ایران میں انقلاب نے مشرقِ وسطیٰ اور اس کے قریبی تمام مسلم ممالک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس سے قبل ایران مغرب کی علاقائی حکمت عملی کا بنیادی ستون تھا۔دوسرا ملک جس پر مغربی توجہ تھی‘ وہ سعودی عرب تھا۔ یوں سمجھیں کہ پہلے برطانوی اور پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی اثرورسوخ کو قائم رکھنے کے لیے یہ دونوں ممالک مغرب کی سلامتی پالیسی کے کلیدی کردار تھے۔جنگ کے فوراً بعد ہی مغربی ایران کو سوویت یونین کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے مغربی ممالک نے بہت زور ڈالا تھا۔ قصہ یوں ہے کہ جنگ کے دوران مغربی طاقتوں نے‘ جن کا حلیف سویت یونین بھی تھا‘ایران پر مشترکہ قبضہ جما لیا تھا جس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو خلیج کے راستے ایران کی سڑکیں اور ریلوے استعمال کر کے سوویت یونین کونازی جرمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے مغربی ہتھیاروں کی فراہمی ‘اور دوسری وجہ یہ تھی کہ مغربی طاقتوں کے پاس خفیہ اطلاعات تھیں کہ رضا شاہ کہیں جرمنی کا ساتھ نہ دینا شروع کر دے۔ جنگ ختم ہو گئی تو اکثر مغربی طاقتوں کا خیال تھا کہ نئے عالمی نظام کی تشکیل کے لیے سوویت یونین‘ یورپ اور امریکہ مل کر امن و سلامتی کے لیے جنگی اتحاد کو برقرار رکھیں گے۔ یہ اتحاد ہم نے اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس عالمی تنظیم کے وجود کی صورت میں دیکھا۔ البتہ چند سالوں بعد ہی مغربی جاسوسی اداروں نے اطلاعات دینا شروع کر دیں کہ سوویت یونین اپنی نظریاتی اور سیاسی سرحدوں کو عالمی سطح پر پھیلانے کے لیے ایک خفیہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان خدشات کا اظہار ماسکو میں متعین امریکی سفیر جارج ایف کینن نے ـ ''فارن افیئرز‘‘ رسالے میں ''مسٹر ایکس‘‘ کے نام سے جولائی 1947ء کے شمارے میں ایک مضمون لکھ کر کیا تھا۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ جہاں کہیں اشتراکی تحریکیں چل رہی ہیں‘ سوویت یونین ان کی حمایت کرے گا۔ اس کا بنیادی مقصد پوری دنیا میں کمیونزم کے فلسفے کو پھیلانا اور اشتراکی اتحاد پیدا کر کے مغرب کے حلیف ملکوں کا تختہ الٹنا ہے۔ اس کا مشورہ یہ تھا کہ فسطائیت کو شکست دینے کے بعداب یورپ کو سب سے بڑا خطرہ کمیونزم سے ہے اور ضروری ہے کہ اس کی راہ روکی جائے۔ جلد ہی کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے اس خطرے کی گھنٹیاں پورے مغرب کے ایوانوں میں بجنے لگیں۔1949ء میں چین میں ماؤز ے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی نے امریکہ کی اتحادی حکومت کو چلتا کیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ واضح ہونے لگا کہ روس مشرقی یورپ کے ممالک سے‘ جنہیں اس نے جرمنی سے آزاد کرایا تھا‘ اپنی فوجیں واپس نہیں بلائے گا۔ راتوں رات وہاں پرانی جمہوری حکومتیں ختم ہو گئیں اور نئی انقلابی اشترا کی حکومتیں سوویت یونین کی فوجوں کے سائے میں قائم ہو گئیں۔ اسی بنیاد پر جرمنی دولخت ہو گیا یہاں تک کہ برلن کے تاریخی شہر کے وسط میں دیوار بنا کر اس شہر کو بھی تقسیم کر دیا گیا۔
یہ تاریخی پس منظر مشرقِ وسطیٰ‘ خصوصاً ایران کی سیاست کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ انہی سالوں میں اشتراکی تحریکیں ترکی اور یونان میں زور پر تھیں اور ایران میں بھی‘ اگرچہ وہاں ان کا اثر اتنا نہیں تھالیکن خطرہ ضرور بھانپ لیا گیا تھا؛چنانچہ سوویت یونین اور مغربی طاقتوں کی خفیہ جنگ اس خطے میں متصادم سیاسی اور نظریاتی حلیفوں کے حامیوں کے ذریعے زوروں پر تھی۔ مغرب کو فائدہ یہ تھا کہ وہ پہلے سے قائم حکومتوں کو اسلحہ فراہم کر کے اور دفاعی اتحاد بنا کر مستحکم کر رہا تھا جبکہ سوویت یونین کی حمایت غیر ریاستی تحریکوں کے لیے تھی‘ اس لیے اس کو غیر ملکی مداخلت خیال کیا جاتا تھا۔ انہی سالوں میں امریکہ اور اس کے مغربی حلیفوں کے ذہن میں فکر پیدا ہونے لگی کہ مشرقی یورپ پر قبضہ جمانے کے بعد سوویت یونین جنوب کی طرف رخ کرے گا تو مشرقِ وسطیٰ میں ان کے انتہائی اہم مفادات کو بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے ‘جن میں نئی یہودی ریاست اسرائیل کی بقا اور روایتی علاقائی بادشاہتیں اور تیل کے وسیع ذخائر کی موجودگی تھی۔ یہاں سے ہمارے بھی مغرب کے ساتھ دفاعی اتحاد کاآغاز ہوا۔
جان ڈیلس امریکہ کا تب طاقتور وزیر خارجہ تھا اور اس کا ایک بھائی امریکہ کی مرکزی ایجنسی کا سربراہ تھا۔ ''ناردرن ٹیرر‘‘ کا نظریہ ان دونوں بھائیوں نے گھڑا تھا جس کا مقصد ترکی‘ایران‘ عراق‘اور پاکستان کو مغربی دفاعی اتحاد کا حصہ بنا کر انہیں مضبوط کرنا تھا۔ ہمای قیادت بھارت کے خطرے کو جواز بنا کران دفاعی معاہدوں میں آنکھیں بند کر کے شامل ہو گئی۔ اس کے بعد چند ہی سالوں میں پاکستان کی سیاست ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو گئی۔ اس کے بعد جو چراغ جلے ان کے دھویں میں ابھی تک دم گھٹ رہا ہے۔
جیسا کہ گزشتہ مضمون میں ذکر کیا تھا ایران میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت ختم کر کے شاہ کو واپس لا کر تخت پر بٹھایا گیا تھا۔ پاکستان میں اسی زمانے میں گورنر جنرل غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی کو تحلیل کر کے اپنے اقدام کی آئینی سند عدالت عظمیٰ سے حاصل کر لی تھی۔ ہم ان مضامین میں ایران اور اس کے گردونواح کی بات کریں گے کہ آپ پاکستان کی تاریخ اور اس کے آج کل کی ''جمہوری حکومت‘‘ پر چھاپ کو خود دیکھ رہے ہیں۔ شاہ کی حکومت کو مضبوط کرنے کے لیے اُسے ہر نوع کے وسائل امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے خوشی خوشی مہیا کیے۔ مخالف جماعتوں کے کارکنان اور شاہ کے خلاف اٹھنے والی نظریاتی اور سیاسی تحریکوں کو کچلنے کی داستان خون‘ تشدد اور قید و بند کی صعوبتوں سے عبارت ہے۔جونہی کوئی مقابلہ کرنے کی کوشش کرتا‘ اسے مغرب کی تربیت یا فتہ ''سواک‘‘ عوام کو کوئی خبر ہونے سے پہلے ہی ٹھکانے لگا دیتی۔60 ء کی دہائی میں جس طرح ہمارے ایوب خان پاکستان کو جدت اور ترقی کی راہ دکھا رہے تھے‘ اسی طرح ایران کا شاہ بھی 'انقلاب‘ لانے کی باتیں کرتا تھا۔ ہمارے ہاں ایوب خان نے اقتدار پر قبضے کو سنہری انقلاب کا نام دیا‘ ایران کے بادشاہ نے سفید انقلاب کا رنگ پسند فرمایا تھا‘ جس کا مقصد تعلیم عام کرنااوردیگر سماجی اصلاحات تھیں۔ ایران کے معاشرے اور اس کے نظریاتی افکارسے متعلق تین خصوصیات ذہن میں رکھنی چاہئیں۔ پہلی بات یہ کہ فکری اور عملی طور پرعرب ممالک کے نسبت ایران کئی قدم آگے تھا۔ اس زمانے میں پاکستان‘ افغانستان اور ترکی بھی نظریاتی تحریکوں‘ ادبی اور سیاسی روشن خیالی کی علامت خیال کیے جاتے تھے۔ عربوں میں سوائے لبنان اور مصر کے‘ جمود ہی جمود تھا جس میں فسطائی فوجیوں نے اقتدار پر قبضہ کر کے مزید اضافہ کر دیا تھا۔نعرے البتہ پُرکشش تھے جیسے قومیت‘ ترقی پسندی اور احیا۔ انہوں نے اپنی سیاسی جماعتوں کے نام بھی ایسے ہی رکھے تھے۔ دوسری بات یہ کہ ایران کا معاشرہ روایتی ہونے کے باوجود بڑی حد تک سیکولر رہا ہے اور اب بھی یہ رنگ غالب ہے۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ سیکولر رجحان کے باوجود لوگ مذہبی علما کو بہت اعلیٰ مقام دیتے ہیں۔ خمس اور عطیات ان کے مدرسوں کے لیے کبھی کم نہیں ہوتے۔ عوام ہدایت و رہنمائی کے لیے جس طرح علما کی طرف رجوع کرتے ہیں‘ یہ مثال کسی دیگر مسلم ملک میں نہیں ملتی۔اس کے ساتھ یہ ذہن میں رکھنا بھی ضروری ہے کہ ایرانی علما فکری جدیدیت‘ تدبر‘ مذہبی تفسیر‘ قومیت پرستی کے موضوعات پر دوسرے مسلم ممالک کے ہم عصر علما کی نسبت ممتاز ہیں۔ایک مثال سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ جب ایرانی شاہ ناصر الدین قاچار نے 1890ء میں تاجِ برطانیہ کے ایک تاجر کو تمبا کو اگانے‘ فروخت کرنے اور برآمد کرنے کی اجازت دی تو آیت اللہ مرزا حسن شیرازی نے 1891ء میں فتویٰ دیا کہ اب ایرانیوں کے لیے تمباکو نوشی حرام ہے۔ پورے ملک میں احتجاج شروع ہو گئے اور ایرانیوں نے ایسا بائیکاٹ کیا جو ایرانی مزاحمتی تاریخ کا حصہ ہے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved