بیک وقت افغانستان اور عراق میں جنگ لڑنا دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکہ کیلئے مشکل ہو گیا تھا۔ جرمنی کو دو محاذوں پر جنگ لڑنی پڑی تو شکست سے دوچار ہوا۔ مگر ہماری کیا بات ہے کہ مختلف محاذوں پر لڑے جا ر ہے ہیں اور کوئی پروا نہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آئے روز حملے ہو رہے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف برسر پیکار ہے اور بلوچستان میں بھی کئی ایسی تنظیمیں ہیں جنہوں نے اعلانِ جنگ کیا ہوا ہے۔ لیکن ہماری حکمت عملیوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ تنظیموں سے زیادہ خطرہ چوہدری پرویز الٰہی‘ صنم جاوید اور عالیہ حمزہ سے ہے۔ قانون کا پورا زور لگتا ہے ان جیسوں کو دبانے پر۔ عدالتی نظام کی تمام توانائیاں ان پر صرف ہو رہی ہیں۔ ایک اور خطرناک مجرم کا نام ذہن سے اُتر گیا‘ شاہ محمود قریشی۔ مخدوم بھی سوچتے ہوں گے اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
میں مذاق نہیں کر رہا‘ یہ سنجیدہ باتیں ہیں۔ معیشت کو چھوڑیے‘ اُس کا ذکر کیا کرنا۔ ذکر کرکر کے پوری قوم تھک چکی ہے لیکن معیشت ہے کہ سنورنے کا نام نہیں لے رہی۔ لیکن یہ جو تقریباً باقاعدہ جنگیں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری ہیں‘ یہ بہت سنجیدہ مسئلہ ہے‘ ان سے پیدا ہونے والے خطرات پاکستان کو لاحق ہیں۔ لیکن یہاں تو لگتا ہے ترجیحات ہی اور ہیں۔ اندر رکھو فلاں کو‘ مقدمات قائم کرو خاص قماش کے لوگوں پر اور پھر یہ اہتمام کرو کہ مقدمات کتنے ہی بوگس ہوں‘ اس قماش کے لوگوں کو ضمانت پر باہر نہیں آنے دینا۔ عدالتی نظام اور قانون کی کتابیں مذاق بن کر رہ گئی ہیں۔ جج صاحبان دھمکیوں کی بات کر رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش یہ سب بڑے چیلنجزہیں لیکن ہم اپنی ڈگر پر مست ہیں۔ یہ جو خواتین جن پر مقدمات ہیں‘ ان پر الزامات یہ ہیں کہ پچھلی مئی کی فلاں تاریخ کو بیک وقت لاہور کے مختلف مقامات اور ایک کہیں میانوالی میں یہ سرکاری تنصیبات پر حملہ آور ہوئیں۔ یعنی سپرمین کیا ہوا‘ ان کے اُڑنے کی صلاحیتیں سپرمین سے بڑھ کر ہوئیں کہ لاہور میں بھی حملہ کرتی ہیں اور پھر اڑانبھر کر میانوالی میں بھی حملہ کر دیتی ہیں۔ مذاق کا بھی کوئی ڈھنگ ہونا چاہیے‘ یہاں تو بس کارروائیاں ڈالنی ہوتی ہیں‘ چاہے وہ کتنی بھونڈی قسم کی ہوں۔
ہمارے جو حضور ہیں یا سرکار ہیں یا اُنہیں اور کوئی لقب ہم دیں‘ اُنہیں کیسے بتایا جائے کہ جناب مملکت سنگین خطرات کی زد میں ہے اور پورا دھیان ان پر دینا چاہیے۔ حکمت عملی ان خطرات کے بارے میں بنانی چاہیے اور تمام توانائیاں ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے صرف ہونی چاہئیں۔ لیکن تماشے لگے ہوئے ہیں‘ یہ جو تماشا الیکشن کے نام پر لگا تھا‘ اس سے کوئی مذاق زیادہ ہو سکتا ہے؟ واردات اور وہ بھی پوری قوم کیا پوری دنیا کے سامنے لیکن کوئی پروا نہیں‘ ہم نے اُسی ایجنڈے پر چلنا ہے جو زرخیز ذہنوں نے مرتب کیا۔ اور جو انگلی اٹھائے یا جو کہیں کہ حضور آپ کی ترجیحات تھوڑی غلط ہیں‘ وہ بھاڑ میں جائیں۔
ایک اور چیز چونکا دینے والی ہونی چاہیے لیکن یہاں کسی کو کوئی پروا نہیں۔ اب تو یہ خبریں عام ہو چکی ہیں کہ ہندوستان کی جاسوس ایجنسی ''را‘‘ نے پاکستان میں مختلف اشخاص کو ٹارگٹ کیا ہے۔ چند مہینوں کی بات ہے کہ کوئی خالصتانی پیروکار جو لاہور کے جوہر ٹاؤن میں مقیم تھا اور ہماری حفاظت میں تھا‘ کو مار دیا گیا۔ سردار جی نزدیک کسی پارک میں صبح کو سیر کیلئے جاتے تھے اور وہیں اُن پر حملہ ہوا۔ ایک وڈیو بھی سامنے آئی کہ ایک آدمی پارک کی طرف جا رہا ہے اور پھر سڑک کے انہی کیمروں کے سامنے واردات کے بعد واپس آ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ''را‘‘ نے اس خالصتانی کی کھوج لگائی ہو گی‘ پوری پلاننگ کی ہو گی اور پھر واردات کی ہو گی۔ اگر لاہور کے جوہر ٹاؤن میں ایسا واقعہ ہو سکتا ہے تو بتائیے کون سی جگہ یہاں محفوظ رہ جاتی ہے؟ ایک تنظیم کے سربراہ کے گھر کے باہر بھی چند ماہ پہلے ایک دھماکہ ہوا تھا۔ میرے جیسوں نے سمجھا ہو گا کہ یہ کوئی ڈرامہ رچایا جا رہا ہے لیکن ''را‘‘ کی حرکتوں کے تناظر میں یہ ڈرامہ نہیں کوئی اصلی واقعہ ہی لگتا ہے۔ پچھلے مہینوں میں ایسی سابقہ تنظیموں سے جڑے ہوئے چند اور لوگوں پر پُراسرار قسم کے حملے ہوئے جن میں اُن کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ایک تو شاید راولا کوٹ میں واقعہ ہوا تھا کہ صبح سویرے فجر کی نماز کے وقت مسجد میں کسی پر پستول کے فائر ہو گئے اور فائر کرنے والا موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا۔ اب تک تو ہم یہی سمجھتے تھے کہ ان لوگوں کی اپنی سکیورٹی بڑی مضبوط ہے اور ٹارگٹ کرنا تو دور کی بات‘ ان تک پہنچ بھی کون سکتا ہے۔ لیکن یہ تمام کڑیاں ملائی جائیں تو بڑی خطرناک صورتحال نمودار ہوتی ہے۔ ہمیں تو ان واقعات پر توجہ دینی چاہیے کہ ''را‘‘ کی مداخلت کس نوعیت کی ہو گئی ہے۔ کلبھوشن یادو تو بلوچستان میں پکڑا گیا تھا‘ اُن دور دراز علاقوں کے بارے میں تو شاید یہ کہا جا سکے کہ یہاں تو ایسی چیزیں ہوتی رہتی ہیں اور بارڈر اس قسم کے ہیں کہ ان میں سے گھس آنا کوئی اتنی بڑی حیرانی کی بات نہیں لیکن لاہور اور دیگر ایسے مقامات میں اس قسم کے پُراسرار حملوں کا ہونا ایک تو خطرات کی طرف نشاندہی کرتا ہے اور دوسرا سکیورٹی کی کمزوریوں کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں محاذ اور قسم کے کھلے ہوئے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ بہترین صلاحتیں انہی پر صرف ہو رہی ہیں۔
ہمیں تھوڑے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں‘ خطرات کیا درپیش ہیں اور ہم کہاں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ سلجھاؤ کا راستہ نکلنا چاہیے‘ یہ جو اندرونی محاذ آرائی ہم نے کی ہوئی ہے‘ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ باجوہ اور فیض حمید کی باتوں سے اب نکلنا چاہیے‘ ان کو دہراتے رہنے سے جو سرحدوں پر اور اندرونی طور پر خطرات منڈلا رہے ہیں وہ غائب نہیں ہونے۔ سیاسی انجینئرنگ یہاں پر کی گئی‘ اس کا سب کو معلوم ہے لیکن اب آگے کی طرف جانا چاہیے۔ ملک کا خاصانقصان ہو رہا ہے اور ہم ان چھوٹے چھوٹے تماشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ جن کو اقتدار میں بٹھایا گیا ہے ان کی حیثیت کیا ہے کہ وہ کچھ کر سکیں؟ اب تو رانا ثنا اللہ اور جاوید لطیف جیسے اپنوں کا ہی مذاق اُڑا رہے ہیں‘ طرح طرح کے تبرے کَس رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ موجودہ حکمرانی کی اصلیت کیا ہے‘ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اورکھانے کے اور۔ ایسے میں جس قسم کی فیصلہ کن حکمرانی کی ضرورت مملکت کو ہے وہ کہاں سے آئے گی؟ اکابرینِ ملت (اورنام انہیں کیا دیں؟) کو بیٹھنا چاہیے اور کچھ سوچنا چاہیے کہ تماشوں سے پاکستان کے حالات مزید خراب ہوں گے۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ایک بے ضرر سا خط امریکی صدر سے آتا ہے تو یہاں بغلوں کا بجنا شروع ہو جاتا ہے جیسے بہت بڑی کوئی چیز ہوئی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کا اسحاق ڈار سے فون پر رابطہ ہوتا ہے تو ہیڈ لائنیں لگ جاتی ہیں۔ صورتحال کو دیکھیں اور یہ جو مختلف محاذ کھلے ہوئے ہیں ان کی طرف کچھ توجہ دیں۔ ہم امریکہ سے زیادہ طاقتور نہیں‘ ہٹلر سے زیادہ مضبوط نہیں۔ دھیان کسی ایک طرف دینا چاہیے‘ یہاں قومی دھیان بٹا ہوا ہے اور دلوں سے کدورتیں جا نہیں رہیں۔
پاکستان کا ایک پرابلم ہمیشہ یہ رہا ہے کہ یہاں جب کرسیاں بڑی ہوتی ہیں ان پر بیٹھے لوگ چھوٹے ہوتے ہیں۔ وقت کے چیلنجوں پر پھر ایسے لوگ پورا نہیں اترتے اور گھاٹا اور نقصان قوم و ملک کا ہوتا ہے۔ ماضی کے نیچے اب لائن کھینچنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی انجینئرنگ ہو گئی اور اُس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اب ایسی انجینئرنگ سے نکلیں اور جن خطرات میں ملک گھرا ہوا ہے اُن کی طرف کچھ توجہ دیں اور دلوں کو صاف کریں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved