ملک میں کافی عرصے سے آڈیو وڈیو لیکس کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی بھی اس فعل میں ملوث افراد کا تعین کرنے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں کہ یہ کہاں تیار ہوتی ہیں‘ کیسے نشر ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ یہ لیکس عام طور پر کسی فرد کی تضحیک کرنے کے لیے تیار کی جاتی ہیں۔ ان کو عموماً سوشل میڈیا کے ذریعے سے پھیلایا جاتا ہے۔ میرے نزدیک جو بھی شخص ایسی کوئی بھی وڈیو یا آڈیو لیک کو سب سے پہلے شیئر کرتا ہے‘ عوام کو اس سے سوال کرنا چاہیے کہ یہ ریکارڈنگ اس کے پاس آئی کہاں سے ہے؟ جس چیز سے کسی کی توہین ہو‘ کسی کی عزت پر حرف آئے یا کس کے نجی لمحات پبلک ہو جائیں‘ یہ صحافتی اصولوں کے مطابق خبر نہیں ہے‘ اسے کسی طور پر بھی میڈیا یا سوشل میڈیا پر پھیلایا نہیں جانا چاہیے۔
گزشتہ چار سے پانچ برس پر نظر دوڑائیں تو وزیراعظم سمیت کابینہ کے اراکین‘ وزرا‘ مرکزی سیاسی قیادت اور دیگر اہم قومی شخصیات کی آڈیوز سامنے آ چکی ہیں جن کو ٹی وی چینلز پر بھی نشر کیا گیا۔ کسی نے بھی اس کو چلانے سے انکار نہیں کیا جبکہ میرے نزدیک کسی بھی فرد کی‘ کوئی بھی گفتگو جو اس کی لاعلمی میں ریکارڈ کی گئی ہو‘ اسے خبر کے طور پر نشر نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح وڈیو لیکس بھی سامنے آئے۔ خواتین کے ساتھ ایسے لیکس براہِ راست تو شیئر نہیں کیے جاتے لیکن سوشل میڈیا پر سب کچھ مرد و خواتین کی تفریق کی بغیر شیئر ہوتا رہتا ہے‘ اس لیے اگر ایسی کسی لیک پر کبھی نظر پڑ جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہوٹلوں اور گھروں کے بیڈ رومز میں کیمرے لگا کر یہ ریکارڈنگز کس نے کیں اور کس نے لوگوں کے یہ نجی لمحے پبلک کے لیے سوشل میڈیا پر شیئرکر دیے۔ اس اخلاقی گرواٹ پر سب چپ ہیں اور کوئی کچھ نہیں بول رہا۔ بالخصوص وہ لوگ‘ جو ایکسٹرا میریٹل افیئرز رکھتے ہیں‘ وہ اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل ایک معروف فائیو سٹار ہوٹل سے ایک معروف شخصیت کی وڈیوز لیکس ہوئیں جو ایک منظم کارروائی لگتی تھی۔ اس کی معتدد بار کی ریکارڈنگز ایڈیٹنگ اور وائس اوور کے ساتھ سوشل میڈیا پر نشر کر دی گئیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ شخص اس حوالے سے قانونی کارروائی کرتا کیونکہ کسی کے نجی لمحات کی چھپ کر وڈیوز بنانا برا عمل ہونے کے ساتھ ساتھ گناہ کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ یہ ایک سائبر کرائم ہے لیکن اپنی مزید کردار کُشی کے خوف سے وہ شخص خاموش ہو گیا۔ کسی کی چھپ کر وڈیو بنانا‘ اسے سوشل میڈیا پر پھیلا کر بلیک میل کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ جب بھی ایسی کوئی وڈیو لیک ہوتی ہے سوشل میڈیا پر لوگ بہت فخر سے بتا رہے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس اس کا لنک موجود ہے یا یہ کہ ان کے پاس یہ وڈیو وَٹس ایپ پر موجود ہے۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین ان سے اس وڈیو اور لنک کا مطالبہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسی برائی کا غیراعلانیہ اور اعلانیہ ارتکاب کرتے لوگوں کو کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا۔ لوگوں کی دینی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ملک اور معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ ایک دوسرے سے نظریاتی اور سیاسی اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کی کمزوریوں کو پکڑ کر یہ آڈیو‘ وڈیو لیکس جاری کیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک دوسرے سے اختلافات نفرت کا روپ دھار چکے ہیں۔ اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے لوگ کسی بھی حد تک گرنے سے گریز نہیں کرتے۔ اسی سوچ سے سماجی بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔
اگلے روز ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک 22 سالہ لڑکی کو اُس کے بھائی نے گلا دبا کر قتل کر دیا جبکہ اس کا دوسرا بھائی پاس کھڑا اس واردات کی وڈیو بناتا رہا اور باپ پاس بیٹھا تماشا دیکھ رہا تھا۔ لوگ اسی طرح زیادتی‘ اغوا اور ڈکیتی جیسی وارداتوں کی وڈیوز بناتے ہیں اور بعد میں ڈراک ویب پر چلا دیتے ہیں۔ بعض افراد ایسے بیہودہ عمل کو اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے بچوں کا استحصال تک کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ہمارے ملک میں آڈیو اور وڈیو لیکس کیوں ہو رہی ہیں‘ کون لوگ ہیں جو لوگوں کی نجی لمحات کی ریکارڈنگ کرتے ہیں اور لوگوں کو پتا تک نہیں چلنے دیتے۔ اس سلسلے کو روکا کیوں نہیں جا رہا۔ علما کرام بھی اس ساری کارروائی پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انہیں اس حوالے سے قوم کی آگاہی دینی چاہیے کہ کسی کی لاعلمی میں وڈیو بنانا اور اس کو پھیلانا کتنا بڑا گناہ ہے۔ کسی کو بلیک میل کرنا کتنا بڑا جرم ہے۔ کسی کی تضحیک کرنا‘ کسی کا مذاق اڑانا کیسا فعلِ بد ہے۔
آڈیو اور وڈیو لیکس کے بعد منگل کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے تمام آٹھ جج صاحبان اور بدھ کے روز چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے دس جج صاحبان کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہوئے ہیں۔ججز کو بھیجے جانے والے خطوط میں سفید سفوف بھی موجود تھا۔نائن الیون کے بعد امریکہ میں وائٹ ہائوس‘ سیاستدانوں اور میڈیا ہائوسز کو کچھ ایسے ہی خطوط بھیجے گئے تھے جن میں انتھراکس نامی سفوف تھا۔ کم از کم پانچ افراد ان حملوں میں امریکہ میں ہلاک ہوئے تھے۔ یہ ایک بائیولوجکل حملہ تھا۔ اس خطرناک سفوف کو چھونے سے انسان مختلف عوارض کا شکار ہو جاتا اور آخرِکار موت کے منہ میں چلا جاتا۔ انٹرنیٹ کے دور میں خط لکھنا اور وہ بھی اتنی اچھی لکھائی میں‘ یہ اچنبھے کی بات ہے۔ اس دور میں خطوط کم لکھے جاتے ہیں اور لکھائی بھی زیادہ تر لوگوں کی اتنی اچھی نہیں ہے۔ محکمہ ڈاک سے ہوتے ہوئے یہ دھمکی آمیز خطوط کورٹ تک پہنچ بھی گئے۔ کیا محکمہ ڈاک‘ ڈاک چیک نہیں کرتا‘ کیا لوگ کسی کو کچھ بھی بھیج سکتے ہیں؟ میں خطوط کھولنے کی بات نہیں کررہی‘ ڈاک کی سکریننگ کی بات کر رہی ہوں۔
ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ اس دور میں لکھے گئے ذاتی خطوط بھی ادبی فن پارے بن گئے اور ایک یہ دور ہے جب خط و کتابت کو دھمکیوں کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ نہ صرف خطوط کے ذریعے دھمکیاں دی جا رہی ہیں بلکہ مشکوک مواد بھی بھیجا جا رہا ہے۔ ہر ملک کی ایک ثقافت ہوتی ہے‘ اپنا ادب ہوتا ہے‘ اخلاقیات ہوتی ہیں‘ یہ سب کرکے اخلاقیات کی پامالی نہ کی جائے۔ اس ملک میں کوئی چیز پائیدار نہیں‘ جیسے جمہوریت‘ انتخابی عمل اور وزیراعظم کی کرسی لیکن دھمکی ایک ایسی چیز ہے جو ہمارے ملک میں ایک پائیدار شے کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ اس لیے ''ریشمہ‘‘ اور ''گلشاد‘‘ کی باتوں کو ہلکا نہ لیا جائے اور فاضل جج صاحبان کو فول پروف سکیورٹی فراہم کی جائے۔ ان کے جان و مال کی حفاظت کی جائے۔ کیسا وقت آن پہنچا ہے کہ جن سے عوام کو انصاف کی امید تھی وہ خود انصاف کے متلاشی ہیں۔ اب یہ پردہ ہٹ جانا چاہیے کہ انٹرنیٹ‘ الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں یہ مکتوب نگاری کون کررہا ہے۔ اس کام کا جب آغاز ہوا تھا اگر تبھی اس پر قابو پا لیا جاتا تو آج حالات اس نہج پر نہ آتے۔ حکومت کو اس سلسلے کو روکنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے ورنہ کل کو سب اس کی زد میں آئیں گے۔ شرعی اور سماجی طور پر یہ سب درست نہیں‘ شاید ان آڈیو؍ وڈیو لیکس کے موجد اس بات کو سمجھ جائیں اور توبہ کرلیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved