارتی قرضوں کے حوالے سے مذاکرات کامیابی سے مکمل کر لیے ہیں۔ اس طرح قومی فضائی کمپنی کی نجکاری کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی ہے۔ کمرشل مقامی قرضہ پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ کو منتقل کیا جائے گا جسے وفاقی حکومت نے تنظیمِ نو کے لیے قائم کیا ہے۔ اس پیشرفت نے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے پی آئی اے سی ایل کی قانونی طور پر علیحدگی کے لیے سکیم آف ارینجمنٹ کو حتمی شکل دینے کی راہ ہموار کی ہے۔ نگران وفاقی کابینہ نے 6 فروری کو اس منصوبے کی منظوری دی تھی۔ قرض کی منتقلی کے متفقہ تجارتی پہلوؤں کا احاطہ کرنے والی ٹرم شیٹ پر پی آئی اے سی ایل‘ پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی اور قرض دینے والے بینکوں کے دستخط ہو چکے ہیں۔ اس پراسیس میں شفافیت اہم پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ متعدد بین الاقومی اداروں کی نظریں پی آئی اے کی نجکاری پر مرکوز ہیں۔ چھوٹی سی غلطی بھی ملکی ساکھ کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔
رواں مالی سال کے ابتدائی سات ماہ کے دوران پاکستان کا مالیاتی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 2.6 فیصد تک پہنچ گیا ہے جس کی وجہ سود کی ادائیگیوں کا 60 فیصد تک بڑھنا ہے۔ اس سے قرض کی پائیداری اور حکومتی فنانس پر دباؤ کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ خسارے کا حجم گزشتہ برس کی اسی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 2.3 فیصد یا 19 کھرب 74 ارب روپے تھا۔ بنیادی اخراجات کو محدود رکھنے کے نتیجے میں بنیادی سرپلس گزشتہ برس کے 945 ارب روپے کے مقابلے میں بڑھ کر 19 کھرب 39 ارب روپے رہا۔ مالی سال 2024ء میں جولائی تا جون کے دوران کل اخراجات 49 فیصد بڑھ کر 75 کھرب 32 ارب روپے ہو گئے جو گزشتہ برس 50 کھرب 58 ارب روپے ریکارڈ کیے گئے تھے۔ کرنٹ اخراجات میں 45 فیصد اضافے کی وجہ سود کی ادائیگیوں میں 60 فیصد اضافہ ہونا بتائی گئی ہے۔ اس کے برعکس غیر سودی کرنٹ اخراجات میں نمو 26 فیصد رہی۔ اگر آمدنی کو دیکھا جائے تو خالص وفاقی محصولات زیرِ جائزہ مدت کے دوران 57 فیصد اضافے سے 43 کھرب 79 ارب روپے ہو گئے جن کا حجم گزشتہ برس 27 کھرب 98 ارب روپے تھا۔ اس اضافے کی وجہ نان ٹیکس ریونیو کا نمایاں طورپر بڑھنا ہے جو 105 فیصد اضافے کے بعد 21 کھرب 40 ارب روپے پر پہنچ گیا جبکہ گزشتہ برس اس کا حجم 10 کھرب 46 ارب روپے تھا۔ ایف بی آر کے خالص محصولات 30 فیصد بڑھ کر 58 کھرب 31 ارب روپے پر پہنچ گئے ہیں جو گزشتہ برس 44 کھرب 94 ارب روپے رہے تھے جبکہ مالیاتی خسارہ بھی 38 فیصد بڑھ گیا ہے۔ بنیادی سرپلس میں بہتری کے باوجود مالی خسارے میں اضافہ حکومتی مالیات پر مستقل دباؤ کو ظاہر کرتا ہے اور آنے والے دنوں میں بھی یہ دبائو کم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved