تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     18-04-2024

ایرانی آپریشن۔ وعدۂ صادق

ہفتہ 13 اپریل کی رات دیر تک جاگنے والوں اور اتوار کو صبح بیدار ہونے والوں کیلئے ایران اسرائیل تنازع نئی خبریں لے کر آیا۔ ایران نے آپریشن ''وعدۂ صادق‘‘ یعنی سچا وعدہ کے نام سے اپنی سرزمین سے اسرائیلی زمین پر ڈرون اور میزائل حملے کیے۔ یہ خبریں آتے ہی مختلف گوشوں سے تبصرے شروع ہو گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ یہ ایرانی حملے بنیادی طور پر اس حملے کے جواب میں تھے جو یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر کیا گیا تھا‘ جس میں دو ایرانی سینئر فوجی افسران اور پاسدارانِ انقلاب کے اہلکاروں سمیت 13افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اگرچہ اسرائیل نے ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن یہ واضح تھا کہ یہ اسرائیلی کارروائی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے شام میں ایسے کئی حملے کیے جا چکے تھے جن میں پاسدارانِ انقلاب کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ایران کی سینئر قیادت کی طرف سے اس حملے کا موزوں وقت پر مناسب جواب دینے کے ارادے کا اظہار کیا گیا تھا۔ 13 اپریل کے ان حملوں کے بعد دونوں ملکوں کی طرف سے کامیابی کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں‘ اور ایسے حملوں کے بعد فریقین ہمیشہ مخالف کی ناکامی کا دعویٰ کیا کرتے ہیں۔ پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ حسین سلامی نے ایرانی سرکاری ٹی وی پر کہا کہ یہ حملے ہماری توقع سے زیادہ کامیاب رہے۔ ایران نے تمام مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیے اور ان حملوں کے بعد کی تمام معلومات اکٹھی کر رہے ہیں‘ ہم نے معاشی اور شہری مراکز کو نشانہ نہیں بنایا لیکن جن انٹیلی جنس مراکز اور فضائی اڈے سے دمشق میں سفارتخانے کو نشانہ بنایا گیا تھا‘ ہمارا ہدف وہی تھے۔جنرل حسین سلامی نے کہا کہ اسرائیلی میزائل ڈیفنس سسٹم کافی تہ در تہ اور جدید ترین ہے۔ ایسا منصوبہ بنانا جس میں ایرانی کروز اور بیلسٹک میزائل اس نظام سے گزر کر ہدف تک پہنچیں‘ کافی مشکل کام تھا لیکن ہم نے اپنے اہداف حاصل کیے ہیں۔ ایرانی میجر جنرل بغیری نے کہا کہ مشن مکمل ہو گیا ہے‘ ہم نے مقاصد حاصل کر لیے ہیں اور اب ہم اس وقت تک کوئی آپریشن نہیں کریں گے جب تک ایران پر مزید حملہ نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے کہا کہ ایران نے 170 ڈرونز‘ 30 کروز میزائل اور 120 سے زیادہ بیلسٹک میزائل داغے تھے‘ہم اور ہمارے اتحادیوں نے ننانوے فیصد ڈرونز اور میزائل اسرائیل کی حدود سے باہر ہی تباہ کر دیے۔ کچھ بیلسٹک میزائل اسرائیل کی زمین پر پہنچ سکے لیکن کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا۔
دونوں ممالک کے حامی متضاد تبصرے کر رہے ہیں۔ کسی کے نزدیک ایران نے اسرائیل کو بہت کرارا جواب دیا ہے اور کسی کے نزدیک ایران نے ان حملوں سے اپنا رہا سہا بھرم کھو دیا ہے۔ ان دونوں ممالک اور حامیوں کے دعووں سے ہٹ کر اگر منظر کو دیکھیں تو کئی باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایران کے اس دعوے میں کتنا وزن ہے کہ اس نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔ پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران کیلئے ممکن نہیں رہا تھا کہ وہ دمشق میں سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کا جواب نہ دے۔ قیادت پر صرف عوام نہیں‘ پاسدارانِ انقلاب کی نچلی سطح کے اہلکاروں اور فوجی افسروں کا بھی دبائو موجود تھا۔ دبائو یہ تھا کہ ایرانی تحمل اور برداشت کی اب تک کی پالیسی کام نہیں کر رہی اور کوئی جواب لازمی ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی اور رضا موسوی کی ہلاکتوں کے بعد سے یہ سلسلہ بڑھتا گیا؛ چنانچہ اسرائیل جس حد تک چلا گیا ہے اس کے بعد ایران کیلئے خطے میں موجود اپنی شریک قوتوں اور حامی جنگجوئوں کے سامنے ساکھ بچانا ضروری تھا۔ اس لیے اب جواب دیے بغیر اس کیلئے کوئی راستہ نہیں تھا۔ لیکن دوسری طرف یہ بہت اہم تھا کہ ایسا اقدام نہ ہو جس سے خطے میں تنازع بہت زیادہ بڑھ جائے یا امریکہ کو درمیان میں کودنا پڑ جائے۔ اس لیے نپا تلا قدم ہی ضروری تھا۔ اسی لیے انہوں نے حملے کے ساتھ ہی مبینہ طور پر حریفوں کو حملے کی اطلاع دے دی۔ (امریکہ نے اس اطلاع کی تردید کی ہے)۔
اس حملے کا دوسرا مقصد ایک نفسیاتی رکاوٹ عبور کرنا تھا۔ 1979ء میں ایرانی انقلاب کے بعد اپنی زمین سے اسرائیلی زمین پر یہ پہلا براہِ راست حملہ تھا۔ اسرائیل پر بھی 1973ء کے یوم کپور کے بعد کسی بھی ملک کا یہ پہلا حملہ تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب تک تعداد کے لحاظ سے کسی بھی ملک کا سب سے بڑا ڈرون حملہ تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ایران نے حملے میں اپنے بہترین ہتھیار استعمال نہیں کیے۔ ایران سے اسرائیل تک جتنا زمینی فاصلہ (تقریباً ایک ہزار میل) ہے اور اس کے ساتھ ساتھ راستے میں جتنے اسرائیلی اتحادی ملک پڑتے ہیں‘ نیز جس طرح امریکی اور اسرائیلی دفاعی نظام چوکس تھے‘ اس کے تحت یقینی تھا کہ یہ ڈرونز وغیرہ راستے ہی میں روک لیے جائیں گے۔ یہ بات یقینا ایرانیوں کے پیش نظر تھی بلکہ ان کا مقصد اس سے پورا ہوتا تھا کہ معاملہ اس حد تک نہ پہنچے کہ اسرائیل کو ایران پر جوابی حملہ کرنا پڑے۔ ان کے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ کچھ میزائل اسرائیلی فوجی اڈوں تک پہنچیں گے اور اس سے جانی اور عمارتی نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ مقصد پورا نہیں ہوا‘ لیکن ایران کا وہ مقصد پورا ہوا کہ اپنے حملہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کر سکے اور حریفوں کو سوچنے پر مجبور کیا جا سکے۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ ایران میں حملہ کرنے کی خاص صلاحیت نہیں ہے۔ یہ صلاحیت ظاہر ہو گئی ہے۔ پھر یہ کہ ایران نے ایسا کوئی ہتھیار استعمال نہیں کیا جس کے بارے میں اسرائیل کو علم نہ ہو۔ اس نے صرف ان کی بڑی تعداد استعمال کی۔ لیکن اپنے بہترین مکے روکے رکھے۔ ایک مقصد یہ جانچنا بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیلی دفاعی نظام کیسے کام کرتا ہے اور تنصیبات کہاں کہاں موجود ہیں۔ ایک بڑ امقصد معاشی بھی ہو گا۔ اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ اس حملے کو روکنے پر ایک ارب ڈالر سے زائد خرچ ہوئے۔ ایک دن کے حملے کے لیے یہ بہت بڑا خرچ ہے۔
کئی سالوں سے ایرانی ڈرونزکی خبریں توجہ حاصل کر رہی ہیں۔ روس کے یوکرین پر حملے میں بھی ایرانی ڈرون ''شاہد‘‘ مؤثر طور پر استعمال ہوئے ہیں۔ ''شاہد‘‘ میں کئی قسم کے ڈرون موجود ہیں۔ شاہد 136 ڈرون‘ جو اسرائیل پر حملوں میں داغے گئے‘ کم وزن (یعنی 50 کلوگرام) کا اسلحہ لے جانے والا ڈرون ہے لیکن اس کے ساتھ شاہد 238‘ جو ٹربو جیٹ انجن والا ڈرون ہے‘ بھی حملے میں شامل تھا۔ ایرانی ٹی وی نے یہ بھی بتایا کہ ''عماد‘‘ جو دور مار بیلسٹک میزائل ہے اور ''پاوہ‘‘ جو کروز میزائل ہے‘ بھی حملوں میں داغے گئے تھے۔ گویا ان میزائلوں کا یہ ایک طرح سے ٹیسٹ مشن تھا‘ لیکن ایران کے ساتھ بھی بہت سے مسائل ہیں۔ معاشی مشکلات اور پابندیوں میں گھرے ایران کے اس حملے کے بعد تہران میں ایرانی کرنسی ریال کم ترین سطح پر پہنچ گئی یعنی چھ لاکھ ستر ہزار ریال فی ڈالر۔
ایک اسرائیلی جنرل نے جوابی کارروائی کا اعلان کیا ہے لیکن یہ محض بیان بھی ہو سکتا ہے۔ اب معاملہ آگے بڑھے گا یا نہیں‘ اس کا دار و مدار اسرائیلی حکومت کے ردعمل پر ہے۔ گویا ایران نے گیند اسرائیل کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ کسی بھی ملک کا اسرائیلی سرزمین پر 1973ء کے بعد یہ پہلا حملہ ہے۔ اگر اسرائیل اسے پی جاتا ہے تو گویا ایک مثال قائم ہو جائے گی اور سیاسی طور پر بھی نیتن یاہو کیلئے مشکل پیدا ہو گی‘ اگر اسرائیل ایران پر حملہ کرتا ہے تو ایران بھی مجبور ہو گا کہ اپنے وہ بہترین ہتھیار استعمال کرے جو ابھی تک استعمال نہیں کیے گئے۔ اگرچہ اسرائیل بڑی جنگی طاقت ہے اور امریکہ بھی اس کی پشت پر ہے لیکن ایران پر براہِ راست حملہ کئی محاذوں پر جنگ چھیڑنے کے مترادف ہو گا۔ ایرانی ا تحادی حزب اللہ‘ حوثی جنگجو‘ جو اسرائیل کے دائیں بائیں موجود ہیں‘ یہ اس کیلئے کافی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں‘ بلکہ یہ آگ پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ ایران اسرائیلی تماشا بہرحال ہولناک جنگ میں نہیں بدلنا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved