پاکستان اور افغانستان جنوبی ایشیا کی دو بڑی ریاستیں ہیں جو ثقافتی‘ سماجی‘ مذہبی و تاریخی رشتے میں بندھی ہیں اور 2611کلو میٹر کے طویل بارڈر سے ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ وطنِ عزیز کو اہم جیو پولیٹکل پوزیشن اور پاک افغان سرحد سے انسانی سمگلنگ اور دہشت گردوں کی آمد اور نان سٹیٹ ایکٹرز کی سرگرمیوں میں مسلسل اضافے سے سکیورٹی سمیت دیگر خطرناک چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاک افغان سرحد ایک بین الاقوامی سرحد ہے اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے اصول ''Uti possidetis juris‘‘ کے مطابق افغانستان یک طرفہ طور پر اس سرحد میں رد و بدل نہیں کر سکتا۔' ڈیورنڈ لائن معاہدہ‘ پاکستان کو قانونی حق دیتا ہے کہ وہ غیرقانونی نقل و حرکت کو کنٹرول کرے اور اپنے عوام کی سکیورٹی کو یقینی بنائے۔ محفوظ باڑ ایکٹ 2006ء کے مطابق پاکستان اپنی مغربی سرحد پر باڑ لگانے اور غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا پورا حق رکھتا ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر حکومتِ پاکستان نے پاک افغان سرحد کی مؤثر نگرانی کیلئے کئی اقدامات کیے ہیں تاکہ دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کا خاتمہ ہو سکے لیکن دوسری طرف افغان حکومت کے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پاکستان کے سلامتی‘ معاشی اور دیگر بحرانوں نے افغانستان میں پناہ گزین دہشتگردوں کے حوصلے بڑھا دیے ہیں اور وہ بھارت کیساتھ مل کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی مذموم مہم میں سر گرم عمل ہیں۔ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی گٹھ جوڑ نے پاک افغان تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی میں 60فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اشرف غنی اور حامد کرزئی کے دور میں افغان سر زمین پاکستان کیخلاف استعمال ہوئی لیکن یہ توقع تھی کہ طالبان حکومت میں سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا مگر طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کے ہزاروں دہشت گرد مولوی فقیر محمد سمیت رہا کر دیے جنہوں نے بعد ازاں امریکی ہتھیاروں کو پاکستان کے خلاف آزادانہ طور پر استعمال کیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان فطری اتحادی ہیں‘ ان کے درمیان نظریاتی رشتہ ہے۔
اگست 2021ء میں کابل میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کالعدم ٹی ٹی پی زیادہ فعال ہے‘ حالانکہ ماضی میں ہونیوالے ملٹری آپریشنز میں پاکستان کے 96فیصد شمالی علاقہ جات دہشتگردوں سے کلیئر کروا لیے گئے تھے اور باقی بچ جانے والے دہشتگرد افغانستان بھاگ گئے تھے۔ کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں طالبان حکومت کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ دیگر دہشتگرد تنظیموں کی نسبت افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے روابط زیادہ گہرے ہیں۔ افغان حکومت کو سفارتی‘ سیاسی‘ فوجی‘ رسمی اور غیر رسمی ذرائع سے افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی کا قلع قمع کرنے کا واضح پیغام دیا جاتا رہا ہے کہ افغان طالبان حکومت دوحہ معاہدے پر عملدرآمد کرے اور افغان سر زمین کسی کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کو یقینی بنائے‘ تاہم افغان طالبان حکومت اسکی تردید کرتی رہی ‘لیکن اب سکیورٹی کونسل کی حالیہ رپورٹ نے ٹی ٹی پی اور افغان طالبان تعلقات کو عیاں کرتے ہوئے پاکستان کے مؤقف کی تائید کر دی ہے۔ اس کے باوجود افغان حکومت کا یہ مطالبہ کہ پاکستان دہشتگردوں کیخلاف آپریشن بند کرے‘ مضحکہ خیز ہے۔
نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی چڑھائی کے خلاف طالبان کے ساتھ دیگر جہادی گروپوں کی مزاحمت بھی جاری رہی اور 2007ء میں ٹی ٹی پی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسکے مرکزی لیڈر بیت اللہ محسود‘ حکیم اللہ محسود اور ملا فضل اللہ تھے جنہوں نے افغان طالبان کی امریکہ کے خلاف مدد کی۔ ٹی ٹی پی لیڈرشپ کے مطابق ان کی سر گرمیاں افغان طالبان کی تحریک کا حصہ ہیں جو پاکستان تک بڑھا دی گئی ہیں۔ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کو پاکستان میں محفوظ راہداری فراہم کی۔ ٹی ٹی پی میں بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب اس نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنی رِٹ کا اعلان کیا اور ٹی ٹی پی لیڈر نور ولی محسود نے وہاں طالبان کی طرز کی کارروائیاں شروع کیں۔ افغان طالبان حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کو اسکی وفاداری کے صلے میں افغانستان سے نہیں نکالا بلکہ ان کے سہولت کار بن گئے۔ داعش کی ایک ذیلی دہشت گرد تنظیم(ISKP) Islamic State Khorasan Province نے بھی افغانستان اور اس سے ملحقہ علاقوں میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی ہیں۔ اس کے دہشت گردوں کی بڑی تعداد ٹی ٹی پی میں بھی ہے اور افغان طالبان میں بھی۔ اس کے برعکس ٹی ٹی پی اور ISKPنے خلافت کے لیے جدوجہد جاری رکھی اور افغان طالبان کی امارتِ اسلامیہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے خلاف سخت ایکشن لیا گیا۔ اس کے باوجود افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا۔
افغان سر زمین دہشت گردوں کیلئے جنت بن چکی ہے۔ ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گرد تنظیمیں بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی ہیں۔ انکے حملوں میں 2023ء میں 79 فیصد اضافہ ہوا جو رواں برس بھی شدت سے جاری ہیں۔ پاک افغان طورخم و چمن بارڈر پر متعدد جھڑپوں اور تصادم کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ طالبان حکومت کے مخاصمانہ رویے کی وجہ سے پاکستان افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ اس وقت تک لاکھوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔ سوویت وار افغانستان میں جیو سٹریٹجک تبدیلیوں کا باعث بنی۔ دہشتگردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ نے افغانستان کو غیرمستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاک افغان تعلقات کی Regional Security Complex Theory کے ذریعے بھی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ علاقائی سکیورٹی کمپلیکس تھیوری کا سکیورٹی کا تصور نہ صرف مادی صلاحیتوں پر مبنی ہے بلکہ اس میں شامل سٹیٹ ایکٹرز کے خیالات اور اقدامات پر بھی مبنی ہے جبکہ افغانستان اور پاکستان علاقائی سکیورٹی کمپلیکس تھیوری کی واضح مثالیں ہیں۔ نسلی یا مذہبی جذبات‘ ثقافتی‘ سماجی اور اندرونی مداخلت جیسے عوامل ریاستوں کے درمیان دوستی یا دشمنی کا باعث بنتے ہیں جو بالآخر علاقائی سکیورٹی کمپلیکس کو بیان کرتے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد کے منظر نامے میں متعدد بیرونی طاقتیں جنوبی ایشیا کے علاقائی سکیورٹی کمپلیکس میں داخل ہونے سے خطے کی سلامتی مسلسل خطرے میں ہے۔ دوسری جانب پاکستان کو تو قع تھی کہ افغانستان سے امریکی انخلا اور افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے سے خطے میں امن و سلامتی اور استحکام کے نئے دور کا آغاز ہو گا‘ لیکن اس کے برعکس پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں‘ دہشتگردی بالخصوص بلوچستان و خیبرپختونخوا میں دہشت گردانہ کارروائیوں سے امن عمل کو شدید دھچکا لگا۔ پاک افغان تعلقات شروع سے ہی مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ 1947ء میں پاکستان کے قیام کے بعد افغانستان نے نو زائیدہ مملکت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسکے برعکس افغانستان پر سوویت یونین وار میں نہ صرف پاکستان نے اسکا ساتھ دیا بلکہ جنگ کے نتیجے میں ہجرت کرنے والے لاکھوں افغان مہاجرین کا گرمجوشی سے استقبال کیا ‘ جس کا نتیجہ پاکستان کو انسانی سمگلنگ‘ منشیات‘ کلاشنکوف کلچر‘ دہشتگردی اور افغانستان کی احسان فراموشی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ افغانستان نے ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیا اور اور اپنی سر زمین کو پاکستان مخالف بھارتی کارروائیوں کیلئے استعمال ہونے دیا۔ کابل میں بھارتی قونصل خانے قائم کیے گئے جوبدنامِ زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے دہشت گردی کے تربیتی مراکز تھے۔ نریندر مودی نے افغان قیادت‘ فوج اور انٹیلی جنس کے ذہنوں کو ہمیشہ زہر آلود کیے رکھا اسی وجہ سے پاکستانی قیادت کی طرف سے خطے میں قیامِ امن اور تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں تاحال کارآمد نہیں ہو سکیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved