وفاقی دارالحکومت کے وسطی بازار میں ایک دکان ہے جہاں خالص چمڑے کی مصنوعات دستیاب ہیں۔ یہ لوگ اِس گئے گزرے زمانے میں بھی زینیں بناتے ہیں۔ بچپن کی یادیں تازہ کرنے کے لیے کبھی کبھی وہاں جانا ہوتا ہے اور ان لوگوں سے گپ شپ ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے شہروں میں زین ساز‘ شمشیر ساز‘ ظروف ساز اور کئی طرح کے اہلِ حرفہ ہوتے تھے۔
مرے بلخ‘ میرے ہرات شاد رہیں سدا
مرے کوزہ گر‘ مرے زین ساز سدا رہیں
بزرگوں سے سنا ہے کہ پہلے زمانوں میں جو بھی دارالحکومت ہوتا تھا اس میں 32 ذاتیں‘ یعنی 32 پیشے ہوتے تھے تاکہ بادشاہ‘ اس کے عمائدین اور اس کی فوج کی تمام ضروریات پوری ہو سکیں۔ جولاہے‘ درزی‘ کفش ساز‘ رنگ ساز‘ کوزہ گر‘ قالین باف‘ مٹھائیاں بنانے والے‘ اسپ فروش‘ نعل لگانے والے‘ سبزی اگانے والے‘ جلدساز اور کئی دیگر کاریگر ہوتے تھے۔ ہر پیشے کا اپنا الگ محلہ ہوتا تھا۔ شاہ اور شاہی محل کے مکینوں کی خدمت ان پیشوں کا اولین مقصد تھا۔ جیسے ترکی میں آج جو کرسٹل (بلور) عام بکتا ہے‘ کسی زمانے میں اس کرسٹل کے کارخانے صرف عثمانی سلاطین کے لیے کام کرتے تھے۔
کل بھی میں اس چرم ساز کے پاس بیٹھا تھا اور اسے بتا رہا تھا کہ ہمارے خاندان کی زینیں‘ جو پشت در پشت چلی آرہی تھیں‘ کس حال میں ہیں اور یہ کہ ہندوستانی زینوں اور انگریزی زینوں میں کیا فرق تھا۔ ایک سفید فام آدمی دکان میں داخل ہوا۔ جس طرح چرم ساز نے اس کی آؤ بھگت کی اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اس کا پرانا گاہک ہے۔ وہ ایک خاص قسم کے چمڑے کے جوتے بنوانا چاہتا تھا جو اس کی پنڈلیوں کے نصف تک ہوں۔ ان سفید فاموں کے بھی کیا کیا شوق ہیں! ہم پاکستانی اور بھارتی زندگی بھر کی جو پونجی اولاد کے لیے چھوڑ جاتے ہیں‘ یہ سفید فام اس پونجی کو اپنی زندگی میں بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کی سیر کرتے ہیں۔ چرم ساز نے اس سے میرا تعارف کرایا اور یہ بات خاص طور پر بتائی کہ اس کے پاس سو سال سے بھی زیادہ پرانی اس کی خاندانی زینیں ہیں۔ یہ سننا تھا کہ سفید فام آدمی کی آنکھوں میں مسرت اور تجسس کی چمک آئی۔ اس نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے۔ اسے پرانی زینوں میں بہت دلچسپی تھی۔ اس نے چترال کے بازار سے ایک بہت پرانی اور نادر زین خریدی تھی۔ اس نے چرم ساز سے کوئی بات کی مگر اس قدر آہستہ کہ میں سن نہ سکا۔ چرم ساز میری طرف متوجہ ہوا۔ کہنے لگا ''وِلیم آپ کے گھر جا کر زینیں دیکھنا چاہتا ہے‘‘۔ میں نے کہا کہ بصد شوق مگر ایک بات اسے بتا دو کہ یہ زینیں بیچی نہیں جا سکتیں۔ یہ پیشگی احتیاط میں نے اس لیے کی کہ پہلے ایک ناخوشگوار تجربہ ہو چکا ہے۔ ایک صاحب نے اصرار کے ساتھ (ایک دوست کی سفارش تھی) میری لائبریری دیکھی جس میں آبائی مجموعے کا بھی ایک حصہ پڑا ہے۔ شاہجہان کے زمانے کا ایک قلمی نسخہ دیکھا تو اس پر لٹو ہو گئے اور خریدنے پر اصرار کرنے لگے۔ پوچھا اس میں آپ کی دلچسپی کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگے کہ یورپ کی کسی لائبریری کو بیچ دوں گا کہ وہاں ایسے نوادرات کے منہ مانگے دام ملتے ہیں۔ بہت مشکل سے جان چھڑائی۔
ولیم کو میں گھر لے آیا۔ زینوں کو اس نے دلچسپی کے ساتھ دیکھا۔ کئی سوال پوچھے۔ معلوم ہوا چرم اور چرم کی مصنوعات کے حوالے سے اس کی معلومات بہت تھیں۔ کیا پتا یہی اس کا کاروبار ہو۔ یہ لوگ ذاتی نوعیت کے سوالات پوچھتے ہیں نہ پوچھنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔ ہم نے چائے پی۔ باتوں باتوں میں اس نے ایک عجیب بات کہی۔ کہنے لگا :یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے مگر کیا یہ لازم ہے کہ تم لوگ خود بھی دنیا کو بتاؤ کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے؟؟ اس اچانک سوال پر ایک لمحے کے لیے میں گڑبڑایا مگر فوراً سنبھل گیا۔ میں نے کہا: پاکستان دہشت گردی کا گڑھ نہیں‘ دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس پر ولیم ہنسا۔ کہنے لگا: ایک ہی بات ہے۔ دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ وہ یہ کہ یہ ملک محفوظ نہیں!! اور تم ساری دنیا کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہو کہ پاکستان ایک خطرناک جگہ ہے! غیر محفوظ ہے! یہاں مت آؤ! یہاں سرمایہ کاری نہ کرو! یہاں سیاحت کے لیے نہ آؤ۔ میں نے پوچھا کہ یہ بات تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ ولیم پھر ہنسا۔ کہنے لگا کہ میں عینی شاہد ہوں۔ تمہیں معلوم ہے اسلام آباد میں صرف دو فائیو سٹار ہوٹل ہیں۔ ایک تو شہر کے شمال میں ہے۔ مگر دوسرا ہوٹل شہر کے بالکل وسط میں ہے۔ شہر کی تمام مصروف اور بڑی شاہراہیں اس دوسرے ہوٹل کے سامنے سے گزرتی ہیں۔ ایک طرف ڈپلومیٹک انکلیو ہے۔ دوسری طرف مری اور بارہ کہو جانے والی بڑی شاہراہ ہے‘ تیسری طرف شہر کا سب سے بڑا بازار ہے۔ چوتھی طرف شاہراہِ دستور ہے جس پر سپریم کورٹ واقع ہے‘ قومی اسمبلی ہے اور صدر اور وزیراعظم کے دفاتر اور قیام گاہیں ہیں! اس شاہراہِ دستور کو جانے والا راستہ اسی ہوٹل کے سامنے سے گزرتا ہے۔ تم لوگوں نے اس ہوٹل میں کرکٹ ٹیموں کو ٹھہرایا ہوا ہے۔ اور ان ٹیموں کی حفاظت کے نام پر یہ تمام بڑی بڑی شاہراہیں بند کی ہوئی ہیں! میں اور میری بیوی بھی اسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ہوٹل سے نکل کر کہیں جانا اور واپس ہوٹل میں آنا ایک عذاب سے کم نہیں! آج صبح ناشتے پر ہم غیرملکی ہنس رہے تھے کہ پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں۔ پہلے شاہراہِ عام (Thoroughfare) پر کرکٹ ٹیم کو ٹھہرایا۔ پھر شاہراہِ عام بند کر دی! ہے نہ حماقت کی انتہا!!
ولیم چائے پی کر ہماری قومی بے وقوفی پر ہنس کر چلا گیا۔ مگر میں اُس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ یہ حماقت ہے یا سازش؟؟ جس نے بھی یہ فیصلہ کیا ہے کہ کرکٹ ٹیموں کو شہر کے وسط میں ٹھہراؤ اور پھر ان کی حفاظت کے نام پر تمام بڑی شاہراہوں کو بند کردو‘ اس نے وزیراعظم سے بھی دشمنی کی ہے‘ حکومت سے بھی اور عوام سے بھی!! لوگ تو عذاب میں ہیں ہی‘ دنیا بھر کو یہ پیغام بھی جا رہا ہے کہ پاکستان خطرناک ملک ہے۔ پاکستان غیرمحفوظ ہے۔ یہاں کرکٹ ٹیموں کی حفاظت کے لیے بھی شہر کو بند کرنا پڑتا ہے۔ یہاں سرمایہ کاری کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟
کوئی ہے جو اس حماقت کا نوٹس لے؟ کوئی ہے جو اس سازش کا سد باب کرے؟ کیا وزیراعظم کو معلوم ہے کہ ان کے دفتر سے ایک ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر غدر مچا ہوا ہے؟ لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر راستے بند کرنے والوں کو بد دعائیں دے رہے ہیں! شہر کے اس سب سے بڑے ہوٹل میں ٹھہرنے والے تمام غیرملکی پریشان بھی ہیں اور پاکستانیوں کی عقل پر ماتم کناں بھی!! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کو گھُن کی طرح کھانے والے حکومت کے اندر ہی موجود ہیں۔ اندر سے حکومت کی جڑوں کو کاٹ رہے ہیں۔ مگر یہ سازش صرف حکومت کے خلاف نہیں‘ ملک کے بھی خلاف ہے! یہ بدنامی ریاست کی بدنامی ہے! ارے کم عقلو! بجائے اس کے کہ کرکٹ ٹیموں کو ایسی جگہ ٹھہراؤ جہاں ہر کسی کی نظر ہی نہ پڑے‘ انہیں شہر کے وسط میں‘ شاہراہِ عام کے کنارے ٹھہرا دیا ہے اور پھر تمام راستے بند کرکے اعلان عام کر رہے ہو کہ ٹیمیں یہاں ٹھہری ہوئی ہیں!! تم تو اُس گاؤدی کی طرح ہو جو بینک سے رقم نکلوا کر بیگ کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے‘ سینے سے لگائے‘ کبھی دائیں طرف دیکھتا ہے کبھی بائیں طرف! بچہ بھی جان سکتا ہے کہ اس کے پاس رقم ہے! اور بیگ چھینا جا سکتا ہے!!
کیا عالی قدر چیف جسٹس ریاست کو بدنام کرنے کی اس سازش کا نوٹس لیں گے؟؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved