فطرتِ سلیم ہو تو وہ ظلم کو گوارا نہیں کرتی۔ مظلوم کو اپنی حمایت کے لیے تحریک اٹھانے کی حاجت نہیں ہوتی۔ انسان اس کی تائید میں نکلتے ہیں۔ اگر یہ ان کے بس میں نہ ہو‘ ان کی آنکھیں برستی ہیں اور دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ فلسطین میں جب غیرمحارب بچے اور عورتیں مرتے ہیں تو یہ فطرتِ سلیم مشرق میں ہو یا مغرب میں‘ احتجاج کرتی ہے۔ یہ احتجاج مگر کیا اس کو لازم کرتا ہے کہ حماس کی حکمتِ عملی پر مہرِ تصدیق ثبت کی جائے؟ کیا یہ بھی اس کا بدیہی نتیجہ ہے کہ اس عالمی سیاسی نظام کو یکسر مسترد کر دیا جائے جو اقوامِ عالم میں امن کو قائم رکھنے کے لیے وجود میں آیا تھا؟ کیا اس خیر کو بھی مسترد کر دیا جائے جو شر کے پہلو بہ پہلو چلتا ہے؟
سوالا ت کچھ اور بھی ہیں۔ مثلاً امریکہ نے کبھی کوئی اچھا قدم اٹھایا ہے تو اس کے اعتراف میں کیا اس کے ظلم کو ظلم نہ کہا جائے؟ اسرائیلی اقدامات کو حماس کی غلط حکمتِ عملی کا نتیجہ قرار دے کر اس کے ظلم کو سندِ جواز فراہم کر دی جائے؟ جب زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہو اس وقت وعظ و نصیحت کا تازیانہ اٹھا لیا جائے؟
آج مسلم دنیا پراگندگی ٔفکر کا شکار ہے۔ افراط و تفریط ہے۔ ہمیں اپنے پروردگار کی طرف سے ہر حال میں عدل پر قائم رہنے کی جو تلقین کی گئی ہے‘ اسے نظر انداز کیا جاتا ہے اور عصبیت کی بنیاد پر مؤقف اپنائے جاتے ہیں۔ یہی نہیں‘ اس حکمت سے بھی صرفِ نظر کیا جاتا ہے جو ہم قدم نہ ہو تو انسان تضادات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان تضادات سے وہ سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ان تضادات کو دور کیا جائے کہ ان کے ساتھ دل کا اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔
تاریخ جب سلطنتوں کے عہد سے نکل کر قومی ریاستوں کے دور میں داخل ہوئی تو اقوامِ عالم کے مابین امن قائم رکھنے کے لیے عالمی سطح پر ایک سیاسی بندو بست اختیار کیا گیا۔ یہ اقوامِ متحدہ کا قیام ہے۔ اس نے عالمی امن‘ اقوام کی خود مختاری اور سالمیت کے تحفظ کے لیے کچھ اصول وضع کیے اور کچھ ادارے بنائے۔ اس کے ساتھ اہلِ اقتدار کے عزل و نصب کے لیے عوام کی رائے کو واحد جائز طریقے کے طور پر مستحکم کیا اور جمہوری اقدار کو فروغ دیا۔ یہ انسانی تہذیب کی ایک اہم پیش رفت تھی جس پر اگر عمل کیا جائے تو عالمِ انسانیت کو فساد سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ اس ادارے کے سبب فساد میں کمی آئی۔ ماضی کی طرح یہ ممکن نہیں رہا کہ ایک طاقتور کمزور پر چڑھ دوڑے اور اسے کسی محاسبے کا خوف نہ ہو۔
اس کے باوصف یہ بندوبست دنیا کو پوری طرح امن فراہم نہیں کر سکا۔ جسے ہم مسئلہ فلسطین کہتے ہیں‘ وہ اسی کا عطا کردہ ہے۔ اسی نظام نے ایک قوم کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے مذہب کی اساس پر اسرائیل نام کی ایک ریاست قائم کی۔ نہ صرف قائم کی بلکہ اس کے تحفظ کے لیے خود اپنے وجود اور اصولوں کی بار ہا نفی کی۔ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کو ان طاقتور ملکوں نے ماننے سے انکار کیا جو اس کی بنیاد رکھنے والے تھے۔ یہ صرف فلسطین کے ساتھ نہیں ہوا‘ دنیا میں اور کئی مقامات پر طاقتوروں نے اس ادارے کو عملاً مسترد کر دیا۔ بھارت نے اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر میں اس عالمی بندوبست کو پر ِکاہ کے برابر اہمیت نہیں دی اور اس کے ایک حصے کو بھارت کی ریاست میں ضم کر دیا۔ کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور نہ ہی اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کو توڑا۔
امریکہ نے اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی اقوامِ متحدہ کی 42 قرار دادوں کو ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے غیرمؤثر بنا دیا۔ اس میں دوسری عالمی طاقتوں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ عراق پر سلامتی کونسل کی مخالفت کے باوصف ایک جھوٹ گھڑ کر حملہ کیا۔ امریکہ نے جمہوری اقدار کے ساتھ وابستگی کو بھی اپنے ریاستی مفادات کے تابع رکھا۔ بادشاہتوں اور فوجی آمریتوں کو تحفظ دیا۔ یہی نہیں‘ سوویت یونین کے خلاف مذہب کا بے دریغ استعمال کیا جس کے نتیجے میں وہ عالمگیرکلچر وجود میں آیا جس نے خیر کی ایک قوت کو فساد کی علامت بنا دیا۔ اس وقت دنیا میں جو فساد برپا ہے اس میں امریکہ کا کردار قائدانہ ہے۔
دوسری طرف اہلِ فلسطین کی قیادت ان گروہوں کے ہاتھوں میں رہی جنہوں نے اپنے جائز حق کے لیے مسلح جدوجہد اور تشدد کو بطور حکمتِ عملی اختیار کیا۔ پی ایل او اور پھر حماس اس کے بڑے مظاہر ہیں۔ اس طرزِ عمل نے نہ صرف فلسطین کے مقدمے کو کمزور کیا بلکہ ان کے لیے خود ان کی اپنی زمین سکڑتی چلی گئی۔ ان تنظیموں نے اپنے مراکز عام بستیوں میں قائم کیے اور یوں ان پر اسرائیل کی بمباری کو جواز فراہم کیا۔ 1948ء میں ان کو جو کچھ مل سکتا تھا وہ آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اب وہ اپنی سرزمین پہ اجنبی ہو چکے ہیں۔ عرب ان کو چھوڑ گئے اور آج وہ مشرقِ وسطیٰ پر سیاسی قبضے کی جنگ میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
عالمِ اسلام میں موجود فلسطینیوں کے خیر خواہوں نے انہیں درست مشورہ نہیں دیا۔ اسلامی تحریکوں نے تشدد کی حمایت کی۔ اس معاملے کو دینی نقطۂ نظر سے سمجھا گیا نہ سیاسی حکمتِ عملی کے حوالے سے۔ اس سوال کا جواب نہیں دیا جا سکا کہ جس اسرائیل کی تائید میں عالمی طاقتیں کھڑی ہیں‘ اس کا مقابلہ محض گوریلا جنگ سے کیسے کیا جا سکتا ہے؟ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ سے واضح ہو گیا تھا کہ اگر عربوں کو یہ معرکہ لڑنا ہے تو انہیں بڑی تیاری کی ضرورت ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ فلسطینی خود کو منظم نہیں کر سکے۔ ان کے سیاسی و نظریاتی اختلافات آج تک قائم ہیں اور بارہا پُرتشدد واقعات کو جنم دے چکے ہیں۔ اس سوال کا جواب بھی نہیں مل سکا کہ ایک منتشر قوم‘ ایک منظم ریاست کے خلاف آزادی کا معرکہ کیسے سر کر سکتی ہے؟
آج چند باتیں واضح ہیں۔ ایک یہ کہ اس وقت دنیا میں جو فساد برپا ہے اس میں سب سے بڑا کردار امریکہ کا ہے‘ جس طرح ماضی میں برطانیہ اور سوویت یونین جیسی قوتوں کا رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ اہلِ فلسطین کی حکمتِ عملی دینی‘ اخلاقی اور عقلی اعتبار سے غلطی ہائے مضامین کا مجموعہ ہے جس نے عام فلسطینی کے لیے مسائل میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ تیسرا یہ کہ امتِ مسلمہ کا کوئی سیاسی تصور آج موجود نہیں۔ مسلمانوں کی قومی ریاستیں ہیں اور وہ اپنے اپنے مفاد میں سوچتی ہیں۔ اگر یہ صورتحال بر قرار رہتی ہے تو مستقبل قریب میں اس مسئلے کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔
اکتوبر میں جو فساد شروع ہوا‘ معلوم ہوتا ہے کہ تمام بدنامی مول لے کر اسرائیل نے اسے ایک ایسے موقع میں بدلنا چاہا جب وہ فلسطینیوں میں عملی مزاحمت کو کم از کم اگلے ایک عشرے تک غیرمؤثر بنا دے۔ انسانی بستیوں کو تاراج کر کے ان مراکز کا خاتمہ کر دے جہاں مسلح تنظیموں کی پناہ گاہیں ہیں۔ اس میں امریکہ اس کے ساتھ ہم قدم ہے۔ اس کے مقابلے میں کوئی جوابی حکمتِ عملی دکھائی نہیں دیتی۔
واحد حل ایک ہی ہے۔ عرب امریکہ سے براہِ راست مذاکرات کریں اور اس کے نتیجے میں اسرائیل اور اہلِ فلسطین کو ایک حل پر آمادہ کریں۔ اس سے پہلے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ بھی ہوا لیکن اس میں صرف مصر شریک تھا اور پی ایل او۔ اس بار اس کو وسعت دی جائے۔ یہ اگرچہ آسان نہیں مگر مجھے کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے مفادات اور جذبات کی تسکین چاہتے ہیں یا اہلِ فلسطین پر ہونے والے ظلم کا خاتمہ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved