میں جب بھی کسی دکان پر‘ ورکشاپ پر‘ ہوٹل پر یا کسی چوراہے پر کسی بچے کو کام کرتے ہوئے دیکھتا ہوں یا کسی بچے کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھتا ہوں تو چشم تصور میں یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہاں کوئی اور بچہ نہیں بلکہ میں خود مزدوری کر رہاہوں ۔ جب کبھی یہ سنتا یا پڑھتا ہوں کہ کسی گھر میں کام یعنی مزدوری کرنے والے بچے پر تشدد کیا گیا ہے تو وہ تشدد مجھے اپنے جسم پر محسوس ہوتا ہے۔ اور جب یہ سب کچھ محسوس ہوتا ہے تو کسی کا کہا ہوا یہ فقرہ بے طرح ذہن میں گونجنے لگتا ہے 'یہ جو مزدوری کرنے والے بچے ہوتے ہیں یہ چھوٹے نہیں دراصل اپنے خاندانوں‘ اپنی فیملیوں کے بڑے ہوتے ہیں‘۔ بچوں کا ذکر اس لیے چھڑ گیا کہ آج جب میں یہ سطور ضبطِ تحریر میں لا رہا ہوں تو دنیا ''سٹریٹ چلڈرن‘‘ کا عالمی دن منا رہی ہے اور جب یہ دن منایا جا رہا ہے اس روز بھی دنیا بھر میں 15کروڑ بچے بے گھر‘ خانماں خراب ہیں۔ ان کا کوئی والی وارث نہیں‘ کوئی پرسانِ حال نہیں‘ ان کا کوئی حال نہیں‘ کوئی مستقبل نہیں۔ ان کے پاس نہ کھانا ہے‘ نہ کھلونے ہیں اور نہ ہی کتابیں۔ وہ اسی طرح پل بڑھ رہے ہیں جیسے کوئی جانور‘ شاید اس سے بھی زیادہ بد حالی میں۔ ان سے زیادہ تو پالتو جانوروں کا خیال رکھا جاتا ہو گا۔ ان کے نہ کوئی حقوق ہیں‘ اور نہ ہی فرائض۔ سڑکوں‘ گلیوں‘ محلوں میں کام کرنے والے بچوں کی حالتِ زار سب پر عیاں ہے۔ انہیں زندگی میں کن مشکلات‘ دشواریوں‘ سماجی اونچ نیچ اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا ہم صرف تصور ہی کر سکتے ہیں‘ پوری طرح محسوس نہیں کر سکتے۔ انڈین فلم مشال کے ایک گانے کے بول یاد آتے ہیں جو مجھے تو سٹریٹ چلڈرن کے بارے میں ہی محسوس ہوتا ہے:
فٹ پاتھوں کے ہم رہنے والے راتوں نے پالا ہم وہ اجالے
آکاش سر پہ پیروں تلے ہے دور تک یہ زمین اور تو اپنا کوئی نہیں
سوچتا ہوں ان بچوں کو کس نے بے گھر کیا؟ کس نے آوارہ بنایا؟ کس نے جرائم سکھائے؟ کس نے کارآمد اور فرض شناس شہری کے بجائے انہیں زمین کا بوجھ بنا ڈالا؟ ظاہر ہے ہم نے‘ اس معاشرے نے‘ ریاستوں نے‘ حکومتوں نے‘ حکمرانوں نے‘
اور سب سے بڑھ کر عالمی سماج نے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر جاری تنازعات کی وجہ سے تقریباً 28 ملین بچے بے گھر ہیں اور اقوام متحدہ کےThe United Nations Convention on the Rights of the Child (UNCRC) کے مطابق دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی نصف آبادی کے ذمہ دار یہ تنازعات ہی ہیں۔ ذرا یہ دیکھیے کہ اسرائیل کو غزہ پر حملہ آور ہوئے چھ ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اس دوران ہونے والی فلسطینی شہریوں کی شہادتوں کی تعداد 34 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے ‘ ان میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ یہ اعداد و شمار نامکمل ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ شہادتوں اور ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جو تباہی و بربادی ہوئی ہے وہ اس پر مستزاد۔ چھ لاکھ بچے رفح میں بنا لیے ہوئے ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں 17ہزار بچے یتیم ہو چکے گئے۔ بات کہیں اور نکل جائے گی‘ لیکن سوچنے کی ضرورت ہے کہ کویت کو عراق سے بچانے کے لیے تو فوری ایکشن ہوا۔ نائن الیون کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر افغانستان پر بھی حملہ ہو گیا۔ تباہ کن ہتھیاروں کا جھوٹا بہانہ بنا کر عراق کو تاخت و تاراج کر دیا گیا۔ سوڈان کا مسئلہ حل ہو گیا‘ اور مشرقی تیمور کا معاملہ بھی تھوڑے ہی عرصے میں حل کر لیا گیا‘ لیکن اسرائیل چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے انسانی آبادیوں پر گولہ باری کر رہا ہے‘ انسانی آبادیوں میں تباہی و بربادی کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے ورکرز بھی اس کی گولہ باری اور اس کے میزائلوں کے حملے میں مارے جا رہے ہیں‘ لیکن نہ تو اسرائیل پر کسی قسم کی کوئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور نہ ہی یہ جنگ روکنے کے لیے کوئی سرگرم سفارت کاری نظر آتی ہے۔ بیان بازی ہے کہ جنگ رکنی چاہیے‘ جنگ بندی ہونی چاہیے اور بس۔ فی الوقت موضوع یہ نہیں‘ موضوع یہ ہے کہ یہ 17ہزار یتیم بچے کہاں جائیں گے؟ کیا کریں گے؟ کیسے بڑے ہوں گے؟ اور بڑے ہوں گے تو معاشرے کے کیسے شہری بنیں گے؟
ایک اور جنگ کا معاملہ لیتے ہیں۔ افغانستان نے 1978ء سے لے کر 2022ء تک دو طویل ترین جنگوں کا سامنا کیا۔ 2022ء کے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کی کل آبادی 40.7 ملین ہے اور ان میں سے 48 فیصد 17 سال تک کی عمر کے بچے اور نوجوان ہیں‘ جبکہ 16 لاکھ بچے یتیمی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی بچے سٹریٹ چلڈرن ہیں اور یہ عالمی سماج کے پیدا کردہ ہیں۔ ان پر جو حالات مسلط کیے گئے ہیں وہ ان کے اپنے پیدا کردہ نہیں ہیں ‘وہ عالمی برادری کے پیدا کردہ ہیں‘ جو مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہے جس کے نتیجے میں جنگیں ہوتی ہیں۔ جنگوں کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ ہلاکیوں کے نتیجے میں بچے بھی مرتے ہیں اور ان کے والدین بھی۔ مر جائیں تو الگ بات ہے‘ لیکن جب صرف والدین مر جائیں تو پھر زندہ بچ جانے والے بچے بھی تقریباً مر ہی جاتے ہیں۔ کیا یہ اندازہ کبھی کسی نے لگایا کہ اس وقت جتنی بڑی تعداد میں سٹریٹ چلڈرن دنیا بھر میں موجود ہیں‘ وہ معاشی مسائل کا نتیجہ ہیں یا جنگوں کی پیداوار؟
ہم لوگ ہر سال سٹریٹ چلڈرن کا دن مناتے ہیں لیکن کبھی کسی نے ان عوامل پر قابو پانے کی کوئی عملی کوشش کی ہے جن کے نتیجے میں چلڈرن‘ سٹریٹ چلڈرن بن جاتے ہیں؟ بد قسمتی سے افغانستان میں کئی دہائیوں کی جنگ اور عدم تحفظ نے لاکھوں افغانوں کو ملک کے اندر اور باہر بے گھر کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں‘ کھنڈرات‘ غربت اور بے روزگاری کے علاوہ تقریباً 1.6ملین یتیم بچے سنگین معاشی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ افغانستان کی نصف سے زائد آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ جنگ‘ خراب معیشت اور نقل مکانی نے یتیموں کو تشدد اور بد سلوکی کی انتہائی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ جیسے جیسے تنازعات بڑھیں گے اور جنگیں جاری رہیں گی‘ ہم بچوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ دیکھیں گے۔
پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں 25 لاکھ سے زائد سٹریٹ چلڈرن کو تاریک مستقبل کا سامنا ہے۔ تقریباً 56 فیصد بچے گھریلو تشدد سے گھروں سے بھاگتے ہیں۔ 22 فیصد بچے سکول یا دیگر تعلیمی سہولیات سے محروم ہیں اور ان میں سے 22 فیصد بچے اپنے خاندانوں کی کفالت کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہمیں ان بچوں کی کفالت کی ذمہ داری تو اٹھانی ہی چاہیے تاکہ وہ ملک کے فرض شناس شہری اور معاشرے کا کارآمد حصہ بن سکیں‘ اس کے ساتھ ساتھ ان عوامل کو روکنے اور ان کی شدت کم کرنے کے لیے بھی کام کرنا چاہیے جو چلڈرن کو سٹریٹ چلڈرن بنانے کا باعث بن رہے ہیں‘ چاہے وہ بین الاقوامی تنازعات اور جنگیں ہوں یا معاشی عدم مساوات۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved