گیانا (Guyana) قومی مزاحمت کا ایک مکمل استعارہ ہے۔ ایسا غیر مسلم ملک ہے جس کے صدر عرفان علی‘ مسلم ہیں۔ وزیراعظم مارک فلپس‘ گورا کرسچین ہے۔ وائس پریذیڈنٹ بھارت جگدیجو‘ ہندو۔ نیشنل اسمبلی کا سپیکر منظور نادر‘ چیف جسٹس رخسانے ولشائر۔ مسلمان کُل آبادی کا صرف 7.5 فیصد ہیں۔ہندو 31 فیصد‘ کرسچین 54 فیصد اور مذہب کو نہ ماننے والے 4.2 فیصد۔ ریپبلک آف گیانا میں رائج گورننس کا ماڈل یونیٹری پارلیمنٹری سسٹم کہلاتا ہے۔ 26 مئی 1966ء کو UK سے آزادی لینے کے بعد اس ملک نے قدرتی وسائل کو ایکسپلور کرنا شروع کیا۔ خود انحصاری کو قومی پالیسی کے طور پر اپنایا ۔اسی لیے آج کی گیانا رپبلک‘ جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے‘ مغرب کی آنکھ میں شہتیر کی طرح کھٹکتا ہے۔ Stephen Sackur نے اسی ایجنڈے پر گیانا کے صدر عرفان علی کا انٹرویو لیا‘ جس میں صدر نے اپنے سابق غاصب فرنگی حکمران کے ایجنڈے کو زمین پر ناک رگڑوائی۔ اس انٹرویو کے ایک حصے کا وائرل ٹرانسکرپٹ یہ ہے۔
''بی بی سی: آئیے ایک بڑی تصویر لیتے ہیں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔ اگلی دہائی‘ دو دہائیوں میں‘ توقع ہے کہ آپ کے ساحل سے 150 بلین ڈالر مالیت کا تیل اور گیس نکالا جائے گا۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے‘ لیکن اس کے بارے میں عملی لحاظ سے سوچیں۔ اس کا مطلب ہے‘ بہت سے ماہرین کے مطابق‘ دو بلین ٹن سے زیادہ کاربن کا اخراج آپ کے سمندری فرش سے‘ ان ذخائر سے آئے گا اور فضا میں چھوڑ دیا جائے گا۔ مجھے نہیں معلوم آپ بطور سربراہ مملکت دبئی COP میں گئے۔
صدر عرفان علی: میں تمہیں یہیں روکتا ہوں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ Guyana میں ہمیشہ کے لیے ایک جنگل ہے۔ جو انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کے مشترکہ سائز کے برابر ہے۔ جنگل جو 19.5 گیگاٹن کاربن ذخیرہ کرتا ہے۔
بی بی سی: کیا یہ آپ کو تمام کاربن چھوڑنے کا حق دیتا ہے؟
صدر: کیا یہ آپ کو موسمیاتی تبدیلی پر ہمیں لیکچر دینے کا حق دیتا ہے؟ میں آپ کو موسمیاتی تبدیلی پر لیکچر دینے جا رہا ہوں کیونکہ ہم نے اس جنگل کو زندہ رکھا ہے۔ جو 19.5 گیگاٹن کاربن ذخیرہ کرتا ہے جس سے آپ لطف اندوز ہوتے ہیں‘ جس سے دنیا لطف اندوز ہوتی ہے‘ جس کے لیے آپ ہمیں ادائیگی نہیں کرتے‘ جس کی آپ قدر نہیں کرتے‘ بالکل نہیں کرتے۔ اس جنگل کی کوئی قدر نہیں‘ جسے گیانا کے لوگوں نے زندہ رکھا ہے۔ کیا لگتا ہے؟ ہمارے ہاں جنگلات کی کٹائی کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ اور اندازہ کرو کہ کیا؟ یہاں تک کہ تیل اور گیس کے وسائل کی سب سے بڑی تلاش کے باوجود ہم اب بھی خالص صفر ہی رہیں گے۔ گیانا اب بھی خالص صفر رہے گا۔ ہماری تمام تر تلاش کے ساتھ‘ ہم اب بھی خالص صفر ہی رہیں گے۔
بی بی سی: دو پوائنٹس بڑے اہم ہیں طاقتور‘ طاقتور الفاظ‘ جناب صدر۔
صدر: میں نے ابھی تک بات مکمل نہیں کی۔ میں نے ابھی بات ختم نہیں کی‘ کیونکہ یہ ایک منافقت ہے جو دنیا میں موجود ہے۔ یہ دنیا پچھلے 50 سالوں میں اپنی تمام حیاتیاتی تنوع کا 65 فیصد کھو چکی ہے۔ ہم نے اپنی حیاتیاتی تنوع کو برقرار رکھا ہے۔ کیا آپ اس کی قدر کر رہے ہیں؟ کیا آپ اس کی ادائیگی کے لیے تیار ہیں؟ ترقی یافتہ دنیا اس کی قیمت کب ادا کرے گی؟ کیا آپ ان لوگوں کی جیب میں ہیں جنہوں نے ماحول کو خراب کیا ہے؟ کیا آپ اور آپ کا نظام ان لوگوں کی جیب میں نہیں جنہوں نے صنعتی انقلاب کے ذریعے ماحول کو تباہ کیا اور اب ہمیں لیکچر دے رہے ہیں؟ کیا آپ ان کی جیب میں ہیں؟ کیا آپ ان کی طرف سے کردار ادا کرتے ہیں؟ کیا آپ کو ان کا پیغام دینے کے لیے ادائیگی کی جاتی ہے؟‘‘
اب ذرا آئیے اپنے آپ پر نظر ڈالتے ہیں۔ پچھلے 76 سال سے ہم 77 قسم کے سکیورٹی رسک کا بھاشن سنتے سنتے اسلامی جمہوریہ سے سکیورٹی غیر جمہوریہ میں تبدیل ہو گئے۔ دنیا کہاں سے کہاں جا کھڑی ہوئی۔ گیانی قوم کے صدر کی خودی اور خودداری‘ جس کی ایک مثال اوپر درج ہے‘ اُس قوم کے پاس نہ ایٹم بم ہے‘ نہ انٹر کانٹی نینٹل بلیسٹک میزائل۔ اس کی اصل دفاعی طاقت مختلف الخیال گروہوں کو ایک قوم بنانے میں پوشیدہ ہے۔ قوم بنانے کے لیے خود پسندی‘ جاہ پسندی بھی کام نہیں آتی۔ ہاں مگر خودداری ہجوم کو قوم میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔
خودداری اور خود مختاری ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ جس سماج میں عوام کی خودداری کا احترام نہ کیا جائے وہاں ریاست کی خود مختاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستان آج ایسے ہی دوراہے پر آن پہنچا ہے۔ عوام کی خودداری رُول آف لاء‘ معاشی برابری اور مواقع کی آزادی سے جنم لیتی ہے۔ اس وقت پاکستان کی ریاست کے اندر ہر سطح پہ ایک اور ریاست بھی موجود ہے۔ آئیے اب اگلا سوال اٹھائیں۔
تیسرا سوال: کیا پاکستان نیشن سٹیٹ کی تاریخ میں بدترین طبقاتی تقسیم کا شکار ہے‘ جہاں طبقاتی تقسیم اب حاکم اور محکوم تک محدود نہیں رہی بلکہ غاصب اور مغصوب‘ ظالم اور مظلوم‘ قابض اور کرایہ دار تک جا پہنچی ہے ۔اس کی ایک سادہ مثال صرف سات عدد انتہائی بنیادی شعبوں سے ملتی ہے۔ یہ سات چیزیں عام آدمی کے لیے انتہائی مہنگی ہیں۔ نمبر ایک بجلی‘ دوسری گیس‘ تیسرا کھانا‘ چوتھا پٹرول‘ پانچویں رہائش‘ چھٹا علاج اور ساتواں سفر۔ اب آپ خود بتائیں کہ یہ ساتوں کی سات چیزیں کیا پاکستان کے منتخب سیاستدان‘ بیورو کریٹس‘ عدلیہ اور مقتدرہ کے لیے بالکل فری نہیں ہیں؟ یہ خادم و مخدوم کی کیسی تقسیم ہے؟ 99 فیصد سے زیادہ خادم‘ ایک فیصد سے کم مخدوموں کی اپنی کمائی سے خدمت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود عوام کے خادم‘ خادم اعلیٰ اور قوم کے خادم اعظم کا ٹائٹل بھی انہیں مخدوموں کے قبضے میں ہیں۔ 76 سال کا کوئی بھی بجٹ نکال کر دیکھ لیں‘ یہ سات چیزیں ہر بجٹ میں عوام کے لیے مزید مہنگی ہوتی گئیں مگر مخدوموں کو تنخواہ اور پنشن کے علاوہ یہ ساتوں چیزیں بعد از ریٹائرمنٹ بھی عوام کے خون پسینے کی کمائی کے ٹیکس سے بالکل مفت ملتی ہیں۔
پاکستان کے ہر شہر کے اندر دو طبقاتی شہر آباد ہیں۔ وسائل پر قابض طبقے کے شہر میں بجلی کبھی نہیں جاتی‘ بے وسیلہ طبقے کے شہر میں بجلی کبھی نہیں آتی۔ بہالپور تھانہ مدرسہ پاور پلے کا رونا چل ہی رہا تھا کہ فیروزوالہ تھانہ منڈی فیض آباد میں پنجاب پولیس کی بے وجہ فائرنگ سے دو لڑکے دریائے راوی میں ڈوب مرے۔ معیشت بحالی کے دعویداروں کو تاجروں نے چاند رات کو بتایا کہ 76 سال میں تجارت کے لیے موجودہ سال بدترین سال تھا۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے: Question of Revival میں سنجیدہ ہے کون؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved