بنانا ری پبلک؟؟
نہیں! بنانا ری پبلک میں تو ری پبلک کا لفظ آتا ہے! یہ صرف بنانا ہے! آکسفورڈ لغت کی رُو سے ری پبلک وہ ریاست ہوتی ہے جس میں اختیار عوام کے پاس ہوتا ہے یا اُن کے منتخب نمائندوں کے پاس!! جس ریاست میں ہم رہ رہے ہیں وہاں عوام کے ساتھ وہی سلوک ہوتا ہے جو حکمرانوں نے مدینہ‘ جدہ اور پھر لاہور میں کیا!! رہے منتخب نمائندے تو ان کی طاقت کا مرکز پارلیمنٹ ہے!! ایک ری پبلک میں پارلیمنٹ حکومت کو گرا سکتی ہے اور بنا سکتی ہے مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہو!
یہ ری پبلک نہیں! خدا کی قسم ! یہ ری پبلک نہیں! یہ ری پبلک ہوتی تو جہاز کا پائلٹ اور نام نہاد قومی ایئر لائن کا سربراہ دونوں برطرف ہو چکے ہوتے! جس جہاز نے جدہ اترنا تھا اسے‘ مبیّنہ طور پر‘ مدینہ منورہ اُتارا گیا۔ خبر کی رُو سے‘ مدینہ جہاز اتارنے والے حکمرانوں نے مسجد نبوی میں نوافل ادا کیے۔ واپسی پر جدہ ایئر پورٹ پر جہاز میں سوار مسافروں کو دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا کیونکہ ''سرکاری‘‘ وفد نے سوار ہونا تھا اور انہیں اس بات کی مطلق فکر تھی نہ پروا کہ سینکڑوں مسافر جہاز میں دو گھنٹے سے بیٹھے ہیں۔ سرکاری پوزیشن کے ذریعے عوام کو اذیت دینے کا یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ جہاز نے اسلام آباد جانا تھا۔ مگر اسے لاہور لے جایا گیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ سرکاری وفد نے لاہور جانا تھا اور سرکاری وفد کو اس بات کی فکر تھی نہ پروا‘ نہ احساس کہ سینکڑوں لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ اس وفد میں وزیراعظم تھے اور پنجاب کی چیف منسٹر!! دیگر متعلقین‘ وزرا اور عمائدین بھی شامل تھے۔ اذیت کا سلسلہ یہاں بھی ختم نہ ہوا۔ اس وفد کے‘ جو قانون سے بالا تھا‘ اُتر جانے کے بعد بھی جہاز کئی گھنٹے رکا رہا۔ سنا ہے مسافروں نے احتجاج کیا۔ وڈیو کلپ اس احتجاج کے وائرل ہوئے۔
کیا یہ معمولی واقعہ ہے؟ ہاں! پاکستان جیسے ملک میں یہ واقعہ معمولی ہے۔ اخبارات نے آخری صفحے پر یک کالمی خبر دی۔ ایسا واقعہ اگر امریکہ‘ برطانیہ یا کسی مہذب ملک میں رونما ہوا ہوتا تو طوفان آ جاتا۔ اخبارات کے پہلے صفحے پر جلی سرخی ہوتی۔ جس شخص نے جہاز کا رُخ موڑنے کا حکم دیا ہوتا اس کا نام میڈیا میں آتا۔ اُسے سزا دی جاتی۔ مگر ان ملکوں میں ایسی دھاندلی‘ ایسی لاقانونیت‘ ایسی سنگدلی‘ ایسی رعونت‘ ایسے تکبر اور ایسی آمریت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا!
ترقی انفراسٹرکچر کا یا جہازوں کا یا کارخانوں کا یا موٹرویز کا نام نہیں! ایسا ہوتا تو مشرق وسطیٰ کے ممالک آج ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتے۔ انہیں ''فرسٹ ورلڈ‘‘ میں شامل کیا جاتا۔ ترقی یافتہ ملک وہ ہیں جہاں چند مراعات یافتہ افراد کی خاطر جہازوں کا رُخ نہیں موڑا جاتا۔ جہاں تین چار سو افراد کو زبردستی جہاز کے اندر حبسِ بے جا میں نہیں رکھا جاتا۔ جہاں ایسا واقعہ رونما ہو بھی جائے تو عوام سے معافی مانگی جاتی ہے! رومی نے کہا تھا کہ سنائی کی رحلت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ وہ تنکا نہیں تھا کہ ہوا اسے اُڑا لے جاتی نہ پانی تھا کہ سردی میں جم جاتا۔ وہ کنگھی نہیں تھا کہ بالوں میں کرنے سے ٹوٹ جاتی نہ ہی وہ دانہ تھا جو زمین میں چلا جاتا!
یہ جہاز والا واقعہ بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ یہ تین چار سو مسافر انسان تھے۔ آزاد انسان! انہوں نے کرایہ ادا کیا تھا۔ ان کا ایئر لائن سے معاہدہ تھا کہ وہ جدہ اتارے گی اور جدہ سے فلاں وقت روانہ ہو کر سیدھی اسلام آباد آئے گی۔ یہ تین چار سو آزاد شہری آپ کے غلام تھے نہ ماتحت! آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ آپ ان سے اجازت لیے بغیر‘ انہیں باخبر رکھے بغیر ‘ پہلے جدہ میں دو گھنٹے جہاز میں بیٹھ کر انتظار کرنے پر مجبور کرتے اور پھر طاقت کے زور پر ان کی پرواز کو اسلام آباد کے بجائے لاہور لے جاتے اور وہاں پھر گھنٹوں انتظار کراتے۔ ان میں خیبر پختونخوا‘ کشمیر اور پنجاب کے دور دراز علاقوں کے لوگ تھے۔ کسی کو اسلام آباد اُتر کر چترال جانا تھا کسی کو بنوں‘ کسی کو وزیرستان‘ کسی کو راولا کوٹ اور کسی کو مظفر آباد۔ آپ نے اُن کے ساتھ زیادتی کی۔ آپ نے انہیں اذیت میں مبتلا کیا۔ ان میں بچے تھے‘ بوڑھے بھی اور عورتیں بھی! انہیں عید کے موقع پر اپنے اپنے گھروں میں پہنچنا تھا۔ اس سب کچھ کے علاوہ‘ سب سے زیادہ افسوسناک حقیقت یہ کہ آپ نے انہیں احساس دلایا کہ وہ محکوم ہیں! وہ بے بس ہیں! آپ نے اُن کی عزتِ نفس کو مجروح کیا۔ آپ نے ثابت کیا کہ آپ قانون کو‘ ضابطے کو‘ طے شدہ پروگرام کو‘ اقتدار کے پاؤں کے نیچے روند سکتے ہیں! آپ کو دوسروں کے حقوق کا احساس ہے نہ جذبات کا۔ آپ کو یہ پروا بھی نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے‘ عوام کا ردعمل کیا ہو گا۔ یہ بے حسی ہے۔ بے رحمی ہے۔ کٹھور پن ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ غیر قانونی ہے۔ قومی ایئر لائن قوم کی ملکیت ہے۔ یہ کسی کی جاگیر نہیں۔ کسی چچا بھتیجی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اسے ذاتی جہاز کی طرح جہاں چاہیں لے جائیں اور جب چاہیں جہاز کا رُخ تبدیل کر دیں!
یہ چوبیس مئی 2023ء کی بات ہے۔ امریکن ایئر لائنز کی پرواز ایریزونا سے میکسیکو جا رہی تھی۔ پرواز دیر سے روانہ ہوئی تھی۔ دورانِ پرواز پائلٹ اپنے کیبن سے باہر نکلا۔ مسافروں کے درمیان کھڑے ہو کر اس نے تاخیر پر معافی مانگی اور مسافروں کو خوش کرنے کے لیے مفت مشروب پیش کیا گیا۔ اور جاپان میں کیا ہوا؟ یہ 2017ء کا واقعہ ہے۔ ٹرین مقررہ وقت سے بیس سیکنڈ پہلے چلا دی گئی۔ ریل کمپنی نے مسافروں سے معافی مانگی! جاپان ہی میں اگر ریل چلنے یا پہنچنے میں تاخیر واقع ہو تو ہر مسافر کو ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ اس پر لکھا ہوتا ہے کہ تاخیر کی ذمہ داری ریلوے پر ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ مسافر اپنے باس کو‘ یا ممتحن کو یا ایڈمنسٹریٹر کو دیتا ہے۔ کیا ہماری ایئر لائن کا پائلٹ یا سربراہ مسافروں سے معافی مانگے گا؟ نہیں! کبھی نہیں! کیا ایئر لائن کے سربراہ نے پائلٹ سے جواب طلبی کی؟ کیا اسے قانون شکنی اور مسافروں کو اذیت دینے کے جرم میں سزا دی گئی؟ آپ کبھی شمالی علاقوں کے لوگوں سے پوچھیے کہ ان کے ساتھ کیا کیا ستم ہوتے ہیں۔ کئی کئی دن پروازیں نہیں جاتیں۔ جہازوں کو دوسری منزلوں کی طرف روانہ کر دیا جاتا ہے اور بہانہ موسم کی خرابی کا بنایا جاتا ہے۔ ہماری قومی ایئر لائن کی کارکردگی بدترین ہے۔ فی جہاز ملازمین کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے یا دوسرے نمبر پر ہے۔ ہر سال عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اربوں روپے خسارے میں جانے والی اس ایئر لائن کے دہانے میں ڈالے جاتے ہیں۔ بے شمار پاکستانی اس کے جہازوں میں سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔
مسافروں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے اس واقعے پر غم اور غصے کا اظہار کیا ہے کیونکہ یہ سب کچھ اُن کے حکم سے نہیں ہوا! نہیں! جناب وزیراعظم! نہیں!! سوال یہ ہے کہ کسی نے تو یہ فیصلہ کیا ہو گا! کسی نے تو پائلٹ کو اس غیر قانونی کام کا حکم دیا ہو گا! اس کا نام کیوں نہیں بتایا جا رہا؟ اس کے خلاف ایکشن کیا لیا جا رہا ہے؟ وزیراعظم کو حبیب جالب کے باغیانہ اشعار پسند ہیں۔ وہ ترنم سے یہ اشعار سناتے ہیں۔ مگر کیا انہوں نے اقبال کا یہ شعر بھی پڑھا یا سنا ہے؟
فلک نے اُن کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved