وفاقی شرعی عدالت نے سود کو حرام قرار دیا تو 30جون1992ء کو اس وقت کی حکومت اللہ کے اس فرمان سے بھاگتے ہوئے‘ جسے شرعی عدالت نے نافذ کرنے کے لیے کہا تھا‘ سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے چلی گئی۔ حکومتیں آتی اور جاتی رہیںلیکن سات سال سود کے حق میں حکومتی مؤقف قائم رہا۔ بے نظیر اور نواز شریف دونوں کی حکومتیں قرآن پاک میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سود کے خلاف اعلانِ جنگ کے باوجود انتہائی ’’جرأت اور دلیری‘‘سے اپنے مؤقف کا دفاع کرتی رہیں۔ گیارہ سو صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کرنے سے قبل سپریم کورٹ نے ایک سوالنامہ جاری کیا جس کا جواب سرتاج عزیز صاحب نے بھی جمع کرایا۔ ان جوابات کے بعد سپریم کورٹ کا ان کے خلاف فیصلہ حق کی فتح تھی، لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ جوابات دیتے ہوئے انہوں نے خود کو اٹھارہ کروڑ عوام کا ترجمان قرار دے دیا۔یہی وہ تصور ہے جو اس پورے جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔ایک الیکشن کے بعد چار سو لوگ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن جاتے ہیں۔ یہ چار سو ارکان پارلیمنٹ اپنے اندر یہ مضبوط تصور رکھتے ہیں کہ جو ان کی اکثریت یا ان کا پارٹی لیڈر سوچتا ہے وہی سوچ عوام کی ہے۔وہ اگر امریکہ کی غلامی کرنا چاہتا ہے تو ساری قوم کی رائے بھی یہی ہے، وہ اگر بھارت سے دوستی چاہتا ہے تو اٹھارہ کروڑ عوام بھی اس کے لیے بے تاب ہیں۔ اسے اگر حجاب اور پردے سے نفرت ہے تو پوری قوم بھی اس ’’فرسودہ‘‘ چیز کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہی وہ تصور ہے جو پوری دنیا کی جمہوریتوں میں راسخ کیا گیا ہے۔ چار سو لوگ منتخب ہونے کے بعد پوری قوم سے پوچھے بغیرانہیں اربوں ڈالرکا مقروض کردیں، انہیں دوا اور تعلیم کی ضرورت ہو لیکن ان کے پیسے سے ائرپورٹ،موٹروے یا شاندار یادگاریں تعمیر کردیں‘ آمرانہ مزاج کہ ہمیں عوام نے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے تو پانچ سال تک ہم جو چاہے کریں‘ ہمیں اس کا مکمل اختیار ہے، نہ عدالت ہمارے اس اختیار میں مداخلت کرسکتی ہے اور نہ ہی عوام کا احتجاج ہمارے ارادوں کو بدل سکتا ہے۔ یہی وہ تصور تھا کہ سرتاج عزیز صاحب سے جب سپریم کورٹ نے یہ سوال کیا کہ ’’حکومت اور اس کے زیر اثر ادارے پرائز بانڈوں اور سرٹیفیکیٹس کے ذریعے عوام سے قرض لیتے ہیں اور اس پر لوگوں کو لگابندھا یعنی’’فکسڈ‘‘ منافع دیتے ہیں۔ کیا یہ منافع سود کے زمرے میں نہیں آتا؟‘‘ تو اس کے جواب میں سرتاج عزیز صاحب نے پہلے تو یہ کہا کہ چونکہ عوام محکوم ہیں اور حکومت حاکم، اس لیے عوام اس طرح کا منافع وصول کرتے ہوئے کوئی استحصال نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ کسی حکومت کا استحصال کرسکیں۔ سود کا اصل مقصد استحصال کرنا ہے جبکہ عوام کسی سود خور کی طرح حکومت کو نہ تنگ کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس پر کوئی جبر کر سکتے ہیں ،اس لیے یہ منافع سود نہیںہے۔ یوں تو یہ منطق ہی کمال کی ہے لیکن وہ فقرہ جس سے جمہوری استبداد کا اظہار اور اٹھارہ کروڑ عوام کی توہین ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے۔ میں یہ فقرہ انگریزی میں درج کررہا ہوں کہ غلط فہمی نہ ہو(It would be difficult for the Government to borrow on Musharka or other Islamic modes, because most citizens who want to invest their savings in Government saving schemes on bonds, want a predetermined and fixed return) ’’حکومت کے لیے مشکل ہے کہ وہ مشارکہ یا دیگر اسلامی طریقوں سے قرض حاصل کرے کیوں کہ شہریوں کی اکثریت‘ جو اپنی بچت حکومتی سکیموں یا بانڈز میں لگاتی ہے‘ پہلے سے طے شدہ لگا بندھا یعنی فکسڈ منافع حاصل کرنا چاہتی ہے‘‘ یہ ہے وہ رائے جو انہوں نے اٹھارہ کروڑ عوام کی اکثریت کی بنیاد پر عدالت عالیہ میں دی تھی۔ ایسے کسی شخص سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ آپ نے یہ رائے کیوں اور کیسے دی تو وہ سینہ پھلا کر کہے گا کہ عوام نے مجھے منتخب کیا ہے، ووٹ دیا ہے‘ اس لیے مجھے یہ اختیار جمہوری طور پر حاصل ہے کہ میں ان کی جس طور پریا جس طرح چاہے ترجمانی کروں۔ اس ترجمانی کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں وہ لوگ‘ جو اپنی بچت حکومتی سکیموں میں لگاتے ہیں‘ سب کے سب یا ان کی اکثریت سود کھانا اور اس پر اپنا گزر اوقات کرنا جائز خیال کرتی ہے۔ یہ اتنی بڑی رائے تھی جس کا علم ان لاکھوں افراد کو شاید آج تک نہ ہوا ہو جو ان سکیموں میں سرمایہ لگائے ہوئے ہیں اور جن کی اکثریت کے بارے میں سپریم کورٹ میں اس وقت کے وزیر خزانہ نے دو تہائی جمہوری مینڈیٹ کے بل بوتے پر کہہ دیا کہ یہ سب سود کھانا چاہتے ہیں اور کسی ایسی بچت سکیم میں حصہ لینا نہیں چاہتے جس میں نقصان کا اندیشہ بھی شامل ہو۔ جمہوریت ،جمہوری اداروں اور جمہوری سیاست کی یہی معراج ہے کہ آپ ایک دفعہ الیکشن کروادو اور پھر منتخب ہونے والے شخص کے منہ سے جو بھی نکلے گا وہ عوام کی مسلمہ رائے سمجھی جائے گی۔ آپ ا ن کے بیانات دیکھ لیں، آپ ان کی پارلیمنٹ میں گفتگو ملاحظہ کر لیں یا ٹیلی ویژن کے مذاکروں میں گفتگو، آپ کو ایسے ہی کمال کے دعوے سننے کو ملیں گے۔ ہمیں عوام نے ووٹ دیا ہے‘ ہمیں پتا ہے وہ کیا چاہتے ہیں۔ یہی وہ خمار ہے جس کی بنیاد پر یہ لوگ جیسا چاہے فیصلہ کر گزرتے ہیں۔ سیکولر سٹیٹ ماڈل اور جمہوری طریقِ کار کا ڈیزائن ہی اس طرح تیارکیا گیا ہے کہ اقتدار کے بھوکے تمام تر افراد کو دو یاتین سیاسی گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے جنہیں سیاسی پارٹیاں کہا جاتا ہے۔ ان کا ایک ڈھیلا ڈھالا سا منشور بنایا جائے، جاذب نظر سیاسی لیڈر شپ کے سہانے خواب اور خوبصورت پیکر سے لوگوں کو دیوانہ بنایا جائے، پھر الیکشن کے چند دنوں یا مہینوں کو ایک میلے کے ماحول میں گزارا جائے اور اس کی چکا چوند کے لیے بے تحاشا سرمایہ خرچ کیا جائے۔ لوگوں کو یہ یقین دلادیا جائے کہ وہی اصل حکمران ہیں، انہی کے ووٹ سے حکومتیں بدلتی ہیں اور لوگ تخت پر سرفراز ہوتے ہیں اور یوں پارٹی فنڈ نگ کے ذریعے ہر پارٹی کی قیادت کو اپنے قبضے بلکہ شکنجے میں لیا جائے۔ ان کی سانس تک ان لوگوں کے قبضہ قدرت میں ہو جو انہیں سرمایہ فراہم کریں یا جو ان کے لیے میڈیا اور دھونس سے ووٹوں کی کھیپ لا کر دیں۔ جب یہ قیادت بر سراقتدار آجائے تو پھر ان کی میزوں پر اپنا ایجنڈا رکھ دیا جائے۔ ایجنڈا چاہے سود کا ہو، حقوقِ نسواں، سیکولر اخلاقیات، عالمی قرضے، دہشت گردوں سے جنگ، مذہب کی ریاست سے علیحدگی، سیکولر نظام تعلیم، غرض جیسی فنڈنگ ویسی قیادت اور ویسے ہی یہ بیان کہ ہم یہ اس لیے کر رہے ہیں کہ ہمیں عوام نے منتخب کیا، ہم عوام کی آواز ہیں، جو ہم بولتے ہیں وہ عوام کی روح ہے، پارلیمنٹ سپریم ہے۔ دنیا کا کوئی قانون ہم سے بالا تر نہیں۔ اگر اللہ کا نازل کردہ قانون بھی پارلیمنٹ منظور نہیں کرتی تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور آمریت کیا ہوتی ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved