برِ صغیر کے معروف اردو شاعر تلوک چند محروم کی شاعری سے میرا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب میں پرائمری سکول میں تھا۔ بعد میں جب اردو اد ب سے شناسائی ہوئی تو پتا چلا کہ تلوک چند محروم نے اردو شاعری کو کتنا ثروت مند بنایا ہے۔ اردو شاعری کی مختلف اصناف نظمیں‘ رباعیاں‘ سہرے‘ قصیدے اور نوحے لکھے اور شاعری کے آٹھ مجموعے تخلیق کیے۔ تلوک چند محروم کی پیدائش یکم جولائی 1887ء کو میانوالی کے ایک چھوٹے سے گائوں موسیٰ نور زمان شاہ میں ہوئی۔ یہ گائوں دریائے سندھ کے کنارے آباد تھا۔ دریا کے کنارے بسنے کے اپنے فائدے ہیں‘ یہاں کی زمین زرخیز ہوتی ہیں اور فطرت کا حسن فراواں ہوتا ہے لیکن اس کا ایک بڑا نقصان بھی ہے۔ جب کبھی دریا میں سیلاب آتا ہے اور پانی بے قابو ہو کر اپنے کناروں سے چھلکتا ہے تو دریا کے کنارے بستیاں پانی میں ڈوب جاتی اور جب پانی اپنا دامن سمیٹتا ہے تو زندگی پھر سے آباد ہو جاتی ہے۔ لیکن بار بار کا اجڑنا اور بسنا یہاں کے باسیوں کو تھکا دیتا ہے۔ تلوک چند محروم کے گھر والے بھی اس روز روز کے اجڑنے بسنے سے تنگ آ گئے تھے۔ ایک روز ان کے گھر والوں نے سامان سمیٹا اور میانوالی کے ایک اور قصبے عیسیٰ خیل آ گئے۔ یہ نسبتاً ایک بڑی اور محفوط جگہ تھی۔ یہیں پر تلوک چند کو ایک پرائمری سکول میں داخل کرایا گیا۔ تلوک اپنی کلاس کا ایک ہونہار طالبعلم تھا جس نے پرائمری اور مڈل کلاس میں اپنی شاندار کارکردگی کی بدولت سکالرشپ حاصل کیے۔ آٹھویں جماعت کے بعد تعلیم کیلئے تلوک چند کو بنوں جانا پڑا کیونکہ اس وقت عیسیٰ خیل میں کوئی ہائی سکول نہ تھا۔ بنوں کا ماحول عیسیٰ خیل سے بالکل مختلف تھا۔ یہاں ہائی سکول تو تھا لیکن تلوک چند‘ جسے کتابیں پڑھنے کی پیاس تھی‘ کی پیاس بجھانے کیلئے نہ تو یہاں لائبریریاں تھیں نہ ہی کتابوں کی فراوانی۔ لیکن تلوک کے اندر شعر و ادب کا شوق اسے کبھی غالب کی شعری سلطنت میں لے جاتا اور کبھی اقبال کی شاعری کے چمن کی سیر کراتا۔
تلوک چند لڑکپن سے ہی غالب اور اقبال سے متاثر تھا‘ ایک اور شاعر جس نے تلوک کو متاثر کیا وہ ابراہیم ذوقؔ تھا۔ بنوں میں تلوک چند کا قیام چار سال کا تھا۔ اس دوران اس نے نہ صرف میڑک کا امتحان پاس کیا بلکہ اپنے شعری ذوق کی پرورش بھی کی۔ بنوں کے قیام کے دوران اس نے خود بھی شعر کہنا شروع کر دیا۔ اس وقت تلوک کی عمر بمشکل بارہ یا تیرہ سال تھی جب اس نے ''خدمتِ والدین‘‘ کے عنوان سے نظم لکھی۔ معائنے کیلئے آئے ہوئے سکول انسپکٹر نے جب ننھے تلوک سے یہ نظم سنی تو اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ بنوں کے بعد تلوک چند اعلیٰ تعلیم کیلئے لاہور آ گیا اور یہاں کے تاریخی تعلیمی ادارے سینٹرل ٹریننگ کالج میں داخلہ لے لیا‘ جہاں سے اس نے ایک سال کا تربیتِ اساتذہ کا کورس کیا۔ یہاں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد اس کیلئے ملازمت کا حصول آسان ہو گیا تھا۔ 1908ء میں تلوک چند کو ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک سکول میں انگریزی کے استاد کے طور پر ملازمت مل گئی۔ کچھ عرصہ یہاں قیام کرنے کے بعد تلوک چند اپنے آبائی گائوں عیسیٰ خیل واپس آ گیا لیکن اس کے پائوں میں تو چکر تھا۔ اس نے یہاں بھی قیام نہ کیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد وہ کلور کوٹ کے ایک سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر چلا گیا۔ کلور کوٹ میں اس کا قیام 1924ء سے 1934ء تک تھا۔
1934ء میں میٹرک کے بعد جب تلوک چند محروم کے بیٹے جگن ناتھ آزاد نے انٹرمیڈیٹ کیلئے راولپنڈی کے ڈی اے وی کالج میں داخلہ لے لیا تو تلوک چند نے بھی راولپنڈی میں تبادلے کی درخواست دے دی۔ یوں بھی کلورکوٹ سکول میں حالات زیادہ موافق نہ تھے اور تلوک چند وہاں خوش نہ تھا۔ اب بیٹے کے راولپنڈی آنے کی وجہ سے اس کے پاس کلور کوٹ سے راولپنڈی منتقل ہونے کا جواز آ گیا تھا۔ تلوک چند محروم کو راولپنڈی میں سی بی (کینٹ بورڈ) سکول لال کرتی کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا۔ اس سکول میں اس نے دس سال تک خدمات سرانجام دیں۔ تلوک چند نے لال کرتی کے جس سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر کام کیا‘ اسی سکول میں ایک عرصے بعد میں نے بھی تعلیم حاصل کی۔ سکول کی روشوں پر چلتے ہوئے میں اکثر سوچتا کہ انہی راستوں پر کبھی برصغیر کا معروف شاعر چلتا ہو گا۔ یہ ایک عجیب سا احساس تھا۔ سکول کے قریب ہی ایک آبادی حسن آباد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ تلوک چند نے حسن آباد میں رہائش اختیار کر لی۔ یہاں سے کچھ دور ہی ہارلے سٹریٹ میں ایک گورا قبرستان ہے۔ قبرستان کیا ہے‘ ایک خوش نما باغ ہے جہاں پھولوں‘ پودوں‘ درختوں اور گھاس کی مناسب دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والے سپاہیوں اور افسروں کے ناموں کی تختیاں لگی ہیں۔ میں خود بھی اس قبرستان میں کئی بار گیا۔ ہرے بھرے درختوں کے آس پاس لکڑی کے بینچ ہیں۔ تلوک چند محروم نے اس قبرستان کی خاموش فضا پر ایک نظم لکھی۔
کلورکوٹ سے راولپنڈی آکر تلوک چند کو یوں لگا جیسے اسے اپنی مرضی کی منزل مل گئی ہے۔ جگن ناتھ آزاد نے اپنے والدکے حوالے سے اس زمانے کے بارے میں لکھا کہ ان دنوں راولپنڈی میں ادبی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں اور ادب کے کتنے ہی جگمگاتے نام راولپنڈی میں رہتے تھے۔ ان میں عبد الحمید عدمؔ‘ عطا اللہ کلیمؔ‘ عبد العزیز فطرت‘ؔ حاجی سرحدی‘ فضل الرحمن اشکؔ اور باقی صدیقی شامل تھے۔ تلوک چند محروم کا راولپنڈی کا پہلا تاثر ان شعروں میں ڈھل گیا۔
نظارۂ سرو سمن اس شہر میں ہے
بوٹا سا ہر اک گلبدن اس شہر میں ہے
یہ شہر بسا ہوا چمن میں ہے‘ یا
خاصیتِ خاکِ چمن اس شہر میں ہے
یوں تو راولپنڈی میں مختلف شاعروں اور ادیبوں سے تلوک چند کی ملاقاتیں رہتیں لیکن عبدالحمید عدمؔ کا تلوک چند کے گھر تقریباً ہر روز کا آنا جانا تھا۔ جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں کہ عدم اور عبد العزیز فطرت کی باہمی چپقلش تھی۔ عبدالعزیز فطرت ڈاکخانے میں کام کرتا تھا اس لیے عدم احتیاطاً اپنی ڈاک اپنے گھر کے بجائے تلوک چند کے گھر کے ایڈریس پر منگواتا تھا۔ ان دنوں وہ ملٹری اکاؤنٹس آفس‘ جسے کلکتہ آفس کے نام سے جانا جاتا ہے‘ میں کام کرتا تھا۔ 1943ء میں جب تلوک چند سکول کی ملازمت سے ریٹائر ہوا تو اسے راولپنڈی کے تاریخی تعلیمی ادارے گورڈن کالج میں ملازمت مل گئی جہاں وہ اردو اور فارسی کا پروفیسر تعینات ہوا۔ کیسا حسین اتفاق ہے کہ ایک عرصے بعد میں بھی گورڈن کالج کا طالبعلم بنا۔ یوں میں زندگی کے ان دو مقامات سے گزرا جہاں تلوک چند محروم کے قدموں کے نشان تھے چاہے وہ لال کرتی کا سی بی ٹیکنیکل سکول ہو یا راولپنڈی کا تاریخی گورڈن کالج۔ سکول کی چار دیواری سے نکل کر تلوک چند کالج کی کھلی فضا میں آیا تو اسے یوں لگا کہ یہ جگہ واقعی اسی کیلئے بنی تھی۔ تلوک چند نے گورڈن کالج پر ایک نظم بھی لکھی۔ اس نظم کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں جن میں تلوک چند کی گورڈن کالج کیلئے محبت جھلک رہی ہے:
میں نے پایا جانفزا سرسبز نخلستانِ شوق
زندگی کے دشت میں اے گارڈن کالج تجھے
تیرے دامن میں گزارے ہیں جو اطمینان سے
آہ وہ ایام بھولے ہیں‘ نہ بھولیں گے مجھے
راولپنڈی کے گورڈن کالج کے بارے میں تلوک چندکے اس تاثر میں کوئی مبالغہ نہ تھا۔ یہ کالج محض ایک عام تعلیمی ادارہ نہیں تھا بلکہ ایک تاریخ‘ ایک ثقافت اور ایک تہذیب کا نام تھا۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved