تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     22-10-2013

ہارٹ بریکنگ نیوز

مرزا تنقید بیگ پر جب بے مزا ہونے کا دورہ پڑتا ہے تو اُن کے آس پاس بیٹھے ہوئے سبھی لوگ بے مزا ہوجاتے ہیں۔ کل جب ہم اُن سے ملنے پہنچے تو اِس طرح بیٹھے تھے جیسے کوئی ملے اور وہ اُس پر برس پڑیں۔ ہم چونکہ اُن کے مزاج آشنا ہیں اِس لیے صورتِ حال کو دُور ہی سے بھانپ گئے۔ سلام و دُعا کے بعد جب حال پوچھا تو مرزا اُسی طرح پھٹ پڑنے کو بے تاب ہوگئے جس طرح کوئی بم کسی حملہ آور کے ہاتھ میں ہوتا ہے! مرزا کا مُوڈ بالعموم اُسی وقت خراب ہوتا ہے جب یا تو وہ اہلیہ سے خوب سُن کر بیٹھے ہوں یا پھر ٹی وی پر کچھ ایسا ویسا دیکھ لیا ہو۔ اور ٹی وی پر چونکہ کچھ نہ کچھ ایسا ویسا دکھائی دیتا ہی رہتا ہے اِس لیے مرزا کا مُوڈ بھی اکثر خراب رہتا ہے۔ ہم اِس کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ آخر کِسی کا اپنے دوستوں پر اِتنا حق تو ہوتا ہی ہے کہ اُسے جھیلا جائے! ہم نے حال پُوچھا تو مرزا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، الیکٹرانک میڈیا کو غیر منقوط زبان میں ’’خراجِ عقیدت‘‘ پیش کرنا شروع کردیا! میڈیا پر تابڑ توڑ حملوں کے دوران جب وہ سانس درست کرنے کو رُکے تو ہم نے مزاج کے برہم ہونے کا سبب پوچھا۔ اُنہوں نے ایک معروف شعر کو توڑ مروڑ کر یوں پیش کیا ؎ وہ آہ بھی کرتے ہیں تو مل جاتی ہے شہرت ہم قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا! چند لمحوں میں یہ عُقدہ کُھلا کہ مرزا کا مُوڈ خراب ہونے کی ’’وجہِ تسمیہ‘‘ ریما کی سینڈل کے تسمے کا ٹوٹنا ہے! جناب ریما پر برہم تھے کیونکہ اُس کی وجہ سے نیند ٹوٹی تھی۔ ہوا یہ کہ مرزا دفتر سے تھکے ماندے آئے تھے اور گہری نیند میں تھے کہ بچوں نے یہ کہتے ہوئے جگا دیا کہ تمام نیوز چینلز پر بریکنگ نیوز چل رہی ہے۔ مرزا کو چونکہ بریکنگ نیوز کا ہَوکا ہے اِس لیے اُنہوں نے فوراً ٹی وی آن کیا تو معلوم یہ ہوا کہ لاہور کے ایک فیشن شو میں کیٹ واک کے دوران ریما کی سینڈل ٹوٹ گئی ہے! مرزا نے یکے بعد دیگر آٹھ نیوز چینلز کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ سبھی اِس ’’قومی سانحے‘‘ کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کر رہے تھے! یہ منظر دیکھ کر مرزا ہَتّھے سے اُکھڑ گئے۔ پہلے تو اُنہوں نے بچوں پر طبع آزمائی کی اور اُنہیں اچھا خاصا مطعون کرنے کے بعد میڈیا والوں کی طرف آئے کہ اُنہوں نے بریکنگ نیوز کا معیار اِس حد تک گِرا دیا ہے کہ اب کسی اداکارہ کی سینڈل کا ٹوٹ جانا بھی اولین ترجیح والی بریکنگ نیوز میں تبدیل کردیا گیا ہے! ہم نے مرزا کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جس معاملے میں کچھ ٹوٹ گیا ہو یعنی break ہوا ہو اُس کا تو حق بنتا ہے کہ بریکنگ نیوز میں پیش کیا جائے۔ ریما کی سینڈل کا ٹوٹنا ہر اعتبار سے بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کیا جانے والا واقعہ تھا! اور سچ تو یہ ہے کہ جب سے ریما نے شادی کرکے فلمی دُنیا سے فاصلے پر رہنے کی عادت اپنائی ہے، اُن کے لاکھوں مَدّاحوں کے لیے اُن کی ایک جھلک دیکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ ایسے میں سینڈل کا ٹوٹنا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا کہلائے گا۔ یعنی مَدّاحوں کی دُعا رنگ لائی اور سینڈل نے ٹوٹ کر مِنی اسکرین پر اُن کے درشن کا اہتمام کیا! یہ سُننا تھا کہ مرزا آگ بگولہ ہوگئے۔ ’’تم جیسے لوگ ہی میڈیا کو اِس سطح تک لے آئے ہیں۔ کچھ نہیں ملتا تو کیٹ واک میں گڑبڑ کے منتظر رہتے ہو تاکہ کچھ بولنے اور لکھنے کا موقع ملے۔‘‘ ہم نے سمجھایا کہ ہم سب کمرشل دور میں جی رہے ہیں۔ اب ہر چیز کمرشل ویلیو کے اعتبار سے دِکھتی اور بکتی ہے۔ مرزا بولے۔ ’’محنت کرتے کرتے ہماری بھی کمر شل ہوگئی ہے مگر ہمیں تو کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔‘‘ ہم نے تسلی دی کہ بالکل نہ گبھرائیں۔ اب سبزیوں کے دام جس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اُسے دیکھتے ہوئے پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ کچھ دن بعد لوگ دستر خوان پر آپ کے آگے صرف گھاس ہی ڈالا کریں گے! مرزا ہمیشہ میڈیا والوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ رائی کا پربت اور بات کا بتنگڑ بناتے ہیں۔ ہم نے بارہا سمجھایا کہ یہی اُن کا کام ہے، روزی روٹی ہے، مہارت ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو پھر کیا کریں؟ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے تو کھائے گا کیا؟ ریما کی سینڈل ٹوٹی تو ہماری آنکھوں میں بھی کالمانہ چمک پیدا ہوئی! مرزا نے تپ کر کہا۔ ’’میں نے کب کہا کہ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے؟ نہ کرے دوستی اور خوب گھاس کھائے، مگر عوام کو تو گھاس کھانے پر مجبور نہ کرے!‘‘ ہمیشہ کی طرح مرزا کا استدلال یہ تھا کہ اگر اُن کی چپل ٹوٹ جائے تو اہلیہ خشمگیں نظروں سے گُھورتی ہیں اور راستے ہی میں اُلٹا سیدھا سُنانے لگتی ہیں۔ اور اگر کسی سیلیبریٹی کی سینڈل ٹوٹ جائے تو گھر بھر کے افراد ٹی وی سیٹ کے سامنے براجمان ہوجاتے ہیں! ہم نے مرزا کے گوش گزار کیا کہ ریما ایک باصلاحیت فنکارہ ہے۔ اُسے اپنی خرابی اور کمزوری کو بھی خبر بنانا آتا ہے۔ آپ کی کمزوری تو خود آپ ہی کو خبر بناسکتی ہے! مرزا نے سرد آہ بھرتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں بھائی، وہ talented ہے اور ہم tail-ended ہیں! اُن کی کیٹ واک کو دیکھنے والے تو لاکھوں، بلکہ کروڑوں ہیں۔ ہماری ’ڈاگ واک‘ کون دیکھے گا! ہاں بھائی، بڑے کی ہر بات بڑی۔ ہم اچھا بھی گائیں تو لوگ بے سُرا قرار دیں۔ اور اگر کوئی خاندانی گویّا بے سُرا ہوجائے تو لوگ لے کاری سمجھ کر داد دیتے ہیں!‘‘ ہم نے ڈھارس بندھائی کہ دِل چھوٹا نہ کریں، جس طرح اہلیہ کے سامنے آپ کا کچھ نہیں آتا بالکل اُسی طرح ریما کے ’’مرزا‘‘ بھی بے دام کے ہیں! اگر کبھی ریما کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے اُن کے شوہر کے جوتے کا تلا نکل گیا تو بے چارے اپنا سا مُنہ لے کر رہ جائیں گے کیونکہ کوئی چینل اِس ’’سانحے‘‘ کی بریکنگ نیوز نہیں چلائے گا! ایک زمانہ تھا کہ نسیم حجازی مرحوم نے ’’اور تلوار ٹوٹ گئی‘‘ لکھ کر دِلوں کو گرمایا تھا۔ وہ مِلّی تاریخ کا معاملہ تھا۔ بات قومی تاریخ تک پہنچی تو کوثر نیازی مرحوم کی زبان میں ’’اور لائن کٹ گئی‘‘ کہلائی۔ اب ہم اپنی مِلّی و قومی تاریخ کے جس پُرفتن دور سے گزر رہے ہیں اُس میں معاملات ’’اور سینڈل ٹوٹ گئی‘‘ کی منزل میں اٹک کر رہ گئے ہیں۔ جب چینلز کے پاس دِکھانے کے لیے کچھ مثبت بچا ہی نہ ہو تو وہ ریما کی سینڈل کے ٹوٹ جانے اور قربانی کی گائے کے نالے میں گِر جانے ہی کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کرسکتے ہیں! اور جو ایسا نہیں کرتا وہ ریٹنگ کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے! جب تک قوم میں کوئی ڈھنگ پیدا نہیں ہو جاتا تب تک اِسی قسم کی ہارٹ بریکنگ نیوز جھیلتے رہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved