معاشی فرنٹ پر تو کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے لیکن سیاسی منظرنامے پر تاحال ابہام کے بادل چھائے نظر آتے ہیں۔ حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط جلد مل جائے گی اور عالمی اقتصادی ادارے نے پاکستان کے ساتھ نئے پروگرام پر بات چیت کا آغاز کرنے پر آمادگی بھی ظاہر کر دی ہے۔ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ کی میٹنگ ماہِ رواں کے آخر میں ہو گی ‘تاہم وزیر اعظم شہباز شریف نے پیشگی خبردار کر دیا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط آسان نہیں ہوں گی‘ لیکن آئی ایم ایف پروگرام معیشت کی بحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ مہنگائی کچھ کم ہوئی ہے‘ مزید کم ہو جائے گی‘ لیکن ادارہ ٔشماریات کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں 0.96 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح 29.45 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ دوسری طرف ورلڈ بینک اور کچھ دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے بعد اب اقوام متحدہ نے بھی پاکستان کی معاشی ترقی میں تیزی اور مہنگائی میں کمی کی پیشگوئی کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کے جاری اکنامک سروے کے مطابق اگلے سال کے دوران شرح نمو میں دو فیصد سے زائد اضافہ ہو گا جبکہ مہنگائی 12.2 فیصد ہونے کا امکان ہے۔ یہ غالباً اگلے مالی سال کی بات ہو رہی ہے جو یکم جولائی سے شروع ہو گا۔ سروے میں بتایا گیا ہے کہ توانائی کے شعبے میں سبسڈیز کے خاتمے اور مالی نظم و ضبط لانے سے معاشی استحکام آنا شروع ہوا ہے۔ اگر حکومت عوام‘ خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کے عوام کو آئی ایم ایف کی شرائط کے اضافی بوجھ سے کچھ بچا لے تو یہ معاشی اشاریے یقینا خوش آئند قرار دیے جا سکتے ہیں۔
اس وقت حکومت کو سیاسی منظرنامے پر خصوصی طور پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ معاملات بگڑ گئے تو ان کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اپوزیشن والے پہلے ہی حکومت کے پانچ چھ ماہ میں رخصت ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں سننے میں آیا تھا کہ اپوزیشن کی کچھ جماعتوں نے متحد ہو کر انتخابات میں دھاندلی اور الیکشن کے نتائج تبدیل کیے جانے کے خلاف احتجاج کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اب پتا چلا ہے کہ اپوزیشن نے گرینڈ الائنس ترتیب دے لیا ہے۔ پی ٹی آئی نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بنائے جانے والے گرینڈ الائنس کے تحت 13 اپریل کو پشین میں پہلے جلسے کا اعلان کر دیا ہے۔ پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس میں گرینڈ الائنس سمیت مختلف امور پر تفصیلی تبادلہ خیالات کیا گیا۔ اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق اپوزیشن کی اتحادی جماعتوں کے گرینڈ الائنس کے تحت بھرپور عوامی تحریک شروع ہونے جا رہی ہے‘ جس کی سربراہی محمود خان اچکزئی کو سونپی گئی ہے۔ اچکزئی صاحب ہی چند روز میں مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کر کے انہیں الائنس میں شمولیت پر قائل کریں گے جس کے بعد باقاعدہ عہدوں کا اعلان بھی کیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے خواتین قیدیوں خصوصاً عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کی ضمانت منظور ہونے کے بعد دوبارہ گرفتاری اور ریمانڈ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ سمیت تمام قائدین اور کارکنان کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا ۔
اس وقت کا اہم ترین سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کا احتجاجی سلسلہ اگر چل پڑا تو اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟ اور حکومت نے اس سلسلے میں کیا تیاریاں کی ہیں؟ مفاہمانہ پالیسی اختیار کی جائے گی یا جارحانہ طرزِ عمل اپنایا جاتا ہے؟ میری رائے یہ ہے کہ مفاہمانہ اور مصالحانہ طریقہ ہی بہتر نتائج کا حامل ہو گا۔ فی الحال تو خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانے کا اشارہ دیا گیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے وقت پر جبکہ اپوزیشن پہلے سے بھری بیٹھی ہے گورنر راج کا شوشہ چھوڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ ایسا کوئی اقدام پہلے سے جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہو گا۔ پہلے سے بھڑکی ہوئی اپوزیشن کو اگر مزید بھڑکایا جائے گا تو ظاہر ہے اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑیں گے‘ جبکہ ملک کو درپیش مسائل کا تقاضا یہ ہے کہ معیشت بحال کرنے اور باقی شعبوں میں بہتری اور استحکام لانے کے بارے میں منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔
پچھلے کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ حکومت کی جانب سے وہ سرگرمی نظر نہیں آ رہی جس کی توقع پر انتخابات کا انعقاد کیا گیا تھا یعنی بے یقینی کا کچھ نہ کچھ شائبہ اب بھی باقی ہے‘ جس کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگرچہ بعض عالمی قوتوں کی جانب سے پاکستان میں بننے والی نئی حکومت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے اور حال ہی میں فوجی قیادت نے بھی صدر آصف زرداری کے ساتھ ملاقاتوں میں دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اقدامات کے عزم کا اظہار کیا ہے‘ جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ فی الحال 'ایک پیج پر ہونے‘ کے معاملات تو ٹھیک ہیں لیکن اپوزیشن کا چیلنج بہرحال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک انگریزی جریدے نے From '47 to Form 47 کے عنوان سے ایک آرٹیکل میں یہ واضح کیا ہے کہ آزادی کے بعد معاملات کو ٹھیک ڈگر پر نہیں چلایا جا سکا اور قیامِ پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح کی جلد وفات کے بعد مختلف شعبوں میں جو عدم توازن پیدا ہونا شروع ہوا اس کے نتیجے میں نہ صرف ملک کو بار بار اعلانیہ اور غیر اعلانیہ مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا بلکہ ہمیں 1971ء جیسے سانحے سے بھی گزرنا پڑا‘ اور اب حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ فارم 47 کا معاملہ گمبھیر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد 77 برس کے دورانیہ میں ہم نے جن سانحات کا سامنا کیا‘ ہمیں جو مسائل درپیش رہے اور جن ایشوز پر ہمارے سامنے مشکلات کی دیواریں کھڑی ہوتی رہیں‘ ان سے ہم نے کچھ بھی سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک غلط فیصلہ ہوا‘ اس کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا اور یہ سلسلہ چلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ نگران حکومتوں کا سیٹ اَپ اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ انتخابات کے نتائج پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے اور عوام کے مینڈیٹ کو غیر جانبدارانہ‘ منصفانہ اور شفاف طریقے سے قیادت کو منتقل کیا جا سکے‘ لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ نہ تو سیاستدان ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک دوسرے کو برداشت کرنا ممکن رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے متفقہ طور پر منتخب کی گئی نگران حکومتوں کے تحت ہونے والے انتخابات کو بھی تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ صورتحال کس قدر گمبھیر ہو چکی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں جو لوگ یا جو پارٹیاں الیکشن جیتیں وہ بھی احتجاج کر رہے ہیں اور جوواضح کامیابی حاصل نہ کر سکیں وہ بھی مسلسل احتجاج پر ہیں‘ اور کسی کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ اوپر سے ججوں کے خط کے بعد کچھ زہریلے خطوط کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس کے پیچھے کون سی قوتیں ہیں‘ کیا چاہتی ہیں ‘اس کا بھی ابھی تک کوئی واضح نتیجہ نہیں نکالا جا سکا۔
میرے خیال میں یہی وقت ہے کہ وزیر اعظم دورۂ سعودی عرب سے واپسی پر قوم سے خطاب کریں اور عوام کو بتائیں کہ کون کون سے شعبوں کو وہ کیسے درست کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لائحہ عمل سامنے آئے گا تو لوگوں کو کچھ سکون ملے گا ورنہ افواہیں پھیلتی رہیں گے‘ جن کے منفی اثرات سے وزیر اعظم ناواقف و ناآگاہ نہیں ہوں گے۔ جاری معاملات پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ مبذول و مرکوز کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا بن چکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved