زمانے کی صبحوں‘ شاموں اور گزرتے ماہ و سال پر کسی فرد‘ حکمران یا ملک کا کنٹرول نہیں‘ اور نہ وقت کے ابدی دھارے کو وسیع سلطنتوں کے حکمران اپنے بس میں کر سکتے ہیں۔ فراعینِ مصر سے لے کر دورِ حاضر کے فرعونوں تک‘ سب وقت کے تاریک سمندر میں ڈوب گئے۔ ہم اپنی محدود عمر‘ تعلیم‘ کاروبار‘ پیشے اور جائے سکونت کے مطابق کئی پرتوں میں گزرتے وقت کی یادوں کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ موسموں کے رد و بدل‘ متاثر کن واقعات‘ مقامات کی تبدیلی اور قریبی لوگوں کے بچھڑنے اور دکھ سکھ اپنے دامن میں سموئے یادیں اوراق زیست پر رقم ہوتی رہتی ہیں۔ ہمارے اس سفر میں کئی مقام آتے ہیں۔ کبھی بانگِ درا ہمیں چونکا کر ماضی کی راہوں پر لے جاتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ہماری سوچوں کے قدم اسی مسافت میں اُٹھتے رہیں۔ کوئی آواز‘ کوئی آہٹ اور کسی کے قدموں کی چاپ یا پھر خلوت میں ہوا کا جھونکا اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ بچپن‘ جوانی‘ گائوں‘ والدین اور سکول کے زمانے کے کچھ دوست‘ اُن کی یادیں اور اُن کے ساتھ گزری عیدیں دل میں تازہ ہیں۔ اُن وقتوں کے پھولوں کی مہک نورِ سحر کے نمودار ہوتے ہی گھر کے ہر کونے میں پھیلی محسوس ہوتی ہے۔ امّاں کا پُرنور مسکراہٹوں سے لبریز چہرہ اُبھر کر آنکھوں کے سامنے ہے۔ گھر کی چار دیواری میں قدم رکھتے ہی بیقراری کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے مجھے گلے سے لگا لیتیں۔ اس حوالے سے خوا جہ غلام فرید کی کافی کا ایک مصرع یاد آ جاتا ہے : ''گل لاون کوں پھڑکن باہیں‘‘ (گلے لگانے کے لیے بازو تڑپ رہے ہیں)۔
اسلام آباد سے گھر تک تب سفر کی سہولتیں بہتر تھیں‘ بلکہ 1980ء کے آخری برس سنہری دور تھا۔ پاکستان ریلوے ہی طویل سفر کا واحد ذریعہ تھا۔ جدید طویل فاصلے کی بسوں اور مال بردار ٹرکوں کو سڑکوں پر لانے اور انہیں تباہ کرنے کی ابتدا دوسرے جمہوری دور میں ہوئی۔ شاید ان متبادل ذرائع کو زیادہ منافع بخش بنانے کے لیے ریلوے کو تباہ کرنا ضروری تھا۔ ہر آنے والی حکومت نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں ملازمین کا اضافہ کیا اور اپنے کل پرزوں کے ذریعے بدعنوانی کی وہ داستانیں رقم کیں جو ساری زندگی ہم آنے والی نسلوں کو سنا کر دل کا بوجھ ہلکا کرتے رہیں گے۔ وہ بھی زمانہ تھا جب عصر اور مغرب کے درمیان تھل ایکسپریس راولپنڈی سے ملتان کے لیے روانہ ہوتی۔ ہم کئی دن پہلے سلیپر کمپارٹمنٹ بک کرا لیتے۔ شام ہوتے ہی سو جاتے اور صبح ہوتی تو کوٹ ادّو کے سٹیشن پر اُتر جاتے۔ یہاں سے ٹرین رُخ موڑ کر ملتان کی طرف چل پڑتی۔ آرام گاہ میں ہاتھ منہ دھوتے اور باہر سے ناشتہ کرکے واپس آ جاتے۔ ملتان سے جیک آباد کی پسنجر ٹرین آ کر رکتی۔ یہ ٹرین ہر چھوٹے بڑے سٹیشن پر بریک لگاتی۔ یہی اس کا مقصد تھا۔ چار پانچ گھنٹوں کے بعد ہم عمر کوٹ کے مقامی ریلوے سٹیشن پر پہنچ جاتے۔ یہ بالکل ہمیں ایسا ہی معلوم ہوتا تھا جیسا کبھی آج کے دور میں برطانیہ جاتا ہوں تو سب مقامی آبادیوں کے لیے ٹرینیں چلتی ہیں۔ وہاں سے گھر پیدل جاتے کیونکہ کوئی سڑک نہیں تھی۔ بس پرانی پگڈنڈیوں پر تیز تیز قدم اٹھاتے۔ گھر پہنچنے کا اشتیاق ایسا ہوتا کہ تقریباً بائیس گھنٹے سفر کے دورانیے کا پتا بھی نہ چلتا۔ آج بھی اگر یہ سہولت ملے تو چوبیس گھنٹے بھی گوارا ہوں گے کہ ریلوے سے بہتر اور آرام دہ سفر کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ بات چونکہ ریلوے کی چل نکلی ہے تو ذرا اسے مکمل کر ہی لیتے ہیں۔
ریلوے پر بدعنوانی اور ملازمین کا بوجھ موروثی خاندانوں اور ان کی اتحادی حکومتوں نے اتنا لاد دیا کہ دیگر سرکاری تحویل میں چلنے والی کمپنیوں اور اداروں کی طرح خسارے میں ڈوب گئی۔ نقصان کم کرنے کی تگ و دو میں برانچ پسنجر ٹرینیں بند کر دیں۔ جب ملتان جیکب آباد ٹرین بند ہوئی تو ہمارا ٹرین کا سفر بھی انجام کو پہنچا۔ کچھ سال کوٹ ادّو سے عمر کوٹ کے لیے پشاور کوئٹہ چلتن ایکسپریس کو‘ جس کے لیے چند گھنٹے انتظار کرنا پڑتا تھا‘ لیا مگر جب مقامی سٹیشن پر اس کا رُکنا بند کر دیا گیا تو پھر متبادل ذرائع استعمال کرنے لگا۔ یہ انتہائی تکلیف دہ اور بے آرام ہیں اور رات کے وقت چلنے والی بسوں میں سفر خطرے سے خالی نہیں۔
اصل میں یہ جمہوریت نہ تھی بلکہ جمہوری جائزیت کے نام پر جو موروثی خاندان اس سیاست اور اقتدار پر قابض ہوئے وہ ہماری ریاست اور معاشرے کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ جمہوریت تو ایسے کرداروں کو جوابدہ ٹھہراتی ہے۔ لیکن جس نے بھی اس بارے میں کوئی قدم اٹھایا‘ سب کرپٹ ٹولے تمام اختلافات ختم کر کے اس کے خلاف صف بندی کر لیتے ہیں۔ ریلوے کی تباہی کے زمرے میں جب اوپر سے کرپشن شروع ہوئی تو جو ریلوے کے ملازمین میں چوری چھپے ہوتی تھی‘ برملا ہونے لگی۔ ریلوے کی مسافرت کا تجربہ شاید اس درویش کو کسی سے بھی زیادہ ہے۔ اہل کار ملے ہوئے ہوتے ہیں اور باہمی تعاون اور ذاتی مفادات کے لیے اسی شجر کی شاخوں کو کاٹتے رہتے ہیں جس سے ان کے اور ان کے بچوں کا روزگار وابستہ ہے۔ خود ہی سوچیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں میں کتنی حکومتیں آئیں اور گئیں‘ ریلوے میں وہ تبدیلی نہ آ سکی جس کی توقع تھی۔ میرے نزدیک موٹروے کی بجائے ہم پشاور اور کراچی ریلوے پر توجہ دیتے‘ اسے جدید بناتے تو اسلام آباد اور لاہور کا سفر صرف دو سے اڑھائی گھنٹے سے زیادہ نہ ہوتا۔ جب بھی کبھی ایسا ہوا تو موٹروے پر کون گاڑیاں چلائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی تیسری حکومت میں جب خواجہ سعد رفیق صاحب وزیر ریلوے تھے تو ذرا بہتری کی خبریں آنے لگیں۔ 2015-16ء کے دوران کم از کم سات آٹھ ماہ کے لیے اسلام آباد سے لاہور ریلوے کے ذریعے سفر کا دوبارہ آغاز کیا۔ بعض اوقات تو ٹرین فقط چار گھنٹے اور کبھی اس سے بھی کم وقت میں لاہور پہنچ جاتی۔ بہتری کی کوشش کوئی کرے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
ہمارے بزرگ جن کی محبت ہمیں عیدین کے موقع پر کھینچ کر لے جاتی تھی‘ نہ رہے تو گاؤں میں آہستہ آہستہ اجنبیت کا احساس بڑھنے لگا۔ بہت عرصہ ہو گیا‘ کوئی عید گائوں میں نہیں منائی۔ اس دن اسلام آباد گھر کے کونے میں جاگتے ہی ان کی یادوں کی خوشبو اور محبتوں کی دھنک کے رنگ ہر طرف پھیل جاتے ہیں۔ بچپن سے ہی اماں خود اپنے ہاتھ کی بنائی سفید سویاں اُبالتیں۔ ہم نہا کر نئے کپڑے پہنتے۔ چھوٹی تھالیوں میں ان سویوں سے اٹھتے بخارات اور تازہ مکھن کی مہک پورے صحن کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ ہم پیالی میں رکھی شکر انگلیوں سے اٹھاتے‘ ایک حصے میں سویوں کو ملتے‘ دبوچتے اپنی عید کے دن کا آغاز کرتے۔ اس دوران گاؤں کا میراثی ڈھول بجاتے گلی سے گزرتا تو لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کر ایک میدان کی طرف نماز کی ادائیگی کے لیے روانہ ہو جاتے۔ ہماری عید جہاں بھی گزرے‘ ابتدا سویوں سے ہی ہوتی ہے۔ کہتے ہی اسے سویوں والی عید ہے۔ لوگوں کی میزوں پر تو اور بہت کچھ سجا دیکھتا ہوں مگر اپنی وہی سادگی ابھی تک برقرار ہے۔ وقت کے ساتھ کچھ ترمیم اور اضافہ ضرور کر لیا ہے کہ سویاں ڈبے والے دودھ میں پکتی ہیں۔ اپنے باغ کی چند خشک کھجوریں‘ کشمش اور بادام یا اخروٹ کا اس میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کڑک چائے کا بڑا پیالہ صوفے پر دراز کیفیت میں پرانے زمانے کے گائوں کی عیدوں کی یادوں کے باغیچے میں اتار دیتا ہے۔ اپنے اس سفر میں ہر انسان بچھڑے لوگوں اور گزرے ہوئے وقتوں کی یاد کے سہارے زندہ رہتا ہے۔ ہماری یادیں وہ دن‘ وہ رشتے‘محبتیں سوچتا ہوں کتنا قیمتی اثاثہ ہے۔ دعا ہے کہ کسی کا حال اس کے سنہری ماضی سے مفلس نہ ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved