کراچی واقعی دکھی ہے۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بلوچستان کے بہت بڑے علاقے میں عوام زلزلے کے ہاتھوں تباہی و بربادی کا شکار ہوں‘ بستیوں کی بستیاں دیکھتے ہی دیکھتے کھنڈرات میں بدل گئی ہوں‘ ہزاروں لوگوں کے پاس کھانے کے لئے روٹی اور پینے کے لئے پانی نہ ہو اور دہشت گرد‘ ان کی امداد کے لئے آنے والوں پر راکٹ اور گولیاں برسا رہے ہوں اور کراچی والے اپنے ماضی کی طرح ان کے دکھ درد میں جوش و خروش سے شرکت نہ کریں؟کراچی کا ہمیشہ یہ ریکارڈ رہا ہے کہ پاکستان میں جہاں کہیں بھی اہل وطن پر کوئی مصیبت آتی ہے‘ تو یہ شہر اپنے تمام وسائل کے ساتھ ان کی مدد کے لئے حرکت میں آ جاتا ہے۔ مجھے آزاد کشمیر اور خیبرپختونخوا کے زلزلہ زدگان کے لئے کراچی سے آنے والے ٹرکوں کی قطاریں نہیں بھولتیں‘ جو تیسرے ہی دن مری اور ایبٹ آباد جانے والی سڑکوں پر دکھائی دینے لگی تھیں۔ سیلاب زدگان کے لئے اہل کراچی کی طرف سے لگائے گئے امدادی کیمپ اور ان پر لہراتے بینر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ مگر آواران کے زلزلہ زدگان کے لئے کراچی میں جو امدادی کیمپ لگائے گئے‘ وہ اہل کراچی کے دلوں کی طرح اداس اور غمگین رہے۔ ظاہر ہوا کہ آج کراچی واقعی گہرے دکھ اور تکلیف میں ہے۔ ورنہ کہاں اس شہر کے لوگ اور کہاں اپنے تباہ حال اہل وطن کی حالت زار سے ایسی عدم توجہی؟ شاید انہیں اپنے اہل وطن سے گلہ بھی ہو کہ وہ برسوں سے ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کی وحشیانہ لوٹ مار کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور ان کے ہم وطن بے بسی کے ساتھ روزانہ اٹھنے والی لاشوں اور بین کرتے ہوئے سوگواروں کی حالت زار پر خاموش ہیں؟ یہ خیال اس وقت آیا‘ جب میں آواران کے تباہ حال زلزلہ زدگان کے لئے امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ میرے سامنے ایک چارٹ ہے‘ جسے دیکھنے کے بعد پتہ چلا کہ اس بار برائے نام ہی سہی لیکن لاہور کراچی پر بازی لے گیا۔ کراچی آبادی میں لاہور سے قریباً تین گنا زیادہ ہے اور اس کے مالیاتی وسائل لاہور سے دس گنا ہیں اور اہل کراچی امدادی اور فلاحی کاموں میں ہمیشہ لاہور پر سبقت لے جاتے رہے ہیں۔ مگر اس مرتبہ لاہور میںآواران کے زلزلہ زدگان کے لئے 342ٹن راشن جمع ہواجبکہ کراچی سے 304 ٹن راشن اکٹھا کیا جا سکا۔یہ تباہ کن زلزلہ پاکستان کے ایک غیر آباد صحرائی علاقے میں آیا تھا‘ جہاں ترقی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ وہاں کی آبادی کے لئے بھی قصبے‘ بستیاں اور دیہات طرز کی کوئی چیز موجود نہیں۔ مٹی گارے کے بنے ہوئے بے ڈھب سے گھر بے ترتیبی سے کھڑے تھے‘ جن میں سے اکثر کی چھتیں سرکنڈوں پر مٹی ڈال کر بنائی گئی تھیں۔دو دو تین تین اور اکثر دس دس میل کے فاصلے پر چند مکانوں کی چھوٹی چھوٹی آبادیاں تھیں‘ اب وہ بھی نہیں رہ گئیں۔ شدت میں یہ زلزلہ ‘ کشمیر اور ایبٹ آباد میں آنے والے زلزلے سے زیادہ تھا۔ لیکن تباہی کے اعتبار سے اس کے اثرات اس تباہ کن زلزلے کے مقابلے میں بے حد کم رہے۔ یوں تو یہ زلزلہ تین چار سو کلومیٹر کے دائرے میں آیا تھا مگر اس پورے علاقے کی آبادی صرف 3 لاکھ ہے۔ بڑی عمارتیں اور پختہ تعمیرات نہ ہونے کی وجہ سے‘ زلزلے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد تین اور چار سو کے درمیان رہی اور 1500 کے قریب افراد زخمی ہوئے۔ جومکان مکمل طور سے تباہ ہو گئے‘ ان کی تعداد 20 سے 25 ہزار کے درمیان ہے۔ لیکن متاثرین تک ضروریات زندگی کا سامان پہنچانا انتہائی مشکل ہے۔ پہلا مسئلہ تو سکیورٹی کا تھا۔ یہ علاقہ باغیوں کی آماجگاہ ہے‘ جہاں غیرملکی ایجنٹ بھی سرگرم رہتے ہیں۔ امدادی کارروائیوں کے لئے این جی اوز کو کھلے راستے دینے کا مطلب یہ تھا کہ نہ صرف اس علاقے کے سٹریٹجک نقشے بن جاتے بلکہ مقامی لوگوں سے مشکوک افراد رابطے کرنے میں بھی کامیاب ہو سکتے تھے‘ جو آگے چل کر سکیورٹی کے مسائل پیدا کر دیتے۔ اس لئے امدادی کاموں کی ذمہ داری پاک فوج کو اٹھانا پڑی۔ یہ آسان کام نہیں تھا۔ متاثرہ علاقے میں سڑکوں کا نیٹ ورک موجود نہیں۔ وہاں پر کسی قسم کی انتظامیہ کا وجود بھی نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے سردار اور مقامی معتبر علاقے کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ امن و امان کی ذمہ داری بھی مجموعی طور پر مقامی لوگوں نے ہی اٹھا رکھی ہے۔ بیرونی دنیا سے ان کے رابطے مشکل ہی سے قائم ہوتے ہیں۔ یا بااثر لوگ اپنے علاقے سے باہر جانے کی استطاعت رکھتے ہیں یا چھوٹے چھوٹے تاجر‘ جو پرانے زمانے کی طرح مل ملا کر خریداری کا انتظام کرتے ہیں۔ آواران اور گردونواح کے علاقے اپنے صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ سے زیادہ دور ہیں اور کراچی کے نزدیک۔ یہی وجہ ہے کہ جو امدادی سامان ملک بھر سے جمع کیا گیا‘ اسے پہلے کراچی پہنچایا اور وہاں سے ٹرکوں اور فوج کے ٹرانسپورٹ طیاروں میں لاد کر متاثرہ علاقوں تک لے جایا جاتاہے۔ ایک دلچسپ بات جو دیکھنے میں آئی‘ وہ یہ تھی کہ متاثرین کی اکثریت اپنے ملک کے اداروں کے بارے میں کچھ جانتی ہی نہیں ہے۔ نہ انہوں نے کبھی ڈی سی یا ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں کو دیکھا اور نہ کبھی واسطہ پڑا۔ ان کے علاقوں میں پولیس ہی نہیں پائی جاتی اور نہ ہی کسی پولیس والے کا ادھر سے گزر ہوتا ہے۔ اس انتظامی خلا کی وجہ سے‘ وہاں باغیوں نے اپنے مراکز بنا رکھے ہیں۔ جب انہوں نے پاک فوج کو مقامی لوگوں کے قریب آتے دیکھا‘ تو انہیں ڈر پیدا ہو گیا کہ سکیورٹی فورسز کا عوام کے ساتھ رابطہ نہ ہونے پائے۔ فوج ان سے مل کر اظہار ہمدردی کرے گی اور انہیں امدادی سامان دینے کے ساتھ ساتھ ان کے گھر دوبارہ بنائے گی‘ تو ان لوگوں کو احساس ہو گا کہ ریاست کیا چیز ہوتی ہے؟ اور ان کے وطن میں ‘ ان کا دھیان رکھنے کے لئے ریاست کے کتنے ملازمین اور اہل کار مامور ہوتے ہیں؟ مصیبت کے وقت میں ریاست انہیں پانی اور خوراک مہیا کرتی ہے۔ بیماریوں کی صورت میں دوائوں کا انتظام کرتی ہے اور ان کے مسمارشدہ گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لئے ان کا ہاتھ بٹاتی ہے‘ تو ریاست کا ایک فرضی اور گھنائونا تصور ان کے سامنے پیش کر کے جو نفرت پیدا کی گئی ہے‘ وہ کافور ہو جائے گی اور ان معصوم لوگوں کے رشتے اپنی ریاست سے استوار ہو جائیں گے۔ باغیوں کا یہی خوف تھا‘ جس کی وجہ سے وہ امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈال رہے تھے۔ انہوں نے امدادی ہیلی کاپٹروں پر راکٹ اور گولیاں برسائیں۔ امدادی سامان لے کر جانے والے ٹرکوں پر حملے کئے اور ایک جگہ پر تو سامان سے بھرے ہوئے 8ٹرک اغوا کر کے چھپادیئے گئے‘ جن کا آج تک پتہ نہیں چل سکا۔ فوج کو شروع میں ان مزاحمتی کارروائیوں سے کافی تکلیف ہوئی۔ لیکن پھر تجربات کی رہنمائی میں فوجی افسروں اور جوانوں نے امدادی کارروائیوں کے تحفظ کا ایک نظام قائم کر لیا۔ اب وہ مسلح ہو کر قافلوں کی صورت میں سفر کرکے متاثرین تک پہنچتے ہیںاور جب انہیں ضروریات زندگی کا سامان پیش کر کے اظہار ہمدردی کرتے ہیں‘ تو پہلی بار وطن کے فراموش کردہ یہ بیٹے بیٹیاںاس رشتے کو چھو کر دیکھتے ہیں جو درحقیقت 18کروڑ اہل وطن کے ساتھ برقرار رکھنا ان کا حق ہے۔ ابتداء میں قدرتی دشواریوں کی وجہ سے تمام متاثرین تک پہنچا نہیں جا سکا تھا۔ مگر اب قریباً سارے متاثرین تک امدادی سامان پہنچانے کا بندوبست ہو چکا ہے۔ باغی‘ پاک فوج اور متاثرین کے درمیان رابطوں کو روکنے کے لئے شروع میں کچھ کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن عوام کو مطمئن دیکھ کر ان کے حوصلے پست ہو گئے اور اندیشہ پیدا ہو گیا کہ امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں ڈالنے والوں کے خلاف‘ عوام کہیں خود ہی نہ اٹھ کھڑے ہوں؟ اس لئے باغیوں کی سرگرمیاں بڑی حد تک کم ہوتی جا رہی ہیں۔ زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے بہت سے اہل درد حصہ ڈالنے کے لئے کوشاں ہیں۔ جن میں بحریہ کے ملک ریاض حسین پیش پیش ہیں۔ بحریہ کے ادارے سے تعلق رکھنے والے کارکن ‘ متاثرہ علاقوں میں صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ خیال ہے کہ تباہ شدہ رہائشی سہولتوں کی ازسرنوتعمیر کا سلسلہ جلد شروع ہو جائے گا۔ ممکن ہے پرانے اور غیرمعیاری گھروں کی بجائے‘ نئے اور مضبوط گھر تعمیرہونے لگیں۔ وہاں کافی گہرائی سے پانی بھی دستیاب ہے۔ یہ سہولت مہیا کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ہلال احمر اور بعض دیگر پاکستانی امدادی گروپ بھی وہاں پہنچنے لگے ہیں اور پاکستان سے جو اکادکا ٹی وی چینل متاثرہ علاقوں میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے‘ ان میں ’’دنیا نیوز‘‘ سرفہرست ہے۔ اس پر ’’دنیا نیوز‘‘کے کارکنوں کو فخر کرنا چاہیے۔ اس آفت میں سے جو خیرکا پہلو دکھائی دے رہا ہے‘ وہ ہے فراموش کردہ اہل وطن کا اپنی ریاست کے ساتھ پہلا رابطہ۔ریاست ‘ جسے ماں جیسی ہونا چاہیے‘ وہ اپنے فراموش کردہ بلکہ گم شدہ بچوں تک پہنچنے میں پہلی بار کامیاب ہوئی۔امید ہے‘ یہ دوبارہ نہیں بچھڑیں گے بلکہ ان کی محبت کے رشتے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved