شک تو پہلے بھی نہیں تھا لیکن اب یقین ہو چلا ہے کہ یہ ملک بڑی تیزی سے امریکہ کا دو سو سال پرانا Wild Westبنتا جارہا ہے جہاں ہر طرح کا جرم ہوتا تھا اور کسی کو کوئی خوف نہیں تھا۔ جب ان سرحدی علاقوں میں کوئی قانون ہی نہیں تھا تو قانونی کی عملداری کیسے کرائی جاتی؟ جرائم پیشہ خود ہی قانون تھے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا شاید وہیں ایجاد ہوا اور survival of the fittest کے سنہری اصول نے بھی شاید وہیں جنم لیا تھا۔ جو طاقتور ہے وہ زندہ رہے گا‘ جو زندگی کی تلخ اور سنگین حقیقتوں کا سامنا کر کے بچ سکتا تھا وہی زندہ رہنے کا حقدار تھا۔ پھر وہاں گینگ بنے‘ بدمعاش اکٹھے ہوتے اور گائوں کے گائوں گن پوائنٹ پر لوٹ لیتے۔ شیرف کو پہلے گولی مارتے اور بینک لوٹ کر سرپٹ گھوڑوں پرفرار ہو جاتے۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان ویسٹرن گینگز کو ختم کرنے کیلئے بھی گینگسٹرز کی مدد لی گئی۔ انہیں پولیس کے میڈلز پہنا کر اختیارات دیے گئے کہ وہ اُن کو ختم کریں۔ اس طرح جرائم پیشہ لوگوں نے پولیس بیجز پہن کر دوسرے جرائم پیشہ لوگوں کا مقابلہ کیا اور اُن کے سر پر مختص رقم حکومت سے وصول کی۔
تو کیا اب ہمارا حال بھی وہی ہورہا ہے کہ اس دورِ جدید میں ہمارا نظام جواب دے گیا ہے؟ ہماری پولیس اور بیوروکریسی کا گولڈن دور گزر گیا‘ اب ایوریج سے بھی کم ذہانت اور قابلیت کے لوگوں نے اہم عہدوں پر قبضہ جما لیا ہے یا طاقتور لوگوں نے ایسے لوگوں کو پروموٹ کر کے بڑے بڑے عہدے دلوا دیے ہیں ۔ اب ان عہدوں کا رعب ‘ دبدبہ یا احترام بھی ختم ہوگیا ہے۔ ان عہدوں پر ایسے لوگ بٹھائے گئے کہ لوگوں نے جگتیں مار مار کر ان عہدوں کی مت مار دی۔ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ عوام کو بتایا جائے کہ اُن کے اندر کیسے کیسے جوکرز پائے جاتے ہیں۔ لوگ سیاست اور سیاستدانوں سے تنگ آگئے کہ اگر یہ ہمارے سیاستدان اور حکمران ہیں تو اللہ ہی حافظ ہے۔
ابھی دیکھ لیں کہ جو کچھ بہاولنگر میں دو اداروں کے درمیان ہوا اس پر آپ کو کہیں کوئی سیاسی حکمران نظر آیا ؟ آپ کو کہیں محسوس ہوا کہ اس ملک میں وزیراعظم‘ وزیرداخلہ ‘ وزیردفاع یا وزیراعلیٰ پنجاب بھی موجود ہیں ؟ کسی نے ان کو اس پورے بحران میں کہیں دیکھا؟ وہی بات کہ یہ فری فار آل تھا۔ دو اداروں کے سپاہی ایک دوسرے سے لڑ پڑے تھے اور جیسے باقی لوگ سوشل میڈیا پر مارکٹائی کی ویڈیوز دیکھ رہے تھے وہی کچھ ہمارے وزیراعظم‘ وزیراعلیٰ‘ وزیردفاع اور وزیرداخلہ بھی کررہے تھے۔ ان سب نے یہی سوچا کہ ہمارا اس جھگڑے سے کیا لینا دینا‘ ہم کیوں خود کو خراب کریں‘ برُے بنیں‘ ہمارے لیے دونوں اہم ہیں۔ ایک کے کندھوں پر سوار ہو کر ہم حکمران بنے ہیں اور دوسرے کے ڈنڈے سے ہم نے لوگوں کو خوفزدہ کر کے ان پر حکمرانی کرنی ہے۔اس معاملے میں کسی ایک فریق کی مدد کی تو دوسرا ناراض ہو جائے گا‘ لہٰذا بہتر وہی ہے جو ہمارے ہاں سرائیکی میں کہا جاتا ہے '' دڑ وٹ ونجو۔ مٹھ رکھ‘‘۔ مطلب ایسے ایکٹ کرو کہ تمہیں کچھ پتہ ہی نہیں کہ کیا چل رہا ہے۔ خاموش رہو اور گونگے بہرے بن جائو۔ یہی کام ہمارے حکمرانوں نے کیا ہے کہ اس ایشو میں وہ بھی عوام کی طرح تماشائی بن گئے۔ ہمارے اسلام آباد اور پنجاب کے حکمران خود کو معصوم ثابت کر چکے ہیں کہ ہمیں پتہ چلا تو ہم نے سوچا چلیں خود بخود ہی مسئلہ حل ہو جائے گا۔
دوسری طرف ہماری بیوروکریسی کی یہ پرانی عادت ہے کہ ایسے مواقع پر وہ خود غائب ہو جاتی ہے۔ جان بوجھ کر غصے میں بپھرے عوام کو اپنا غصہ نکالنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے کہ وہ چند دن کھل کر کھیل لیں۔ اپنا سارا غصہ نکال کر خود ہی ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ ایک آدھ دن جلاؤ گھیراؤ کرنے دیں‘ گاڑیاں ہوں یا عمارتیں جلانے دیں۔ مجھے یاد ہے مشرف دور میں ایم این اے مولانا اعظم طارق کا اسلام آباد میں گولڑہ کے قریب قتل ہوا تو پورے اسلام آباد کو مدارس کے طلبانے جلا دیا۔ پولیس کہیں نظر نہ آئی۔ پوری پوری مارکیٹیں جلائی گئیں لیکن پولیس غائب۔ شام تک سب کچھ جلا کر وہ ٹھنڈے ہو کر گھروں کو لوٹ گئے۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ پچیس مئی کو جو لوگ خیبرپختونخواسے پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کے ساتھ آئے تھے انہوں نے بھی ڈی چوک سے فیصل چوک تک آگ لگادی‘ کہیں کوئی قانون یا عدلیہ نظر نہ آئی۔ شرپسند بڑے آرام سے جلاتے رہے۔ اس طرح نو مئی کو بھی ہوا جب آپ کو کہیں کوئی پولیس نظر نہ آئی اور بڑے آرام سے سب کچھ جلایا گیا۔ حملے ہوتے رہے اور پورا ملک تماشا بنا رہا۔یہی کچھ بہاولنگر میں ہوا کہ سارا دن تماشا چلتا رہا۔ سوشل میڈیا پر ویڈیوز اَپ لوڈ ہوتی رہیں لیکن مجال ہے آپ کو کہیں ملک کا وزیرداخلہ یا پنجاب ہوم آفس یا آئی جی پنجاب نظر آئے ہوں۔ وہی اپروچ کہ چلیں شام تک ایک دوسرے کا پھینٹا لگا کر اپنا کتھراسس کر کے لوٹ جائیں گے۔
اب اس ملک میں حکمرانوں سے لے کر بیوروکریسی تک کسی کو پاکستان کے امیج کی پروا نہیں۔ ہر روز اس ملک میں سرمایہ کاری لانے کی بڑھکیں ماری جاتی ہیں‘ اب بتائیں کون اس ملک میں ایک ڈالر بھی لگائے گا جہاں قانون کے رکھوالے ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جائیں اور حکمران اس معاملے میں نیوٹرل ہو جائیں۔ یہاں کون آئے گا؟ میرے لیے بڑا صدمہ حکمرانوں کا بہاولنگر ایشو پر تین روز تک نیوٹرل رہنا ہے۔ اس پر میں نے ایک ٹویٹ بھی کیا کہ اس واقعے پر وزیراعظم شہباز شریف ‘ وزیرداخلہ محسن نقوی‘ وزیردفاع خواجہ آصف اوروزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا نیوٹرل اور خاموش رہنا اس واقعے سے بھی بڑی ٹریجڈی ہے۔ ان سب نے ایسے ایکٹ کیا کہ ہمارا اس مسئلے سے کیا لینا دینا۔ دونوں ادارے خود آپس میں طے کر لیں‘ ہم کیوں برُے بنیں‘ ہم کیوں ان اداروں سے تعلقات بگاڑیں۔ دو تین دن ہنگامہ رہے گا پھر سب خاموش ہو جائیں گے۔ کوئی نیا ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔
وہ بھول گئے کہ حکمران کو ایسے مواقع پر برُا بننا پڑتا ہے‘ سامنے آنا پڑتا ہے۔ حکمرانی ایک بڑی ذمہ داری ہے‘ صرف عیاشی یا پروٹوکول کا نام حکمرانی نہیں۔ حکمرانی قیمت مانگتی ہے‘ لہو مانگتی ہے‘ سخت فیصلے مانگتی ہے نیوٹریلٹی نہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے آپ سب حکمران اس امتحان میں برُی طرح ناکام ہوئے ہیں۔ فری فار آل کا ماحول بنا دیا گیا ہے۔ سب کچھ آٹو پائلٹ پر لگا دیا گیا ہے۔ اس اپروچ کے معاشرے پر خطرناک اثرات ہوں گے۔ کسر تو خیر پہلے بھی کوئی نہیں رہ گئی لیکن اب کی دفعہ زیادہ سنگینی بڑھے گی۔ لاقانونیت بڑھے گی اور ہمارے بے پروا حکمرانوں کی حفاظت کیلئے مزید دستے درکار ہوں گے۔
کل ملتان سے ایک دوست کی فیملی اور بچے اسلام آباد آئے ہوئے تھے اور سینٹورس مال اسلام آباد کے اندرنوجوانوں کی حیران کن بدتمیزی اور ہلڑ بازی کی جو باتیں انہوں نے سنائیں تو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ واقعی کسی جدید شہر کی باتیں سن رہے ہیں۔کم از کم اسلام آباد تو ایسا نہ تھا۔ جس نوجوان بدتمیز ہجوم کا سلوک انہوں نے بتایا یقین نہیں آتا کہ ہماری نوجوان نسل کا یہ حشر ہوگیا ہے۔کہنے لگے‘ اسلام آباد کے اس مال جانے سے تو بہتر تھا ہم کسی گائوں چلے جاتے جہاں کچھ احترام ابھی موجود ہے۔ شہروں میں تو لگتا ہے بھوکے بھیڑیے اور کتے کھلے چھوڑ دیے گئے ہیں جو شکار ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ کسی خاندان کو عورتوں‘ لڑکیوں کے ساتھ دیکھیں تو اس پر پل پڑیں۔ اب تو کہیں کوئی قانون نظر نہیں آتا۔ لگتا ہے پورا ملک بڑی تیزی سےwild westبنتا جارہا ہے۔ پاگل ہوگئے ہیں سب کیا؟ ریاستیں یوں ہی آہستہ آہستہ بکھرنا شروع ہوتی ہیں۔ انسانی تاریخ میں بڑی بڑی ریاستیں لاقانونیت کے آگے نہ ٹھہر سکیں ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved