جذباتی باتیں‘ جوشیلی تقاریر اور مرنے مارنے کی باتیں سننے میں تو بہت اچھی لگتی ہیں لیکن جن پر جنگ مسلط ہوجاتی ہے ان کے دکھ‘ خوف اور مسائل صرف و ہی جانتے ہیں۔ ہمارے نزدیک کوئی شرارت سے پٹاخہ ہی چلا دے تو کتنی دیر آواز کانوں میں گونجتی رہتی ہے۔ 'اگر یہ ہمیں جلا دیتا‘ ایسی سوچیں بہت دیر تک دماغ میں کلبلاتی رہتی ہیں‘توایسے خطے جو بہت عرصے سے جنگ کی لپیٹ میں ہیں‘ سوچیں انکے عوام پر اسکاکیا نفسیاتی اثر پڑا ہوگا‘ وہ کتنا خوف محسوس کرتے ہوں گے۔ ہر وقت موت سر پر منڈلا رہی ہو‘ اردگرد تباہی ہورہی ہو‘ ہمسایہ ملکوں نے اپنے بارڈرز بند کیے ہوں‘ کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہو تو کیسا محسوس ہوتا ہوگا؟ پھر بھی دنیا میں بہت سے لوگوں کا مشغلہ جنگ ہے اور بہت سوں کیلئے یہ کاروبار ہے کیونکہ اسلحہ سازی ایک صنعت ہے اور لوگ جنگوں سے بھی پیسہ بناتے ہیں۔
ماضی پر نظر ڈالیں تو پہلی عالمی جنگ ایک ایسی جنگ تھی جو کئی براعظموں تک پھیل گئی تھی۔ اس جنگ کی شروعات ایک قتل سے ہوئی تھی۔ یہ عام قتل نہیں تھا‘ہیپس برگ ایمپائر کے شہزادے فرانز فرڈیننڈ کو اس کی اہلیہ صوفی سمیت قتل کردیا گیا تھا۔ اس قتل کے بعد ہنگری اور آسٹریا نے سربیا کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ سربیا پر حملہ ہونے کے بعد روس اس کی مدد کو آیا تو آسٹریا اور ہنگری کی حمایت کیلئے جرمنی میدان میں کود پڑا اور فرانس پر حملہ کردیا۔ یوں یہ جنگ پورے یورپ میں پھیل گئی اور برطانیہ بھی اس میں شامل ہوگیا۔ البتہ اس جنگ کو محض ایک شہزادے کے قتل کا نتیجہ قرار دینا مکمل طور پر درست نہیں ہے‘ تمام ممالک کے اپنے اپنے سیاسی عزائم تھے جس کی وجہ سے وہ اس جنگ میں شریک ہوئے۔ آسٹریا ‘ہنگری اور جرمنی اس بات سے آگاہ تھے کہ سربیا پر حملہ روس کو بھی جنگ میں دھکیل دے گا‘ بعد میں برطانیہ بھی جنگ کا حصہ بن گیا۔ یوں کچھ لیڈرز اور فوجی افسران کے جنگی عزائم نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 28 جون 1914 ء کو ہنگری کے شہزادے کوبوسنیا میں قتل کیا گیا ‘ اس کے ایک ماہ کے اندر اندر جنگ شروع ہوگئی۔ 28 جولائی 1914ء کو اس جنگ کا آغاز ہوا اورقوم پرستی‘ نسلی تفاخر اور اسلحہ کی دوڑ نے اس جنگ کو مزید بھڑکا دیا۔ یہ یورپ سے ایشیا‘ افریقہ اور مشرقِ بعید کے ممالک تک پھیل گئی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو بھاری نقصان ہوا۔ اس جنگ کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ تقسیم ہونا شروع ہوگئی۔اس جنگ میں فرانس ‘برطانیہ‘ روس‘ امریکہ‘ اٹلی اور جاپان کے مدمقابل جرمنی‘ آسٹریا‘ ہنگری‘ بلغاریہ اور سلطنتِ عثمانیہ تھے۔ اس جنگ میں برصغیر کے مسلمانوں نے بھی حصہ لیا کیونکہ اُس وقت ہندوستان پر انگریزوں کا راج تھا۔ خداد اد خان وہ واحد ہندوستانی سپاہی تھا جس کو 'وکٹوریہ کراس‘ سے نوازا گیا۔ اس جنگ میں 80لاکھ فوجی اور ساٹھ لاکھ سویلین مارے گئے۔ پہلی عالمی جنگ کے آغاز میں امریکہ اس جنگ میں شریک نہیں تھا لیکن بعد میں وہ بھی اتحادی قوتوں کا حصہ بن گیا۔ اس جنگ میں جانی نقصان کے علاوہ مالیاتی نقصان بھی ہوا اور جغرافیائی تبدیلیاں بھی آئیں۔ 1918ء میں جنگ بندی ہوئی۔ جنگ میں اسلحہ‘ گولہ بارود اور زہریلی گیسوں کا بے دریغ استعمال ہوا۔ متعدد علاقوں میں بیماریاں اور وبائیں پھوٹ پڑیں اور قحط کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ یہی جنگ بعد ازاں دوسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جو اس سے بھی زیادہ ہولناک تھی۔
پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد جرمنی پر جنگی تاوان اور سخت معاشی پابندیاں عائد کر دی گئیں جس کی وجہ سے وہاں ہٹلر جیسے قوم پرست لیڈر کو ابھرنے کا موقع ملا۔ 1939ء میں ہٹلر کی سربراہی میں جرمنی نے ہالینڈ پر حملہ کر دیا جس سے دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس جنگ میں سات سے آٹھ کروڑ ہلاکتیں ہوئیں۔ ہولو کاسٹ جیسی نسل کشی اور ایٹمی حملہ جیسی سفاکی بھی اس میں شامل ہے۔ یہ جنگ 1945ء تک جاری رہی۔ اس جنگ میں پہلی بار جنگی جہازوں کا استعمال ہوا‘ دشمن فوجوں کے علاوہ شہریوں پر بھی بم گرائے گئے‘شہروں کے شہر ملیا میٹ ہو گئے۔ پولینڈ کی شکست کے بعد جرمن فوج نے ناروے‘ ڈنمارک‘ ہالینڈ‘ بلجیم‘ لکسمبرگ اور فرانس پر بھی حملہ کردیا۔ اس کے بعد جرمنی نے برطانیہ پر حملہ کیا جوکہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس جنگ میں جرمنی‘ جاپان اور اٹلی اتحادی تھے اور ان کے مدمقابل برطانیہ‘فرانس‘ پولینڈ اور نوآبادتی ممالک‘ پھر ہالینڈ اور بلجیم بھی اتحاد میں شامل ہوگئے۔ اس کے بعد سوویت یونین اور امریکہ بھی اس جنگ کا حصہ بن گئے۔ ہٹلر نے سٹالن کے ساتھ معاہدہ توڑ کر سوویت یونین پر حملہ کردیا اور جاپان نے امریکہ اور برطانیہ پر حملہ کردیا۔ جاپانی فضائیہ نے امریکی بحری اڈے پرل ہاربر پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں پانچ امریکی بحری جہاز تباہ ہوگئے۔ یہ حملہ اتنی شدت سے کیا گیا کہ اس میں 2400 امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور سو کے قریب جاپانی فوجی بھی مارے گئے۔ یہ حملہ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کی شمولیت کا باعث بنا۔ متحدہ فوج نے اٹلی میں اقتدار چھین لیا اور فرانس کو قبضے سے چھڑوایا۔ برطانوی افواج نے پھر جرمنی پر بمباری کی اور 1945 ء میں سوویت فوجی اور اتحادی برلن میں داخل ہو گئے۔ چھ اور نو اگست 1945ء کو امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر اٹیم بم گرائے جن سے غیر معمولی اور طویل مدتی تباہی ہوئی اور جاپان کے اعترافِ شکست سے جنگ کا اختتام ہوگیا۔ یہ اتنی خوفناک جنگ تھی کہ لاکھوں افراد ہلاک اور لاکھوں عمر بھر کیلئے معذور ہو گئے۔ ہنستے بستے شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے۔ اس جنگ کے بعد امریکہ اور روس‘ دو نوں عالمی طاقتیں بن کر ابھرے اور اقوامِ متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔ اسی دوران فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کرکے جنگ کے اختتام کے کچھ عرصہ بعد اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ صہیونی ریاست اس وقت سے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہی اور ان کی منظم نسل کشی کررہی ہے‘ مگر امت ِمسلمہ مل کر اس نسل کشی کے خلاف کچھ نہیں کررہی۔ اکیسویں صدی بہت بھاری رہی ہے۔ پہلے افغانستان تباہ ہوا‘ پھر عراق‘ شام‘لیبیا‘ عرب اور افریقی ممالک اور اب غزہ کی تباہی جاری ہے لیکن سب چپ ہیں۔ اب ایران نے اسرائیلی جارحیت کا جواب دیا ہے تو عالمی ادارے اور مغربی طاقتیں صرف ایران کو موردِالزام ٹھہرا رہی ہیں۔ آخر ان کو اسرائیل کا جنگی جنون کیوں نہیں نظر آتا؟ حال ہی میں کچھ کولیگز ایران کا دورہ کرکے آئے ہیں‘ انہوں نے بتایا کہ ایران بالکل بھی ویسا نہیں ہے جیسا مغربی دنیا اس کو پیش کرتی ہے۔ یہ ایک جدید ملک ہے جو اپنے وسائل کو بروئے کار لاکر ترقی کررہا ہے اور مردوں کے ساتھ خواتین بھی ملکی ترقی میں شانہ بشانہ حصہ لے رہی ہیں۔ ایران کا اسرائیل پر حملہ دمشق حملے کا نتیجہ ہے اور ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سالمیت اور بقا کیلئے اپنا دفاع کرے۔ گزشتہ شب اسرائیل نے ایران پر جوابی حملہ کیا۔ اگر یہ جنگ مزید پھیل گئی تو کیا ہوگا؟ امریکہ ‘برطانیہ اور سارا یورپ اسرائیل کا اتحادی بن جائے گا ‘ایران کے ساتھ کون کھڑا ہوگا؟ دعا ہے کہ کسی نئی عالمی جنگ کا آغاز نہ ہو‘ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کیساتھ جنگیں نہیں لڑی جاسکتیں۔ جنگیں صرف وہ لڑ سکتے ہیں جن کے پاس جدید ہتھیار اور جدید ٹیکنالوجی ہو۔ جن کے پاس میڈیا کی طاقت ہو۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ فیس بک پر ایران یا فلسطین لکھو تو وہ پوسٹ ہی بلاک ہو جاتی ہے کہ یہ سوشل میڈیا سائٹس بھی انہی کی ہیں۔ ہمارے ملک کی تو اکانومی بھی آئی ایم ایف کی بدولت چلتی ہے‘ ہم کیسے خودمختار فیصلے کر سکتے ہیں؟ کسی نئی جنگ کو شروع نہیں ہونا چاہیے‘ یہ بہت خوفناک ہو گی۔ اسوقت صرف یہ کوشش ہونی چاہیے کہ غزہ کے مسلمانوں کو صہیونی بربریت سے بچایا جائے۔ جنگ شروع کرنا آسان ہے لیکن ختم کرنا بہت مشکل۔ جو تنازعات پہلے سے موجود ہیں دنیا ان کو حل کرے‘ نئی جنگوں کی طرف ہمیں نہ دھکیلیں‘ ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved