جگن ناتھ آزاد نے ''ملاپ‘‘ اخبار میں 30روپے ماہانہ پر ملازمت کی پیشکش قبول کر لی۔ اخبار کے مالک رنبیر نے کہا تھا کہ رباعیاتِ خیام پڑھانے کے 10روپے زیادہ ادا کیے جائیں گے۔ رنبیر کو تو اپنی مصروفیات کی وجہ سے رباعیاتِ خیام پڑھنے کا موقع نہ ملا لیکن وہ باقاعدگی سے جگن ناتھ کو 40روپے ماہانہ تنخواہ ادا کرتا رہا۔ کچھ عرصہ ملاپ میں کام کرنے کے بعد جگن ناتھ کو ایک نئے اردو اخبار ''جے ہند‘‘ میں کام کی پیشکش ہوئی۔ یہ ایک نیا چیلنج تھا‘ جگن ناتھ نے یہ چیلنج بھی قبول کر لیا۔ اب وہ صحافت میں اپنا مقام بنا چکا تھا۔ 1947ء کا آغاز ہو چکا تھا۔ فسادات کی آگ لاہور تک آ پہنچی تھی۔ سرحد کے دونوں طرف سے ہجرت شروع ہو چکی تھی لیکن جگن ناتھ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک روز اسے لاہور چھوڑنا پڑے گا۔
جگن ناتھ کو پورا یقین تھا کہ یہ فسادات چند دنوں کی بات ہیں‘ کچھ عرصے میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے ‘لیکن یہ اس کی خوش فہمی تھی۔ حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔ رام نگر محلے میں‘ جہاں وہ رہتا تھا‘ ہندو گھر بار چھوڑ کر سرحد پار جا رہے تھے۔ پھر ایک دن جگن ناتھ نے سوچا عارضی طور پر لاہور چھوڑ کر چلا جاتا ہوں۔ اس نے گھر کو تالا لگایا اور ریفیوجی کیمپ چلا گیا۔ ریفیوجی کیمپ میں گزارے دو دن اسے زندگی بھر نہیں بھولے۔ زندگی کتنی بے ثبات اور کتنی بے اعتبار ہے اس کا اندازہ جگن کو اُن دو دنوں میں ہوا۔ ریفیوجی کیمپ میں قیامتِ صغریٰ کا سماں تھا۔ خدا خدا کر کے اُس کا قافلہ دہلی پہنچ گیا۔ اُسکے بچے اپنے دادا کے پاس راولپنڈی میں تھے۔ جگن کے والد تلوک چند محرومؔ گورڈن کالج میں پناہ لیے ہوئے تھے‘ آریہ محلہ میں وہ اپنا گھر خالی کر کے گورڈن کالج آ گئے تھے۔ اُن کا رابطہ جگن ناتھ سے نہ ہو رہا تھا۔ ہر روز فسادات کی خبریں آ رہی تھیں۔ سر عبدالقادر‘ جو تلوک چند کے دوست تھے‘ نے رام نگر میں جگن ناتھ کا پتا کرایا تو معلوم ہوا کہ جگن ناتھ کے گھر پر تالا لگا ہے اور اُس کا کچھ پتا نہیں۔ اُن دنوں معلومات کے روایتی ذرائع بھی معطل تھے‘ ایک افراتفری کا سماں تھا۔ ریڈیو پر اعلانات کرائے جاتے تھے۔ حفیظ جالندھری نے ریڈیو سے اعلان کرایا کہ جس کو جگن ناتھ کے بارے میں پتا ہو وہ ریڈیو ہی سے جواب دے دے۔ یہ اعلان سرحد پار بھی سنا گیا۔ جگن ناتھ نے جوابی اعلان میں اپنی خیریت کی اطلاع دی۔ ریڈیو پر یہ اعلان راولپنڈی کے ادیب عبدالعزیز فطرتؔ نے سنا تو وہ دوڑے دوڑے گورڈن کالج میں تلوک چند کے پاس پہنچے اور انہیں بیٹے کی خیریت کی اطلاع دی۔ تلوک چند کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔ انہیں کئی دنوں بعد اپنے بیٹے کی خیریت کی اطلاع ملی تھی۔لاہور کو چھوڑتے ہوئے جگن کی حالت غیر تھی‘ اُس کے دل کی کیفیت شعروں میں اس طرح ڈھلی:
جس طرح چلے لعل ملکِ یمن سے ؍یا جیسے چلے دُرعدن کا کانِ عدن سے؍ آ ہوئے ختن یا ہورواں دشتِ ختن سے؍ آزادؔ ہم اس طرح چلے اپنے وطن سے ؍ جس گھر کی فضائوں میں جیے اور پلے ہم؍ اس گھر کو لگی آگ تو اس گھر سے چلے ہم
جگن ناتھ آزاد لاہور سے جا کر بھی شعر و ادب‘ شاعری اور صحافت سے وابستہ رہے۔ لاہور سے دہلی جا کر وہ 1945ء سے 1955ء تک پبلی کیشنز ڈویژن ملٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ میں اسیسمنٹ آڈیٹر (اردو) کے منصب پر فائز ہوئے۔ بعد میں اُن کا عہدہ انفارمیشن آفیسر کا ہو گیا اور آخر ترقی کرتے ہوئے وہ سرینگر کشمیر ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز کے عہدے پر پہنچے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں جموں یونیورسٹی سے اُردو ڈپارٹمنٹ میں بطور پروفیسر ملازمت کی پیشکش ہوئی۔ 1988ء میں انہیں جموں یونیورسٹی کی تاحیات ایمریٹس فیلوشپ دینے کا اعلان کیا گیا۔ جگن ناتھ آزاد کی شخصیت اور فن پر متعدد تحقیقی مقالے اور کتابیں لکھی گئیں۔اقبالیات کے شعبے میں جگن ناتھ آزاد کا منفرد کام ان کی زندگی کی پہچان بنا۔ اقبال کے حوالے سے ان کی کتابوں میں 'اقبال اور مغربی مفکرین‘، 'اقبال اور کشمیر‘، 'اقبال کی کہانی‘، 'اقبال، زندگی، شخصیت اور شاعری‘، 'مرقع اقبال‘، 'فکرِ اقبال کے بعض اہم پہلو‘، 'اقبال اور اس کا عہد‘، 'رودادِ اقبال اور ترجمہ جاوید نامہ‘ شامل ہیں۔
جگن ناتھ آزاد کے کام کی مقدار اور معیار کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیسے ایک فرد نے ایک ادارے کا کام کیا۔ اردو کے علاوہ اس نے انگریزی میں بھی کتابیں لکھیں جن میں Iqbal: His Poetry and Philosophy اور Iqbal: Mind and Art شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جگن ناتھ کی شاعری کے تقریباً ایک درجن مجموعے شائع ہوئے۔جگن ناتھ کی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر اسے بھارت‘ پاکستان اور متعدد ممالک میں کئی انعامات سے نوازا گیا۔ جگن ناتھ آزاد نے اپنے فنی سفر میں ہر ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی۔ جب چھ دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو بھارت میں رہتے ہوئے اس نے مسلمانوں کے حق میں آواز اُٹھائی اور بابری مسجد کے عنوان سے ایک نظم لکھی جو بہت مشہور ہوئی۔ اس کا آغاز ان اشعار سے ہوتا ہے:
یہ تُو نے ہند کی حرمت کے آئینے کو توڑا ہے ؍ خبر بھی ہے تجھے مسجد کا گنبد توڑنے والے؍ ہمارے دل کو توڑا ہے‘ عمارت کو نہیں توڑا
جگن ناتھ آزاد تقسیم کے وقت کے مشکل حالات میں بھی ہندوئوں اور مسلمانوں میں امن و آشتی کے علمبردار تھے۔ تقسیم کے بعد جب بھارت میں رہنے والے مسلمان سخت آزمائش سے گزر رہے تھے تو جگن ناتھ آزاد نے ''بھارت کے مسلمان‘‘ کے عنوان سے ایک نظم لکھی جس میں بھارت کے مسلمانوں کو حوصلہ دیا گیا تھا۔ نظم کا آغاز ان اشعار سے ہوتا ہے:
اس دور میں تو کیوں ہے پریشان و ہراساں ؍ کیا بات ہے کیوں ہے متزلزل ترا ایماں ؍ دانش کدۂ دہر کی اے شمعِ فروزاں ؍ اے مطلعِ تہذیب کے خورشید درخشاں
اُس وقت بھارت میں ایک ہندو کا مسلمانوں کے حق میں آواز اُٹھانا آسان بات نہ تھی۔ اب جگن ناتھ کی زندگی کی شام ڈھل رہی۔ دوستوں سے ملاقاتیں محدود ہو گئی تھیں۔ آزاد اپنے گھر کے کمرے میں جب تنہا ہوتا تو تصور کی انگلی پکڑ کر عیسیٰ خیل راولپنڈی اور لاہور کے گلی کوچوں میں گھومتا رہتا تھا۔ تقسیم کے بعد جب وہ پہلی بار راولپنڈی آیا تو اُس کی حالت عجیب تھی‘ اُسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ اپنے ہی وطن میں اجنبی ہے۔ راولپنڈی کے مشاعرے میں اُس نے جو غزل سنائی‘ وہ اس کے جذبات کی عکاس تھی۔ غزل سناتے ہوئے وہ خود بھی رو رہا تھا اور سننے والے بھی اشکبار تھے۔
تری بزمِ طرب میں سوزِ پنہاں لے کے آیا ہوں
چمن میں یادِ ایامِ بہاراں لے کے آیا ہوں
تری محفل سے جو ارمان و حسرت لے کے نکلا تھا
وہ حسرت لے کے آیا ہوں وہ ارماں لے کے آیا ہوں
تمہارے واسطے اے دوستو میں اور کیا لاتا
وطن کی صبح تک شامِ غریباں لے کے آیا ہوں
میں اپنے گھر میں آیا ہوں مگر انداز تو دیکھو
کہ اپنے آپ کو مانندِ مہماں لے کے آیا ہوں
جگن ناتھ آزاد جب تک زندہ رہا محبت اور امن کا پیغام دیتا رہا۔ اس کا رشتہ آخرِ دم تک قلم و قرطاس سے رہا۔ کبھی کبھی تنہائی میں وہ سوچتا زندگی کا سفر بھی کیسا سفر ہے۔ اچانک ایک موڑ آتا ہے اور ہم اپنے ہی وطن میں اجنبی بن جاتے ہیں۔ (ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved