بھارتی مسلمان انتخابات 2024ء میں کہاں کھڑ ے ہیں؟ کیا انہوں نے اپنے مستقبل کا کوئی منظم خاکہ بنایا ہے؟ مسلم ووٹ انتخابات میں کس کی طرف ہو گا؟ اور کیا ان ووٹوں سے واقعی کوئی فرق پڑنے والا ہے؟ یہ سوال آج کل ہر بھارتی مسلمان کے ذہن میں ہیں اور ان سے وابستگی رکھنے والے ہر پاکستانی بلکہ دنیا بھرکے مسلمانوں کے ذہن میں بھی۔
19 اپریل میں محض چند دن ہیں۔ بھارت میں لوک سبھا یعنی مرکزی قانون ساز ایوان کے انتخابات شروع ہونے والے ہیں۔ میں 4 اپریل کے کالم میں تفصیل سے انتخابی اتحاد میں اترنے والی سیاسی جماعتوں کا ذکر کر چکا ہوں۔ اگر خلاصہ کریں تو 19 اپریل کو ان انتخابات کا آغاز ہوگا اور یہ سلسلہ یکم جون تک چلے گا۔ 4 جون کو نتائج کا اعلان ہو گا۔بھارت کی آبادی لگ بھگ ایک ارب چالیس کروڑ ہے‘ جس میں ستانوے کروڑ ووٹرز ہیں۔ دس لاکھ سے زیادہ پولنگ سٹیشنز پر پولنگ ہوگی۔ بھارت میں ووٹنگ اب الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ مرکزی قانون ساز ایوان لوک سبھا کہلاتا ہے اور اس کی 543 نشستیں ہیں۔ مختلف ریاستوں میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے نشستیں متعین ہیں۔ سب سے زیادہ نشستیں اتر پردیش (یو پی) میں ہیں جن کی تعداد 80 ہے۔ مہارشٹرا کی 48 اور مغربی بنگال کی 42 نشستیں ہیں۔ باقی صوبوں (ریاستوں) کی نشستیں ان تینوں سے کم ہیں۔ کسی جماعت کو اکثریت حاصل کرنے کیلئے 272 نشستوں کے عدد تک پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ بی جے پی کی سربراہی میں بننے والے 38 جماعتی اتحاد این ڈی اے کو برتری حاصل ہے اور یہ کہ نریندر مودی مسلسل تیسری بار بھارتی وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ مودی نے نہایت چالاکی سے ہندو مذہبی جذبات کو ابھارا ہے اور ہر وہ کارڈ کھیلا ہے جس سے اسے کامیابی مل سکتی ہے۔
ہندوتوا کے دعویدار مودی کو ہمیشہ بھارتی مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا رہا ہے۔ ننانوے فیصد بھارتی مسلمان مودی کی مخالف جماعتوں کے ساتھ ہیں اور ان کا ووٹ بی جے پی کو نہیں ملتا‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سے مودی کو نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہوا ہے۔ یہ بات لطیفے کے طور پر کہی جاتی ہے لیکن اس میں بڑی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کا اپنا کوئی رہنما نہیں لیکن وہ بڑا لیڈر بنانے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مودی کو لیڈر بنا دیا ہے‘ یعنی بھارت میں مسلم دشمنی لیڈر بننے کی ضامن ہے۔ مسلم دشمنی ہی سے بی جے پی نے ہندو انتہا پسندوں کے ووٹ جیتے ہیں جو بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ بی جے پی کوبھارت کے طول و عرض میں بکھرے مسلمانوں کے منقسم ووٹوں سے کبھی غرض نہیں رہی۔ اسّی فیصد آبادی ہندو ہے‘ اس لیے وہی اہمیت رکھتی ہے۔ ان حالات میں مسلمان‘ جن کی نمائندگی قانون ساز ایوانوں میں ہر بار پہلے سے کم ہوتی جا رہی ہے‘ کیسے اپنی سیاسی شناخت باقی رکھیں گے؟
ایک طرف بھارت میں مسلمانو ں کی تعداد لگ بھگ 16 فیصد ہے۔ بعض لوگ اسے 18 فیصد بتاتے ہیں اور بعض بھارت کی پوری آبادی میں پانچواں حصہ مسلم بتاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انڈونیشیا کے بعد کسی ملک میں مسلمانوں کی یہ دوسری بڑی تعداد ہے۔ کم و بیش 22 کروڑ۔ لیکن درست یہ ہے کہ پاکستان کے بعد یہ تیسری بڑی تعداد ہے۔ اتنے بڑے انسانی گروہ کو کسی ملک میں اقلیت کہنا بھی مشکل ہے جبکہ سیاسی طور پر 1970ء سے سے اب تک ایوانوں میں ان کی نمائندگی محض پانچ فیصد ہے اور اس الیکشن میں اس پانچ فیصد کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ مجموعی صورتحال دیکھیں تو مسلمانوں کی سیاسی پراگندگی اس وقت عروج پر ہے۔ بی جے پی اور ہم خیال جماعتیں مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیتیں۔ دیگر جماعتیں بھی مسلمانوں کو بطور امیدوار کھڑا کرنے سے اجتناب کرتی ہیں لیکن ووٹ انہیں مسلمانوں کے بھی چاہئیں‘ اس لیے صاف طور پر انکار بھی نہیں کرتیں۔ اس کی تین بنیادی وجوہات ہیں: ایک تو مذہبی۔ دراصل ہندو دھرم کی ذات پات کی تقسیم ہندو ذہن کے اندر اس طرح رچی بسی ہے کہ ایک مسلمان کو رہنما قرار دینا ان کیلئے مشکل ہے۔ سیکولر اور تعلیم یافتہ ذہن میں جھانک کر دیکھیں تو یہ تقسیم وہاں بھی نظر آئے گی۔ دوسری وجہ تاریخی ہے۔ یہ حقیقت کھرچ کر بھی مٹائی نہیں جا سکتی کہ مسلمانوں نے ہندوئوں پر لگ بھگ آٹھ سو سال حکومت کی ہے۔ کسی بھی درجے کی حکومت یا فیصلہ سازی دوبارہ مسلمان کے ہاتھ میں آنا ہندو اکثریت کیلئے کبھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ ہندو آج بھی مسلمانوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ تیسری وجہ سیاسی ہے۔ کانگریس سمیت سیکولر جماعتوں کا یہ کہنا ہے کہ ہم کسی کمزور یا ہار جانے والے امیدوار کو ٹکٹ دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اب تک کی سیاسی تاریخ یہی ہے کہ جن مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیے گئے ‘ وہ ہار گئے ۔ کسی بھی حلقے میں مسلم امیدوار کو ہندو ووٹ نہیں ملتا خواہ وہ کانگریس ہی کا نمائندہ کیوں نہ ہو۔ یاد رہے کہ بھارت کے صف ِاول کے رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی رام پور کے حلقے سے انتخاب لڑنا پڑا تھا‘ جہاں مسلم ووٹ پچاس فیصد سے زیادہ تھا۔ یہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ ابوالکلام آزاد کو بھی ہندو ووٹر سیکولرازم اور کانگریس کا نہیں بلکہ مسلمانوں کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔
1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد بھارتی مسلمانوں نے مسلم لیگ جیسی کوئی مسلم نمائندہ جماعت بنانے سے گریز کیا۔ انہیں یہی بہتر لگا کہ دیگر سیکولر سیاسی جماعتوں مثلاً کانگریس وغیرہ میں مدغم ہوجائیں‘ لیکن ان جماعتوں کی اپنی پالیسیاں تھیں‘ جن میں مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی گنجائش بہت کم تھی۔ چونکہ یہ بات اعلانیہ کہی بھی نہیں جا سکتی تھی اور مسلم ووٹوں کی ضرورت بھی تھی‘ اس لیے سیاسی جماعتوں میں منافقانہ پالیسیاں چلتی رہیں۔ مسلم تشخص کی الگ جماعت نہ بنانا انجام کار مسلمانوں کو بہت مہنگا پڑا۔ بھارت جو پہلے بھی ٹھیک اور حقیقی معنوں میں سیکولر کبھی نہیں تھا‘ بتدریج ہندو ریاست بنتا چلا گیا۔ مجلس اتحاد المسلمین حیدر آباد (دکن) سے اٹھنے والی سیاسی جماعت ہے اور ہرچند اس کا دائرہ حیدر آباد سے باہر نہیں ہے‘ تاہم اب اس نے ایک دو ریاستوں میں بازو پھیلانا شروع کیے ہیں۔ اسد الدین اویسی اگرچہ مسلمانوں میں بہت مقبول ہیں لیکن بہت سے مسلم ابھی تک اس خدشے سے باہر نہیں نکلے کہ ایک مسلم جماعت کا ساتھ دینا انہیں بہت مہنگا پڑے گا؛ چنانچہ تمام تر خلا کے باوجود اویسی صاحب کی جماعت محدود ہی رہی اور وہ قومی سطح پرابو الکلام آزاد یا ڈاکٹر ذاکر حسین کی سطح کے رہنما نہیں بن سکے۔
مسلمانوں کو سیاسی میدان سے بتدریج تین طریقوں سے نکالا جاتا رہا اور یہ پالیسیاں 1947ء ہی سے شروع ہو گئی تھیں۔ اول یہ کہ مسلم امیدوار کو ٹکٹ ہی نہ دو۔ اگر مجبوراً ٹکٹ دینا پڑے تو ان کی جیت کیلئے دلچسپی نہ لی جائے۔ دوسرا‘ حلقوں کی سیاسی حد بندیاں اس طرح کی جائیں کہ مسلم ووٹ مختلف حلقوں میں تقسیم ہو کر رہ جائے۔تیسرا‘ ووٹروں کو ووٹ ڈالنے ہی سے روک دیا جائے۔ یہ تینوں حربے اب تک ہر الیکشن میں استعمال کیے جاتے رہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ بھارت بھر میں مسلمانوں کا کوئی بڑا سیاسی رہنما ہے نہ مسلمانوں کی اپنی یا ہم خیال سیاسی جماعت موجود ہے۔ وہ کبھی جنتا دَل کا ساتھ دیتے ہیں‘ کبھی لالو پرشاد یادیو کا‘ کبھی کانگریس کا اور کبھی بنگال کی ممتا بینرجی کا۔ الیکشن2024ء میں بھی مسلمانوں کا کوئی واضح لائحہ عمل اور متفقہ طریق کار نظر نہیں آتا۔ ہر جگہ کی اپنی اپنی پالیسی اور ایک دوسرے سے تحفظات ہیں۔ اور یہ وہ تقسیم ہے جو بی جے پی کو ایک بار پھر کامیابی سے ہمکنار کیا چاہتی ہے۔ ہر بار مودی نے برسر اقتدار آتے ہی مسلم دشمن اقدامات کیے۔ کشمیر کے آرٹیکل 370 کی تنسیخ ہو یا شہریت کے متنازع قوانین یا این آر سی اے اور سی اے اے جیسے کالے قوانین۔ کیا ایک بار پھر یہی سب کچھ بدتر انداز میں ہونے جا رہا ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved