لے دے کر ایک‘ دور دراز رشتے کی چاچی رہ گئی ہے جو اصلی مکھڈی حلوہ پکاتی ہے۔ دور دراز رشتے کی یوں کہ وہ میرے والد صاحب مرحوم کے تھرڈ کزن کی بیگم ہے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ تھرڈ کزن کو اردو میں کیا کہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم اردو الفاظ کے انگریزی متبادل ڈھونڈتے تھے۔ اب یہ وقت ہے کہ انگریزی لفظوں کی اردو پوچھتے ہیں۔ اصلی اور خالص مکھڈی حلوہ پکانا ذرا مشکل کام ہے۔ اس کے لیے رات کو گندم کا آٹا بھگو کر رکھنا ہوتا ہے۔ پھر صبح صبح اس کا عرق نکالنا ہوتا ہے جسے ''دودھی‘‘ کہتے ہیں یعنی نشاستہ! اس حلوے کا آبائی وطن ضلع اٹک اور ضلع میانوالی کے علاقے ہیں۔ آج کی نسل گندم کے آٹے کا عرق نہیں نکالتی۔ اب ہر شے ''میڈ ایزی‘‘ ہے۔ سوجی کو پانی میں گھولیے۔ لیجیے نشاستہ یا نام نہاد نشاستہ تیار ہے۔ مگر ہماری رشتے کی چاچی ضعیف اور نحیف ہونے کے باوجود آٹے کا عرق نکالتی ہے۔ اسی لیے ہم کبھی کبھار گاؤں جا کر اس سے اصلی اور خالص مکھڈی حلوے کی فرمائش کرتے ہیں!
کچھ عرصہ پہلے اس چاچی کے بیٹے نے ایک عجیب حرکت کی! میرے ایک کھیت پر قبضہ کر لیا۔ اس نے اس میں مونگ پھلی بو دی اور گاؤں میں مشہور کر دیا کہ زمین کا یہ ٹکڑا اصل میں اس کی ملکیت ہے اور یہ کہ غلطی سے میرے حصے میں سمجھا جا رہا تھا۔ گاؤں والوں نے مجھے اطلاع کی کہ فوراً پہنچو اور آ کر معاملے کو سنبھالو! مجھے معلوم تھا کہ میں گاؤں گیا تو فساد ہو گا۔ چاچی کے بیٹے نے بات سننی ہے نہ ماننی ہے۔ عزیز‘ رشتہ دار اور گاؤں کے دوسرے لوگ دو دھڑوں میں بٹ جائیں گے۔ بستی کی اجتماعی زندگی پر منفی اثر پڑے گا۔ یہ بات مجھے پسند نہ تھی۔ میں نے جدید اسلوبِ جنگ پر عمل کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اسے پروپیگنڈے کی مار دوں گا۔ چنانچہ تمام رشتہ داروں کو اطلاع دی کہ چاچے کے بیٹے نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔ ہمارا خاندان بہت بڑا ہے۔ کئی گاؤں‘ کئی قصبوں اور کئی شہروں پر پھیلا ہوا ہے۔ چاچے‘ مامے‘ تائے‘ پھپھیاں‘ ماسیاں‘ بہنیں‘ بھائی‘ پھر ان کے بچے‘ پھر آگے ان کے بچے‘ غرض ایک لمبا سلسلہ ہے۔ بس ایک پورا قبیلہ ہی سمجھیے۔ جب سب کو معلوم ہوا کہ فلاں نے میرا کھیت ہڑپ کر لیا ہے تو جیسے بھونچال آ گیا۔ پورے قبیلے میں ہر وقت یہی بات ہونے لگی۔ اظہارِ ہمدردی کے لیے آنے والے اعزّہ کا تانتا بندھ گیا۔ چاچے کے بیٹے کو جو بھی ملتا‘ لعن طعن کرتا۔ وہ سودا سلف لینے قریب کے قصبے میں جاتا تو رشتہ دار وہاں بھی اس سے یہی پوچھتے کہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے۔ کچھ لوگ تو اس کے پاس جا جا کر اسے سمجھانے لگے۔ اب وہ گھر سے کم ہی نکلتا۔ یہ بھی سنا کہ چڑچڑا رہنے لگا تھا۔
میں خوش تھا کہ جدید‘ نفسیاتی اسلحہ استعمال کر کے مخالف کو زچ کر دیا ہے۔ امید قوی تھی کہ طعنے اور نصیحتیں سُن سُن کر وہ خود ہی کھیت پر سے قبضہ ختم کر دے گا۔ انہی فاتحانہ خیالات میں ڈوبا ہوا ایک دن گھر بیٹھا تھا کہ ملازم نے ایک لفافہ لا کر دیا۔ یہ ایک عام سا لفافہ تھا جو کسی بھی ڈاکخانے سے مل جاتا ہے۔ ملازم سے پوچھا کون دینے آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ڈاکیا تھا۔ لفافہ کھولا تو اندر سے صرف سادہ کاغذ نکلا جس کے دونوں طرف عجیب سا مواد لگا ہوا تھا۔ سونگھا تو عجیب سی بو آ رہی تھی۔ تھوڑا سا ٹچ‘ بہت تھوڑا سا‘ اس بُو میں جانا پہچانا تھا مگر بہت کم۔ بیگم اور بچوں کو یہ کاغذ دکھایا تو وہ بھی حیران سے ہو گئے۔ سچی بات یہ تھی کہ ہم سب گھر والے ڈر سے گئے تھے۔ ایک عجیب سا خوف تھا جو گھر کے در و دیوار سے جیسے چمٹ گیا تھا۔ بچے تو پھر بھی اپنی دلچسپیوں میں لگ کر خط کو بھول گئے مگر میری اور اہلیہ کی راتوں کی نیند اُڑ گئی۔ ابھی ہم اس خط کو ہضم کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ اسی رنگ کا ایک اور لفافہ ملا۔ لرزتے ہاتھوں سے اسے کھولا تو ویسا ہی کاغذ اور اس کے دونوں طرف ویسا ہی مواد جو خشک ہو چکا تھا۔ اب دہشت کے سائے مزید دراز ہو گئے۔ یوں لگتا تھا کوئی دشمن ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔ اسی دن میری بہن کا فون آ گیا۔ اہلیہ نے ان سے صورتِ حال کا ذکر کیا۔ بس پھر کیا تھا‘ آن کی آن میں یہ خبر تمام اعزہ و اقارب میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ساری بستیوں اور سارے قصبوں اور سارے شہروں میں جتنے بھی رشتہ دار تھے‘ فون کر کے‘ اور بعض خود آکر‘ خیریت پوچھنے لگے اور تشویش کا اظہار کرنے لگے۔ اب پورے قبیلے میں ہر کوئی ان خطوں ہی کی بات کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ اور کوئی موضوع ہی نہ رہا تھا۔
ایک دن ایک دور کے عزیز اسی سلسلے میں ہمدردی کے لیے تشریف لائے۔ کہنے لگے: ان کا فرزند ایک بہت اچھی لیبارٹری میں ملازم ہے۔ کیوں نہ ان کاغذوں پر لگے مواد کو چیک کرایا جائے کہ آخر یہ کیا چیز ہے۔ بیوی سے مشورہ کیا تو اس نے بھی یہی رائے دی۔ دونوں کاغذ انہیں دے دیے۔ اب ذہنی تناؤمیں اضافہ ہو گیا۔ یہ فکر بھی لاحق ہو گئی کہ لیبارٹری والے کیا بتاتے ہیں۔کئی دن اسی سسپنس میں گزرے۔ بالآخر اُن صاحب کا فون آ گیا۔ کہنے لگے کہ لیبارٹری والوں نے عجیب بے تُکی سی بات بتائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سوکھا ہوا مکھڈی حلوہ ہے۔ یہ سن کر میری اور سب گھر والوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ اچانک ایک خیال میرے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا۔ میں نے اُن عزیز سے کہا کہ ازراہِ کرم لیبارٹری سے یہ چیک کرا دیں کہ یہ حلوہ گندم کے نشاستے سے بنا تھا یا عام سُوجی سے؟ دو دن بعد بتایا گیا کہ تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اس حلوے میں نشاستہ تھا۔
اب یہ دو جمع دو چار والی بات تھی۔ نشاستے والا اصل حلوہ تو اُسی چاچی کے ہاں پکتا تھا جس کے بیٹے نے میرے کھیت پر ناروا قبضہ کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ اسے کیا پڑی تھی یہ پُراسرار کام کرنے کی۔ کھیت پر قبضہ اس نے کر لیا تھا۔ میں نے واپس لینے کے لیے کوئی اقدام کیا نہ ہی ایسا سوچا۔ بالآخر میں نے اسے ملنے کا فیصلہ کیا۔ ایک معتدل موسم کی شام تھی‘ گرم نہ سرد‘ جب میں گاؤں میں اس کے گھر پہنچا۔ چاچی کو آداب بجا لینے کے بعد ہم دونوں مرد الگ کمرے میں جا بیٹھے۔ میں نے دونوں کاغذ نکال کر اس کے سامنے رکھے اور بغیر کسی تمہید کے کہا کہ اب وہ خدا کے لیے جھوٹ نہ بولے اور بتائے کہ یہ کام اس نے کیوں کیا۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ مجھے ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ یہ اسی کی کارستانی ہے۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا۔ بالکل لکڑی کی طرح۔ وہ کافی دیر خاموش رہا۔ پھر کہنے لگا ''بھائی! آپ نے کھیت واپس لینے کی کوشش کی نہ عدالت میں گئے مگر پورے قبیلے میں آپ نے میری پوزیشن صفر کر دی۔ میں بدنام ہو گیا یہاں تک کہ گھر سے نکلنا دوبھر ہو گیا۔ زندگی جہنم بن گئی۔ بہت سوچ بچار کے بعد مجھے مشکل کا حل یہ نظر آیا کہ سب کی توجہ اپنے سے ہٹا کر کسی اور طرف لے جاؤں۔ اس کے لیے سنسنی پھیلانا ضروری تھا۔ چنانچہ آپ کو یہ پُراسرار خط بھیجے۔ تیر نشانے پر بیٹھا۔ قبیلہ مجھے بھول کر اس خطرے کے پیچھے لگ گیا۔ یوں لوگوں کی توجہ مجھ سے ہٹ گئی بلکہ کھیت پر قبضے ہی کو لوگ بھول گئے۔
میں ہنستے ہوئے اس سے رخصت ہوا۔ کسی ایشو سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ نسخہ‘ واقعی‘ تیر بہدف تھا!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved