تحریر : میاں عمران احمد تاریخ اشاعت     08-04-2024

وزیراعظم کا دورۂ سعودی عرب

حکومت نے بینکوں سے گزشتہ دو ماہ کے دوران 700 ارب روپے اضافی قرض لیا جس کے بعد قرضوں کا حجم 47 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ حکومت نے رواں مالی سال جولائی تا مارچ ریکارڈ‘ 46 کھرب 90 ارب روپے کے قرضے لیے۔ بھاری حکومتی قرضوں کے سبب نجی شعبے کی جانب سے 70 فیصد کم قرضے لے گیے‘ نتیجتاً اس سے معاشی ترقی میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں‘ دوسری جانب نمایاں ریونیو اضافے کے باوجود ریکارڈ قرضے حکومت کے بھاری اخراجات کو ظاہر کرتے ہیں۔ نگران حکومت نے یکم جولائی سے 19 جنوری 2024ء تک 39 کھرب 90 ارب روپے کا ریکارڈ قرضہ لیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 13 کھرب 98 ارب روپے کے مقابلے میں 185 فیصد زیادہ تھا۔ مالی سال 2022ء اور 2023ء میں حکومت نے بینکوں سے بالترتیب 34 کھرب 48 ارب روپے اور 37 کھرب 16 ارب روپے کے قرضے لیے تھے۔ قرض لینے کے موجودہ رجحان کو دیکھا جائے تو جون 2024ء تک قرضوں کا حجم 65 تا 70 کھرب ہو سکتا ہے۔ حکومت زیادہ ریونیو حاصل کرنے کیلئے توانائی کی قیمتیں مسلسل بڑھا رہی ہے لیکن بینکوں سے لیے جانے والے ریکارڈ قرضوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریونیو میں اضافہ بھی حکومتی اخراجات کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے۔ لاپروائی سے لیے گئے قرضوں سے نہ صرف سود کی ادائیگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے‘ جو بجٹ کے تقریباً 50 فیصد تک پہنچ چکی ہیں بلکہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں بھی کٹوتی کی جا رہی ہے۔ مالی سال 2023ء کے دوران اقتصادی شرحِ نمو منفی رہی اور حالیہ رجحان سے عندیہ ملتا ہے کہ شرحِ نمو گزشتہ سال جیسی رہ سکتی ہے۔ نجی شعبہ اپنے وسائل پر بھروسا کر رہا ہے جبکہ مقامی سرمایے میں نمایاں طور پر کمی ہو چکی ہے۔ دسمبر 2023ء تک پاکستان پر مجموعی طور پر 65189 ارب روپے کا اندرونی و بیرونی قرضہ واجب الادا تھا جس میں صرف ایک سال کے دوران 14 ہزارارب روپے کا اضافہ ہوا۔ دسمبر 2022ء میں ملک پر مجموعی قرضہ 51058 ارب روپے تھا جو ایک سال میں 65189 ارب روپے ہو گیا ‘یعنی اس میں 27.7 فیصد اضافہ ہوا۔ اس مجموعی قرضے میں اندرونِ ملک بینکوں اور مالیاتی اداروں سے لیا جانے والا قرضہ 42588 ارب روپے ہے جبکہ بیرونی ممالک اور عالمی اداروں سے لیا جانے والا قرض 22601 ارب روپے ہے۔ اس واجب الادا مجموعی قرض کا اگر ڈالر میں حساب لگایا جائے تو یہ 131 ارب ڈالر بنتا ہے۔ رواں مالی سال پاکستان کو 24.5 ارب ڈالر قرضہ واپس کرنا تھا جس میں 3.8 ارب ڈالر سود کی ادائیگی اور 20.7 ارب ڈالر اصل زر تھا۔ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں 18 ارب ڈالر قرض واپس کرنا تھا جس میں سے آدھی سے بھی کم ادائیگی کی گئی۔ اب 30 جون تک دس ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے‘ جس میں سے پانچ ارب ڈالر رول اوور ہونے کی توقع ہے جبکہ پانچ ارب ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔ سٹیٹ بینک کے پاس اس وقت آٹھ ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر ہیں جن سے قرضوں کو بھی ادا کرنا ہے اور ملک کی درآمدات کیلئے بھی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ رواں ماہ ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی کرنی ہے جو بین الاقوامی مارکیٹ سے قرضے لینے کیلئے جاری کیے گئے تھے۔ حکومت کو اس ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کا انتظام بہرطور کرنا ہو گا کیونکہ دوست ملکوں سے لیا جانے والا قرض تو رول اوور ہو جاتا ہے؛ تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں سرمایہ کاروں سے لیے جانے والے قرض کو واپس کرنا ہی ہوتا ہے۔
سٹیٹ بینک کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق نجی شعبے کا بینکنگ سسٹم پر اعتماد کم ہوتا دکھائی دے رہاہے کیونکہ نجی شعبہ رواں مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں بمشکل 35 ارب روپے کا قرضہ لے سکا جبکہ مالی سال 2023ء کی اسی مدت میں یہ رقم 264 ارب روپے تھی۔ گزشتہ سال کی منفی اقتصادی نمو سے پہلے‘ نجی شعبے نے مالی سال 2022ء میں 1330 ارب روپے تک کا قرضہ لیا تھا جبکہ اُس سال جی ڈی پی میں چھ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے سیاسی بے یقینی نے معیشت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کاروبار کیلئے مزید غیر موزوں صورتحال پیدا ہو گئی۔ نجی شعبے کی طرف سے کم قرض لینے کی ایک اور وجہ ریکارڈ بلند شرحِ سود ہے۔ سٹیٹ بینک نے مالی سال 2024ء میں اب تک پالیسی ریٹ کو 22 فیصد پر برقرار رکھا ہے جبکہ تجارت و صنعت کے نمائندے گھریلو اور برآمدی‘ دونوں مصنوعات کی لاگت کو قابلِ عمل بنانے کیلئے اس شرح میں 50 فیصد کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ رواں ماہ کے آخر میں شرحِ سود میں 100 سے 200 بیس پوائنٹس کی کمی کی جا سکتی ہے۔ اس وقت مہنگائی میں کمی کی رفتار بہت سست ہے اور رواں مالی سال کے 9 ماہ میں مہنگائی کی اوسط شرح 27 فیصد کے آس پاس رہی۔ نجی شعبے کی مدد کیلئے شرحِ سود میں کمی ناگزیر ہے۔ دوسری جانب بینکوں نے 2023ء میں ''خطرے سے پاک‘‘ سرکاری سرمایہ کاری کے ذریعے زبردست منافع کمایا۔ بڑے پیمانے پر سرکاری قرضوں نے بینکنگ سیکٹر ہی کو بدل کے رکھ دیا ہے اور بینک اب پرائیویٹ سیکٹر کو قرض دینے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ روایتی بینکوں نے جولائی تا مارچ کی مدت میں 57 ارب روپے قرض نجی شعبے کو دیا جبکہ گزشتہ سال کی اسی مدت میں 270 ارب روپے کا قرضہ دیا گیا تھا۔ اسلامک بینک مالی سال 2023ء میں بہت متحرک تھے اور انہوں نے 432 ارب روپے قرض نجی شعبے کو دیا تھا مگر مالی سال 24ء کی اسی مدت میں اس کا حجم صرف 57 ارب روپے ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف وفد کے ہمراہ سعودی عرب کا دورہ ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ملک کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے ماضی میں پاکستان کی وقتاً فوقتاً مدد کی جاتی رہی۔ نومبر 2021ء میں گرتے زرِمبادلہ ذخائر کو سہارا دینے کیلئے سعودی عرب نے سٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں تین ارب ڈالر کی رقم ایک سال کیلئے جمع کرائی تھی؛ تاہم بعد میں اس کی مدت میں مسلسل کئی بار توسیع کی گئی اور اب یہ رقم دسمبر 2024ء تک سٹیٹ بینک کے اکائونٹ میں رہے گی۔ ممکنہ طور پر اس دورے کے دوران پاکستانی وفد اور ولی عہد محمد بن سلمان کی ملاقات میں سرمایہ کاری اور معاشی معاملات زیرِغور آئیں گے۔ سعودی عرب کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے پاکستان کے ساتھ دہائیوں سے اچھے تعلقات ہیں اور اس کا پاکستان کے قریبی اتحادیوں میں شمار ہوتا ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں پاکستان کے نہ ختم ہونے والے معاشی بحرانوں کے سبب اب یہ روایت بن چکی ہے کہ پاکستانی رہنمائوں کے دورۂ سعودی عرب سعودی فیصلہ سازوں سے مالی مدد کے حصول کیلئے ہوتے ہیں۔ شہباز شریف نے گزشتہ دور میں بھی سعودی عرب کے متعدد دورے کیے؛ تاہم وہ کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ سعودی عرب نے کچھ اضافی وسائل کا وعدہ ضرور کیا لیکن اُس صورت میں جب پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل پیرا ہو۔ شاید اب سعودی عرب کی طرف سے کچھ مزید شرائط رکھ دی گئی ہیں۔ دہائیوں سے سعودی عرب کی معیشت کا انحصار تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی پر رہا لیکن اب شہزادہ محمد بن سلمان وژن 2030ء کے ذریعے آمدن کی نئی راہیں کھولنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان میں بڑا سرمایہ لگانے کیلئے پہلے بھی ہامی بھر چکا ہے لیکن پاکستانی حکومت اس کیلئے کوئی قابلِ عمل پلان تشکیل دینے میں مشکلات کا شکار رہی۔ 2015ء میں یمن میں حوثیوں کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کی درخواست کے باوجود پاکستان نے اس جنگ کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا جبکہ حال ہی میں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی کے بعد سے پاکستان نے اپنا اثر و رسوخ مزید کھو دیا ہے‘ لہٰذا اب مالی معاملات پر پیشرفت دو طرفہ مفاد کی بنیاد پر ہو گی اور شاید سعودی عرب کو بھی اسی طرح راضی کرنا ہوگا جس طرح آئی ایم ایف کو کیا جاتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved