تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-10-2013

اکیس اکتوبر سے اکیس اکتوبر تک

آج اسے گئے پورا ایک سال ہوگیا ہے۔اکیس اکتوبر 2012ء سے اکیس اکتوبر 2013ء تک ۔اس ایک سال میں دنیا اسی طرح ہے ۔ہر شے رواں دواں ہے۔ بقول فیضؔ افسردہ ہیں گرایام تیرے، بدلا نہیں مسلک شام و سحر ٹھہرے نہیں موسم گل کے قدم، قائم ہے جمال و شمس و قمر آباد ہے وادیٔ کاکل ولب، شاداب و حسیں گلگشت نظر مقسوم ہے لذتِ دردِجگر، موجود ہے نعمتِ دیدۂ تر لیکن اس سال میں میرے لیے سب کچھ بدل گیا ہے۔ میں نے بہت سے ایسے کام سیکھ لیے ہیں جن کے بارے میں، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اور ایسی عادتیں چھوڑ دیں جن کے بارے میں مجھے یقین تھا کہ ان سے نجات ممکن نہیں ہے۔ میں صبح اٹھ کر اپنا بستر خود تہہ کرتا ہوں۔ تولیہ خود باتھ روم میں رکھتا ہوں ۔ اپنا ناشتہ خود بناتا ہوں۔ کپڑے استری کرلیتا ہوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شلوار میں ازاربند ڈال لیتا ہوں۔ دوسری جانب میں نے بہت سی عادتیں چھوڑ دی ہیں اور اپنی کئی کمزوریوں پر قابو پالیا ہے ۔باتھ روم کے دروازے سے چپل دائیں بائیں ہوجائے تو گرمی کھانے کے بجائے خود ڈھونڈ لیتا ہوں۔ گھر میں داخل ہوتے ہی میں چیزوں کے بے ترتیب ہونے پر ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتا تھا ۔ میں نے پچھلے ایک سال میں بچوں کو بارہا سمجھایا ہے مگر ڈانٹا نہیں۔لیکن صرف میں ہی کیا بچے بھی بدل گئے ہیں۔ہر بچہ اپنی جگہ پر ذمہ دار ہوگیا ہے۔ میرا درگزر لیول بہت زیادہ ہوگیا ہے لیکن یہ سب کچھ کبھی کبھی بالکل جعلی لگتا ہے مگر چل رہا ہے۔ میں جب روز صبح تیار ہوکر گھر سے جانے لگتا تھا تو میری اہلیہ کبھی کبھارہنس کر پوچھتی تھی کہ آپ دفتر میں کرتے کیا ہیں؟ تو میں بھی جواباً ہنس کر کہتا آپ خواتین کو لگتا ہے کہ ہم مرد دفتر میں پکنک مناتے ہیں۔ موج میلہ کرتے ہیں اور گپیں مارتے ہیں۔ وہ کہتی کیونکہ خود ہی سچ بول کر اقرار کررہے ہیں لہٰذا اب میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ تاہم کبھی کبھار وہ سنجیدگی سے یہی سوال کرتی تھی کہ آپ کا دفتر میں کیا کام ہے؟ میں اسے کام گنواتا اور آخر میں کہتا کہ مجھے واقعتاً دفتر میں کام کرنا ہوتا ہے تاہم اگر دفتر میں کوئی کام نہ بھی ہوتا میں تب بھی دفتر ضرور جاتا اوربفرض محال اگر دفتر نہ جاسکتا تو باہر سڑک پر فٹ پاتھ کے کنارے پر بیٹھ جاتا مگر گھر ہرگز ہرگز نہ بیٹھتا۔ اور اس کی دو وجوہات ہیں ۔پہلی یہ کہ اگر تمہیں یہ پتہ چل جائے کہ میں فارغ ہوں اور مجھے کوئی کام نہیں تو تم پریشانی سے فوت ہوجائو گی اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جونہی تمہیں یہ احساس ہوا کہ میں فارغ ہوں تو تم مجھے چھوٹے چھوٹے کام بتائوگی مثلاً یہ کہ میں ٹماٹر لے آئوں ۔ دھنیا لے آئوں ۔ ٹینڈے اور کدو خرید کر لائوں۔ وہ ہنس پڑتی اور کہتی آپ گھر بیٹھ کر تو دیکھیں میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ سے ٹماٹر ، دھنیا ، ٹینڈے اور کدو وغیرہ نہیں منگوائوں گی۔ میں جواباً کہتا میں تمہاری باتوں میں آنے والا نہیں ۔ مجھے پتہ ہے تم ان چاروں چیزوں کے علاوہ دیگر اسی قبیل کی چیزیں منگوائو گی۔ بڑا بول بعض اوقات سامنے آجاتا ہے۔ اب میں دفتر بھی جاتا ہوں اور ٹماٹر ، دھنیا ، ٹینڈے اور کدو بھی خریدتا ہوں۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ یہ سال کی نہیں دو چار روز پہلے کی بات ہے جب ہم اسے ایمبولینس پر فاطمہ میڈیکل سنٹر سے رات ساڑھے گیارہ بجے گھر لائے تھے اور بیڈ روم میں رکھی چارپائی پر لٹا دیا تھا۔ کبھی ایسا لگتا ہے کہ اس بات کو عشرے بیت گئے ہیں۔ کبھی گمان ہوتا ہے کہ درس قرآن پر گئی ہے ابھی آجائے گی اور کبھی مجھے یہ شبہ پڑتا ہے کہ وہ کبھی اس گھر میں تھی بھی کہ نہیں ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ میں باتھ روم سے اسے آواز دیتا ہوں کہ پانی کی موٹر چلوادے۔اس کی ساری چیزیں ابھی تک اس کی سائیڈ ٹیبل پر پڑی ہیں۔ اس کا پرس اس کی سائیڈ ٹیبل کے اوپر والے خانے میں پڑا ہوا ہے اور اس میں موجود پیسے بھی اسی طرح موجود ہیں۔ حتیٰ کہ اس کا کپڑوں کا جوڑا ڈریسنگ روم کی کھونٹی پر اسی طرح لٹکا ہوا ہے صرف میری بیٹیوں نے اس کا تکیہ الماری میں رکھ لیا ہے۔ یہ تکیہ آخری وقت تک اس کے سر کے نیچے تھا۔ وہ ہر چار چھ ماہ بعد گھر کی ساری ترتیب بدل دیتی تھی۔ حتیٰ کہ اس نے ہسپتال میں چار دن قیام کے دوران ہسپتال کے کمرے کی ترتیب بدل دی۔ بیڈ کی جگہ تبدیل کروائی ، ٹرالی اورصوفے کی جگہ بدل دی۔ اب یہ عالم ہے کہ گھر کی ہرچیز اسی جگہ پڑی ہے جہاں وہ چھوڑ گئی تھی۔ رخصت ہونے سے چند ہفتے پیشتر اس نے لان میں پہلے گلاب کا اور گریپ فروٹ کا پودا لگایا۔ اس سال پھولوں کے موسم میں گلاب کے پودے پر ایک پھول کھلا اور گریپ فروٹ کے پودے پر ایک پھل لگا۔ پھول بھی بھرپور تھا اور گریپ فروٹ بھی۔ وہی مالی ہے مگر لان اجڑ چکا ہے اور صرف لان ہی کیا۔ پہلے پہل میری اہلیہ کی ملنے والیاں گھر آتی تھیں اور میری بیٹیوں سے اپنی سہیلی کی باتیں کرنا چاہتی تھیں مگر کوئی بچہ اپنی ماں کی بات کرنا ہی نہیں چاہتا۔ گزشتہ ایک سال میں ہم نے آپس میں بمشکل چند بار اس کا ذکر کیا ہوگا وہ بھی عموماً اس طرح کہ کبھی کبھار کوئی ایک دوسرے کو کہتا ہے کہ ایسا کرنا چاہیے۔ ماما ایسا کرنے کے لیے کہہ گئی تھیں۔بچوں میں بڑی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں وہ اپنی عیدی ، جیب خرچ اور مختلف حوالوں سے ملنے والے پیسے جمع کرتے ہیں اور مجھے بتائے بغیر ایسے لوگوں کو بھجوا دیتے ہیں جنہیں ان کی ماں اپنی زندگی میں ہر ماہ کچھ نہ کچھ بھجواتی تھی۔ بچوں کی نماز میں خاصی باقاعدگی آئی ہے اور دونوں بڑی بیٹیاں اب کثرت سے قرآن مجید کی تلاوت کرتی ہیں ۔بچے سدا سے صابر اور شاکر تھے مگر اب معاملہ ہی کچھ اور ہے ۔یہ سال بڑا مشکل تھا مگر ہم سب نے ایک دوسرے کے حوصلے پر صبر اور شکر سے گزارا ہے۔ ایک مصرع مجھے اکثر یاد آتا ہے ۔یہ مصرع میاں محمد سے منسوب ہے مگر میاں محمد کے کلام میں کم از کم مجھے کہیں نظر نہیں آیا۔ اللہ کی رضا پر راضی ہونے کا اس سے بہتر مصرع کم از کم اس عاجز کی نظر سے نہیں گزرا۔ جے سوہنا میرے دکھ وچ راضی، تے میں سکھ نوںچلہے پاواں (اگر میرا دکھ اس کی رضا سے ہے تو میں سُکھ کو چولہے میں ڈالتا ہوں) میں بھی سونے کا شوقین تھا اور اس کا شوق بھی جلد سونا تھا۔ میں بعض اوقات اسے چھیڑتا تھا کہ اگر کسی رات میں اس سے پہلے سو جائوں تو اسے اس بات پر باقاعدہ ڈپریشن ہوتا ہے کہ میں نے اس سے زیادہ سو لیا ہے۔ جواباً وہ ہنس کر کہتی کہ ڈپریشن تو نہیں ہوتا لیکن صدمہ ضرور ہوتا ہے۔ دس بارہ سال پہلے ایک چاند رات ہمارے ایک عزیز میاں بیوی رات تقریباً ساڑھے نو پونے دس بجے ہم سے ملنے آئے تو ہم سوچکے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسے سونا بہت عزیز تھا جب وہ خوش ہوتی تو اس خوشی میں جلد سو جاتی اور کبھی اداس ہوتی تو اس اداسی میں جلد سوجاتی تھی۔ وہ زیادہ تر خوش ہی رہا کرتی تھی۔ خدا جانے اب وہ جو نیند سو رہی ہے وہ کس قسم کی ہے مگر مجھے اس بات کا اطمینان بھی ہے اور مالک کے رحم اور کرم کے باعث یقین بھی کہ وہ سُکھ کی نیند سو رہی ہے مگر میرے ساتھ معاملہ دوسرا ہے۔ میں رات گئے تک جاگتا ہوں۔ ممکن ہے اب مجھے اس بات کا ڈپریشن ہوکہ وہ مجھ سے پہلے سو گئی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved