اسلام آباد پردیسیوں کا شہر ہے۔ کسی بھی تہوار پر جب چار سے پانچ چھٹیاں ایک ساتھ آجائیں‘ تو یہ ایک دم خالی ہو جاتا ہے۔ ایسا اب سے نہیں ہو رہا‘ شاید جب سے یہ شہر آباد ہوا ہے تب سے یہ رِیت جاری و ساری ہے۔ ہر خوشی وغمی کے موقع پر پردیسی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ بالخصوص عیدین کے موقع پر پردیسیوں کے اپنے آبائی علاقوں کو لوٹ جانے کے بعد اپنے خالی پن کی وجہ سے یہ شہر ویرانے کا سا سماں پیش کرتا ہے۔ جب میں سکول میں تھی تو عیدین کے موقع پر میری کلاس کے زیادہ تر بچے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے تھے‘ مجھے تب اچھا محسوس نہیں ہوتا تھا‘ عید پر میں اپنے دوستوں کے بنا بوریت محسوس کرتی تھی‘ لیکن وہ اپنے والدین کے ساتھ اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے کیونکہ عید تو بزرگوں کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ جب تک میرے دادا اور دادی حیات تھے تب تک میرے والدین بھی عید اُن کے پاس کراچی میں منایا کرتے تھے لیکن ان کی وفات کے بعد سے میرے والدین بھی اسلام آباد ہی میں عید کرنے لگے۔
مجھے یاد ہے کہ ہماری گلی میں کوئی دس گھر تھے اور قریب ہی ایک پارک تھا۔ عید پر چھ گھروں پر تالے لگے ہوتے تھے۔ اُس وقت امن و امان کی صورتحال بھی بہت اچھی تھی لہٰذا لوگ بے فکر ہو کر‘ آرام سے اپنے گھر بند کرکے چلے جاتے تھے۔ کبھی قتل‘ چوری‘ ڈکیتی یا راہزنی کے واقعات بارے سنا بھی نہیں تھا۔ پھر شہر کی آبادی بڑھتی چلی گئی۔ شہر درختوں کے بجائے کنکریٹ کا جنگل لگنے لگا۔ وہ پرندے اور تتلیاں اب کم ہی نظر آتے ہیں جو ہمارے بچپن میں عام دکھائی دیتے تھے۔ وہ سکون اب ٹریفک کے شور تلے کہیں دب گیا ہے۔ عید کی آمد پر بازاروں میں رش لگ جاتا ہے کہ جلدی خریداری کرلی جائے تاکہ عید اپنے آبائی علاقوں میں کی جاسکے۔ آخری عشرے میں بہت سے لوگ‘ جن کے پاس اپنی سواری ہوتی ہے‘ وہ موٹروے کے ذریعے اپنے آبائی علاقوں کو چلے جاتے ہیں اور جن کے پاس ذاتی سواری نہیں ہوتی وہ لاری اڈوں کا رُخ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس موقع پر ان سے من چاہے کرایے وصول کیے جاتے ہیں‘ ان کی بھی مجبوری ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے پیاروں میں عید کرنی ہوتی ہے اس لیے وہ بھی کچھ کہہ نہیں پاتے۔ عید سے قبل مہندی اور چوڑیوں کے سٹالز پر خوب رش ہوتا ہے۔ کبھی میں بھی خوب شوق سے ان سٹالز پر جایا کرتی تھی لیکن اب نہیں! اب ان چیزوں کا دل نہیں کرتا۔ میرے نزدیک یہ چیزیں سہاگ کی علامت ہیں‘ جب سہاگ ہی نہیں رہا تو ان لوازمات کا کیا کرنا ہے۔
اس بار عید پر بہت خاموشی اور تنہائی تھی۔ اس بار ارشد کی بہت زیادہ یاد آئی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے‘ یہ زخم اور گہرے ہو جاتے ہیں۔ قبرستان گئی تو ارشد شریف کی قبر پر شہریوں کا بہت رش تھا‘ کوئی اس کی قبر پر گل پاشی کر رہا تھا تو کوئی دعائے مغفرت کر رہا تھا۔ میں کافی دیر پیچھے کھڑی انتظار کرتی رہی کہ رش کم ہو تو اپنے دل کی باتیں ارشد سے کر سکوں۔ پھر میں نے اس کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور بوجھل قدموں کے ساتھ گھر واپس آ گئی۔ ہر طرف خاموشی اور ویرانی تھی۔ میرے دل میں بھی اور گھر میں بھی۔ شہر کی سڑکوں پر بھی عجیب سا سکوت تھا۔ گھر پر احباب دعا کے لیے آتے رہے۔ رشتہ داروں کے چھوٹے بچوں کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لیے گھر میں زندگی کی رونق لوٹ آئی۔
اب بھی وہی بچپن والی صورتحال ہے۔ اب بھی عید پر میری بہت ساری سہیلیاں اسلام آباد میں نہیں ہوتی ہیں۔ وہ مجھے کہتی ہیں کہ تم ہر بار عید پر اسلام آباد ہوتی ہو‘ تمہیں چاہیے کہ عید پر ہمارے ساتھ دوسرے صوبوں کی ثقافت بھی دیکھو۔ میں صرف ضرورت کے تحت سفر کرتی ہوں‘ ورنہ مجھے گھر کی چار دیواری میں ہی سکون ملتا ہے۔ گھومنے پھرنے کے لیے خوشی کے احساسات چاہیے ہوتے ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں یہ سب محسوس کرنا بھول چکی ہوں۔
اسلام آباد میں سرکاری ملازمین بھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ عید کے موقع پر چار سے پانچ چھٹیاں ایک ساتھ ملنا ان کی عید کی خوشیوں کو دوبالا کر دیتا ہے۔ ملازمین کی بڑی تعداد اسلام آباد سے عارضی رخصت لے کر اپنے آبائی گھروں کو لوٹ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تہواروں پر یہ شہر بہت خاموش ہو جاتا ہے۔ ان دِنوں باہر نکلو تو شہر نوے کی دہائی والے اسلام آباد کی منظر کشی کر رہا ہوتا ہے۔ موٹر گاڑیوں کے شور سے پاک‘ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اور پرندوں کی آواز سن کر انسان ماضی کی یادوں میں کھو جاتا ہے۔ اب تو صورتحال قدرے بہتر ہے۔ اب یہ شہر پھر شہر لگتا ہے‘ آبادی خاصی بڑھ گئی ہے‘ رات گئے تک بازار کھلے ہوتے ہیں۔ بہت سے ریستوران بن گئے ہیں‘ پارکس بھی ہیں۔ پہلے تو اسلام آباد میں صرف گنتی کی چار مارکیٹس ہوتی تھیں۔ اب تو یہاں بلند و بالا مالز بن گئے ہیں۔ مزید کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر جاری ہے۔ یہ تعمیرات مجھے ہمیشہ خوف میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ اسلام آباد میں تقریباً ہر ماہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جاتے ہیں‘ یہ نئی تعمیرات کیا ان زلزلوں کو برداشت کرنے کی سکت رکھتی ہیں‘ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
اب تو پھر بھی اسلام آباد کی ایک نائٹ لائف ہے‘ ایک اپنا کلچر ہے‘ پہلے تو پردیسی اس کو مکمل ویران کر جاتے تھے۔ مجھے اب بھی یہ شہر مصنوعی سا لگتا ہے جو بات پشاور‘ لاہور‘ کراچی اور کوئٹہ میں ہے وہ یہاں نہیں ہے۔ پھر بھی یہ میرا شہر ہے اور مجھے بہت پسند ہے لیکن اب مجھے یہاں بے چینی محسوس ہوتی ہے۔ جو کچھ ارشد کے ساتھ ہوا اس نے مجھے توڑ کر رکھ دیا ہے۔ جن جگہوں سے ہم پھول لیتے تھے‘ جس پارلر سے آئس کریم کھاتے تھے‘ جس پارکس میں ہم واک کرتے تھے‘ جہاں ہم نے مل کر فوٹوگرافی کی تھی‘ میں ہر اُس جگہ پر جانے سے کتراتی ہوں۔ یادیں آپ کو مزید افسردہ کر دیتی ہیں۔ ہم نے ان جگہوں پر ہاتھ پکڑ کر زندگی کا سفر ساتھ شروع کیا تھا‘ اب میں اس سفر میں تنہا رہ گئی ہوں۔ شہر کی ہر چیز اُسی طرح موجود ہے‘ بس وہ نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب ہی پردیسی ہیں اور اپنے اپنے وقت پر یہاں سے کوچ کر جائیں گے‘ لیکن ناانصافی کے ساتھ زندہ رہنے کا دکھ ناقابلِ بیان ہے۔
اسلام آباد شہرِ اقتدار ہے‘ یہاں شاہراہِ دستور کے مکین بھی عارضی طور پر ہی آتے ہیں لیکن جتنا عرصہ وہ یہاں رہتے ہیں‘ تفاخر کا شکار رہتے ہیں۔ ان کو عوام کے مسائل نظر نہیں آتے۔ میں گزشتہ برس جون سے ارشد شریف کے کیس کی سپریم کورٹ میں شنوائی کا انتظار کر رہی ہوں لیکن وہ تاریخ ہی نہیں آ رہی۔ کیا اس کیس میں بھی بھٹو کیس کی طرح 40سال بعد انصاف ملے گا؟ ایسے انصاف کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ گزشتہ حکمرانوں نے ہماری کوئی مدد نہیں کی۔ میں نے اُن سے مدد مانگی بھی نہیں اور نہ ہی موجودہ حکمرانوں سے کوئی امید رکھتی ہوں۔ سب پردیسی اس بات کو سمجھ لیں کہ شہرِ اقتدار میں ان کا پڑاؤ عارضی ہے۔ کرسی اور طاقت مستقل طور پر کسی کی بھی نہیں ہوتی۔ انصاف یہاں نہ ملا تو اللہ کے ہاں تو ضرور مل جائے گا۔ غریبوں‘ ظلم کے شکار اور انصاف کے منتظر لوگوں کی کوئی عید نہیں ہوتی‘ ہاں جو لوگ عید منا رہے ہیں انہیں میری طرف سے مبارک باد۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved