ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے خلاف قتل کے مقدمے پر سلسلۂ مضامین جاری تھا کہ برادرم عطا الحق قاسمی کے خلاف سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب ثاقب نثار اور ان کے رفقا کے داغے ہوئے حکم پر نظرثانی کی درخواست کا فیصلہ آ گیا۔ بھٹو مقدمے کو مؤخر کر کے قاسمی مقدمے پر توجہ کرنا پڑی کہ یہ بھی ایک ایسا معاملہ ہے جسے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو ہمارے عدالتی نظام کی قلعی کھل جائے؎
بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
نظرثانی کی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے تین رکنی فل بنچ کا فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے جبکہ اُن کے رفقا جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے ان سے اتفاق کیا ہے۔ اس مقدمے میں چار ''ملزمان‘‘ تھے‘ سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید‘ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار‘ سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد اور پی ٹی وی کے سابق چیئرمین/ منیجنگ ڈائریکٹر عطا الحق قاسمی۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے زیر قیادت جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن کے فل بنچ نے 2018ء کے حکم نامے میں قرار دیا تھا کہ جناب قاسمی نے پی ٹی وی کے چیئرمین/ منیجنگ ڈائریکٹرکے طور پر دورانِ ملازمت 27کروڑ روپے غیرقانونی طور پر وصول کیے ہیں۔ یہ رقم وزیر اطلاعات‘ وزیر خزانہ اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی ملی بھگت سے ''ہڑپ‘‘ کی گئی۔ اس لیے اس کا50فیصد قاسمی صاحب سے‘ 20فیصد پرویز رشید سے‘ 20فیصد اسحاق ڈار سے اور 10فیصد سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد سے وصول کیا جائے۔ فیصلے سے متاثرہ چاروں افراد نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کیں جنہیں منظور کرتے ہوئے چھ برس پہلے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا۔ قاسمی صاحب کے وکیل اکرم شیخ تھے‘ اُن کے دلائل کا ذکر کرتے ہوئے جناب چیف جسٹس نے تحریر کیا ہے: فاضل سینئر وکیل مسٹر محمد اکرم شیخ نے مسٹر قاسمی کی وکالت کرتے ہوئے عرض کیا کہ اس عدالت نے اصل دائرہ کار کے حوالے سے غلطی کی ہے کیونکہ جس معاملے کا نوٹس لیا گیا (مسٹر قاسمی کی تقرری اور ادا کی گئی رقوم) وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل (3)184 کے جائزے میں نہیں آتا جو کہ عوامی اہمیت اور بنیادی انسانی حقوق کے متعلق ہے۔ جہاں تک پی ٹی وی کو ہونے والے مبینہ نقصان کا تعلق ہے تو اُن کا کہنا ہے کہ مسٹر قاسمی کو اس مدت کے لیے ادا کی گئی کل رقم جو انہوں نے خدمات کے عوض موصول کی‘ یعنی 23دسمبر 2015ء سے 18دسمبر 2017ء تک (جب انہوں نے استعفیٰ دیا) وہ رقم صرف تین کروڑ 58لاکھ چھ ہزار 452روپے (35,806,452) تھی اور جو رقم پی ٹی وی کو ہونے والے نقصان کے طور پر دکھائی گئی ہے‘ وہ ایک تصوراتی رقم ہے جو پی ٹی وی پر مسٹر قاسمی کے پروگرام کے نشر ہونے والے وقت کی کمرشل ویلیو کو شامل کرکے فرض کی گئی ہے‘ اس کی کبھی مسٹر قاسمی کو ادائیگی نہیں کی گئی تھی۔
مسٹر فواد حسن فواد (ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے) نے فاضل وکیل کی گزارشات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر محمد مالک‘ جو پی ٹی وی کے سابق ایم ڈی تھے‘ کو 13لاکھ 80ہزار روپے (1,380,000) ماہانہ تنخواہ دی جا رہی تھی اور یہ کہ مسٹر قاسمی‘ جن کا تقرر چند سال بعد ہوا تھا‘ کو قدرے زیادہ تنخواہ دی گئی جو کہ 15لاکھ روپے (1,500,000)تھی اور اس معمولی سے اضافے‘ جو بمشکل 10فیصد سے کچھ زیادہ ہے‘ کو ترجیحی سلوک قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سماعت کی آخری تاریخ پر ہم نے پی ٹی وی کی نمائندگی کرنے والے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ پی ٹی وی کا مؤقف کیا ہے تو جواب میں پی ٹی وی نے سی ایم اے نمبر 2024/2220 دائر کیا جس میں کہا گیا کہ وہ غیرقانونی فیصلے کی حمایت نہیں کرتے اور یہ کہ نظرثانی درخواستوں کو منظور کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تصدیق کی کہ مسٹر قاسمی کو 15لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی اور یہ کہ انہیں کل 35,806,452 روپے ادا کیے گئے ہیں اور یہ کہ مسٹر قاسمی کی ادا کی گئی رقم کے ذریعے پی ٹی وی کو نقصان پہنچانے کا بیان درست نہیں تھا۔ ہم نے فاضل وکیل کو سنا ہے اور ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے۔ نظرثانی کا دائرہ محدود ہے تاہم جب قانون کی غلطی یا حقائق کی غلطی سامنے آئے‘ جس کے واضح نتائج ہوں تو اُس کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ مبینہ نقصان کا عددی تعین یکطرفہ طور پر کیا گیا جو کہ غلط تھا۔ مسٹر قاسمی کو اپنے پیش رو سے تھوڑی سی تنخواہ زیادہ دی گئی۔ اگر اس عرصے میں بڑھنے والی مہنگائی کو سامنے رکھا جائے تو اس کا جواز بنتا ہے اور یہ فرض کرنا ایک واضح غلطی تھی کہ مسٹر قاسمی کے پروگرام نے اس ایئر ٹائم میں ممکنہ حاصل ہونے والی رقم کا نقصان کیا۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے پروگرام نے تو پی ٹی وی کی کمائی میں حصہ ڈالا تھا۔ محض گمان کی بنیاد پر کسی کو سزا دینا مناسب نہیں ہو گا۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ مسٹر قاسمی کو 197,867,491 روپے کی رقم ادا کی گئی یا انہوں نے پی ٹی وی کو اتنا نقصان پہنچایا۔ اپنی مرضی سے یکطرفہ طور پر نقصان کی وصولی نہ تو قانونی طور پر جائز تھی اور نہ ہی حقیقتاً درست۔ مزید برآں اُس وقت کے وزیر اطلاعات‘ وزیر خزانہ اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو مطلوبہ نقصان کی نصف رقم کے حوالے سے ذمہ دار ٹھہرانے اور اس کی ادائیگی کرنے کا حکم دینے کی بھی کوئی قانونی بنیاد نہیں۔ اس کی کوئی عدالتی نظیر نہیں ملتی‘ لہٰذا ان نظرثانی کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے آٹھ نومبر 2018ء کے ایچ آر سی نمبر 3654‘ 2018ء کے فیصلے کو واپس لیا جاتا ہے‘‘۔
عدالتی فیصلے کے مندرجہ بالا اقتباسات کو اچھی طرح پڑھیے اور پھر سر دھنیے کہ سابق چیف جسٹس اور ان کے فاضل رفقا نے عطا الحق قاسمی صاحب کی طرف سے پیش کیے جانے والے ایک ٹی وی پروگرام کو نشانہ بنایا تھا۔ اگر وہ یہ پروگرام نہ کرتے تو اس دورانیے میں پی ٹی وی اشتہارات نشر کرکے کروڑوں روپے کما سکتا تھا‘ اس لیے اس تصوراتی نقصان کو ان کے ساتھ ساتھ ان کی تقرری کے ذمہ دار افراد سے رقوم وصول کرکے پورا کیا جائے۔ اگر یہ منطق تسلیم کر لی جائے تو پھر ہر ٹی وی اینکر سے اس کی انتظامیہ اپنے ''ایئر ٹائم‘‘ کی کمرشل ویلیو وصول کرنے کی مجاز ہو سکتی ہے۔ ہر کالم نگار سے اخبار یہی مطالبہ کر سکتا ہے کہ آپ کے کالم نے جو جگہ گھیری ہے‘ وہاں اشتہار چھاپ کر جو پیسے کمائے جا سکتے تھے‘ وہ آپ ادا کر دیجئے۔ مختلف ٹی وی چینلز جو اپنے اینکرز کو لاکھوں روپے ماہانہ ادا کر رہے ہیں اور اخبارات اپنے کالم نگاروں کو جو ادائیگیاں کر رہے ہیں‘ وہ سب ختم‘ اُلٹا ان سے وصولی کی جانی چاہیے۔ اگر قاضی فائز عیسیٰ کے زیر قیادت بنچ اس ''عظیم الشان‘‘ فیصلے کو کالعدم نہ قرار دیتا تو آج قاسمی صاحب اور ان کے شریک ملزمان کی جائیدادیں قرق کی جا رہی ہوتیں اور اس کے بعد تمام ٹی وی اینکرز سے ان کی انتظامیہ کو اپنے ایئر ٹائم کی کمرشل ویلیو وصول کرنے کا حق بھی مل جاتا۔ وہ جو کچھ چینلز سے وصول کر چکے ہیں‘ اس سے بھی کئی گنا واپس دینا پڑتا۔ انصاف کی ایسی فراہمی صرف پاکستان ہی میں ممکن ہو سکتی تھی۔ جناب قاضی فائز عیسیٰ نے قاسمی صاحب ہی کا نہیں‘ سینکڑوں افراد کا ''جوڈیشل مرڈر‘‘ نہیں ہونے دیا۔ اینکروں اور کالم نگاروں کو مل کر اُن کا نعرہ تو لگا ہی دینا چاہیے۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved