خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے ایک حالیہ انٹرویو میں پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات پر زور دیا ۔انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کے2021ء میں کابل میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا دفاع بھی کیا ۔ افغان طالبان کی عبوری حکومت کے نائب وزیر داخلہ بھی رواں ماہ کے شروع میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کو جنگ کے بجائے مذاکرات کے ذریعے باہمی اختلافات کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ اس پر دفتر خارجہ نے حکومتی مؤقف پیش کرتے ہوئے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان طالبان پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا مشورہ دینے کے بجائے ٹی ٹی پی کے خلاف فوری کارروائی کریں کیونکہ یہ کالعدم تنظیم پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان سے ملحق افغان سرحدی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں اور اس کے مسلح جنگجو سرحد پار کر کے پاکستان کی فوجی اور پولیس چوکیوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ان حملوں کو روکنے اور ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات کے مطالبے کے باوجود افغان طالبان نے کبھی تعاون نہیں کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف تو پاکستان میں دہشت گردی کا منبع ہی افغانستان کو قرار دے چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین اقوامی ادارے بھی پاکستان کے ان الزامات کی تصدیق کر چکے ہیں اور ان کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں نہ صرف ٹی ٹی پی بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں مثلاً القاعدہ اور داعش وغیرہ کے جنگجو بھی موجود ہیں۔ القاعدہ اور ٹی ٹی پی افغانستان میں نیٹو افواج کے خلاف طویل جنگ میں افغان طالبان کے شانہ بشانہ لڑتی رہی ہیں‘ اسی لیے ان پرانے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں افغان طالبان مشکل محسوس کر رہے ہیں مگر پاکستان کیلئے یہ مسئلہ بڑا حساس نوعیت کا ہے۔ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی اور خود کش حملوں کی متعدد کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ اس کے خلاف جب 2014ء میں پشاور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد فوجی آپریشن کیا گیا تو بیشتر افراد بھاگ کر افغانستان چلے گئے اور امریکی اور افغان نیشنل آرمی کے خلاف افغان طالبان کی صفوں میں شامل ہو گئے۔ پاکستانی حکام اس امر سے باخبر ہونے کے باوجود توقع لگائے بیٹھے تھے کہ افغانستان میں برسر اقتدار آ کر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی اجازت نہیں دیں گے‘ تاہم افغان طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان اور ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز پر بٹھا دیا۔ یکم اکتوبر2021ء کو وزیر اعظم پاکستان نے ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ کابل میں افغان طالبان کی وساطت سے پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کچھ عرصے سے جاری ہیں۔ بعد ازاں نومبر 2021ء میں اُس وقت کے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے بھی کابل میں ان مذاکرات کی تصدیق کی اور بتایا کہ فریقین کا عارضی جنگ بندی پر سمجھوتا ہو گیا ہے لیکن کن شرائط پر ہوا ہے اور ٹی ٹی پی کے مطالبات کیا ہیں اور ان کے بارے میں پاکستان کا کیا مؤقف ہے‘ یہ باتیں صیغہ راز میں رہیں۔ جون 2022ء میں کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود نے بھی ایک انٹرویو میں تصدیق کی کہ کابل میں پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جاری مذاکرات افغان طالبان کی نگرانی میں ہوئے۔اس انٹرویو میں نور ولی محسود نے یہ بھی بتایا کہ خیبر پختونخوا کے قبائلی سرداروں اور علما پر مشتمل 57 رکنی وفد مذاکرات میں حصہ لے رہا تھا لیکن ان مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا کیونکہ ٹی ٹی پی نے سابقہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے فیصلے کی تنسیخ کو اپنا بنیادی مطالبہ قرار دیا تھا۔ پاکستان نے ٹی ٹی پی کا یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہ ہونے پر ٹی ٹی پی نے نومبر 2022ء میں جنگ بندی ختم کرکے نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی سکیورٹی فورسز‘ پولیس‘ سرکاری تنصیبات اور چیک پوسٹوں کو اپنے حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان نے جنگ بندی کے خاتمے کی ذمہ داری حکومتِ پاکستان پر ڈالتے ہوئے کہا کہ مذاکرات میں حصہ لینے والے پاکستانی وفد نے ان سے چند وعدے کیے تھے ‘ ان وعدوں کو پورا کرنے میں ناکامی جنگ بندی کے خاتمے کا باعث بنی۔ ان وعدوں میں افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ان کے اہلِ خانہ سمیت خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں واپس آ کر آباد ہونے کی اجازت بھی شامل تھی مگر مقامی آبادی اور پی ڈی ایم حکومت نے نہ صرف ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو واپس قبائلی علاقوں میں آباد ہونے کی اجازت نہ دی بلکہ ٹی ٹی پی کی طرف سے سکیورٹی فورسز پر حملوں کی تیزی کے پیشِ نظر مذاکرات کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع کرنے سے انکار کر دیا۔
اس وقت بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات پر پاکستان کا مؤقف وہی ہے جس کا اظہار سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے جنوری 2023ء میں واشنگٹن پوسٹ کے ایک انٹرویو میں کیا تھا کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت‘ دونوں کا یہ واضح اور قطعی مؤقف ہے کہ جو دہشت گرد تنظیم ملک کے آئین اور قانون کا احترام نہیں کرتی اس سے کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔ اسی طرح سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بھی جون 2023ء میں واضح طور پر کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت صرف اس صورت ممکن ہے کہ وہ ہتھیار پھینک کر پاکستان کے آئین کو تسلیم کر لے لیکن ٹی ٹی پی ایسا کرنے پر تیار نہیں۔ اس لیے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی اور اس کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی جاری ہے‘ لیکن یہ کارروائی جس حکمت عملی کے تحت کی جا رہی ہے اس کی دو بڑی فالٹ لائنز ہیں‘ ایک یہ کہ ہم نے افغان طالبان سے غلط اور غیرحقیقت پسندانہ توقعات وابستہ کیں اور ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ کابل کی عبوری انتظامیہ ٹی ٹی پی کے خلاف اقدام کرے گی۔ سابق وزیراعظم کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر نے نومبر 2021ء میں ایک مقامی چینل کے ساتھ انٹرویو میں اس ڈاکٹرائن کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ کابل پر افغان طالبان کے قبضہ سے پہلے ٹی ٹی پی دس پندرہ سال سے افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی اور بھارت سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے امداد حاصل کر رہی تھی لیکن افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ہمارا خیال تھا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کا سپورٹ بیس ختم ہو گیا ہے کیونکہ افغان طالبان کا رویہ پاکستان کے بارے میں معاندانہ نہیں تھا‘ تاہم ٹی ٹی پی نہ صرف افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے بلا روک ٹوک استعمال کر رہی ہے بلکہ افغانستان سے جاتے ہوئے امریکی جن جدید اور مہلک ہتھیاروں کو چھوڑ گئے تھے و ہ بھی ٹی ٹی پی کے قبضے میں ہیں۔ دوسرے یہ کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کی دہشت گردی سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ٹی ٹی پی کے مائنڈ سیٹ کی موجودگی ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ مل کر 10 سال تک امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف جنگ میں حصہ لے کر ٹی ٹی پی کے جنگجو انتہائی تربیت یافتہ اور جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ اس کے باوجود ہماری سکیورٹی فورسز بڑی بہادری اور کامیابی سے ان کا مقابلہ کر رہی ہیں مگر ہمارے معاشرے میں ٹی ٹی پی کا جو مائنڈ سیٹ سرایت کر چکا ہے اس کا تدارک کرنے کیلئے مؤثر اقدامات نہیں کیے گئے۔ قومی اتفاقِ رائے کی عدم موجودگی کا ٹی ٹی پی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ بیرسٹر سیف کا بیان اس مسئلے کی واضح نشاندہی کر رہا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved