دنیا میں علم‘ دولت‘ شہرت اور عزت درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقسیم ہے۔ انسانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ان نعمتوں پر شکر ادا کرنا چاہیے اور کسی دوسرے شخص کے پاس موجود نعمتوں کو دیکھ کر اس سے حسد نہیں کرنا چاہیے۔ حاسد درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیصلے کو قبول کرنے سے انکاری ہوتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا اور اس کی تقسیم پر بغض کا اظہار کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کا ذکر کیا کہ لوگ آلِ ابراہیم سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کے باوجود حسد کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورۃ النساء کی آیت 54 میں ارشاد فرماتے ہیں ''یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے‘ پس ہم نے تو آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی ہے اور بڑی سلطنت بھی عطا فرمائی ہے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ یوسف میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے حسد کا بھی ذکر کیا‘ جنہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے بابا یعقوب علیہ السلام سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے اس حسد کے باوجود حضرت یوسف علیہ السلام کو مختلف آزمائشوں سے گزارنے کے بعد تختِ مصر پر بٹھا دیا اور بھائیوں کو عالمی قحط میں مبتلا ہونے کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے غلے کے طالب کی حیثیت سے کھڑا کر دیا۔
اسی طرح قرآنِ مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے تنازعے کا ذکر بھی ہے جس کی بنیاد ''حسد‘‘ تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورۃ المائدہ کی آیات27 تا 31 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''اور ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کریں‘ جب ان دونوں نے کچھ قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا: میں تجھے ضرور ہی قتل کر دوں گا۔ اس (دوسرے) نے کہا: بے شک اللہ متقی لوگوں ہی سے قبول کرتا ہے۔ اگر تو نے اپنا ہاتھ میری طرف اس لیے بڑھایا کہ مجھے قتل کرے تو میں ہرگز اپنا ہاتھ تیری طرف اس لیے بڑھانے والا نہیں کہ تجھے قتل کروں‘ بے شک میں اللہ سے ڈرتا ہوں‘ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ تُو میرا گناہ اور اپنا گناہ لے کر لوٹے‘ پھر تُو آگ والوں میں سے ہو جائے اور یہی ظالموں کی جزا ہے۔ تو اس کے لیے اس کے نفس نے اس کے بھائی کا قتل پسندیدہ بنا دیا‘ سو اس نے اسے قتل کر دیا‘ پس خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گیا۔ پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا‘ جو زمین کریدتا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے‘ کہنے لگا: ہائے میری بربادی! کیا میں اس سے بھی رہ گیا کہ اس کوے جیسا ہو جائوں تو اپنے بھائی کی لاش چھپا دوں۔ سو وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گیا‘‘۔
مذکورہ بالا واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو حسد انتہائی ناپسند ہے۔ ہمیں ہمیشہ دوسروں کے بارے میں فراخ دلی سے کام لینا چاہیے اور کسی کو ملنے والی نعمت کو دیکھ کر حسد نہیں کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث سنن نسائی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''کسی مومن کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہو سکتے‘‘۔
حسد ‘ ایمان کیلئے انتہائی مہلک ہے؛ چنانچہ انسان کو اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے دوسروں سے حسد کرنے سے بچنا چاہیے۔ اس حوالے سے جامع ترمذی میں حضرت زبیر بن عوامؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ''تمہارے اندر اگلی امتوں کا ایک مرض گھس آیا ہے اور یہ حسد اور بغض کی بیماری ہے‘ یہ مونڈنے والی ہے‘ میں یہ نہیں کہتا کہ سر کا بال مونڈنے والی ہے بلکہ دین مونڈنے والی ہے‘ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ جنت میں نہیں داخل ہو گے جب تک کہ ایمان نہ لے آئو‘ اور مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو‘ اور کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتا دوں جس سے تمہارے درمیان محبت قائم ہو! تم سلام کو آپس میں پھیلائو‘‘۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی دفعہ اعزہ و اقارب بھی اس بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ حسد کی وجہ سے ایک دوسرے سے قطع تعلقی پر آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ بات انتہائی ناپسندیدہ ہے اور نبی کریمﷺ نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔ اس حوالے سے بعض احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو‘ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو‘ ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو اور اللہ کے بندے (ایک دوسرے کے) بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے تعلق ترک کیے رکھے‘‘۔
جب انسان کسی سے حسد کرنا شروع کر دیتا ہے تو دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اکثر اس کے عیب ٹٹولتا اور بالعموم اس کے حوالے سے بدگمانی کا شکار رہتا ہے۔ یہ عمل انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''بدگمانی سے بچتے رہو‘ بدگمانی اکثر تحقیق کے بعد جھوٹی بات ثابت ہوتی ہے اور کسی کے عیوب ڈھونڈنے کے پیچھے نہ پڑو‘ کسی کا عیب خواہ مخواہ مت ٹٹولو اور کسی کے بھائو پر بھائو نہ بڑھائو اور حسد نہ کرو‘ بغض نہ رکھو‘ کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو‘‘۔
حسد یا رشک کی گنجائش فقط نیکی کے دو بڑے کاموں میں ہے۔ اس حوالے سے ایک حدیث درج ذیل ہے:
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''دو باتوں کے سوا کسی چیز میں حسد (رشک) نہیں کیا جا سکتا: ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا‘ پھر اسے اس پر مسلط کر دیا کہ وہ اس مال کو حق کی راہ میں بے دریغ لٹائے۔ دوسرا وہ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت (دانائی) عطا کی اور وہ اس کے مطابق (اپنے اور دوسروں کے) معاملات طے کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
جب کوئی انسان کسی سے حسد کرنا شروع کرتا ہے تو اس کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کرنا شروع کر دیتا ہے‘ ایسی صورت میں انسان کو حاسد کے حسد سے بچنے کے لیے بعض اذکار سے تمسک اختیار کرنا چاہیے‘ جن میں آخری تین قل بالخصوص معوذتین شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ احادیث طیبہ میں بعض دعائیں بھی مذکور ہیں۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
(1) صحیح مسلم میں ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ بیمار ہوتے تو جبریل علیہ السلام آپ کو دَم کرتے اور کہتے: ''اللہ کے نام سے‘ وہ آپ کو بچائے اور ہر بیماری سے شفا دے اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے اور نظر لگانے والی ہر آنکھ کے شر سے (آپ کو محفوظ رکھے)‘‘۔
(2) صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبیﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے محمدﷺ! کیا آپ بیمار ہو گئے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ کلمات کہے: ''میں اللہ کے نام سے آپ کو دَم کرتا ہوں‘ ہر اس چیز سے (حفاظت کے لیے) جو آپ کو تکلیف دے‘ ہر نفس اور ہر حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے اللہ آپ کو شفا دے‘ میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حسد کی بیماری سے پاک کر دے اور ہر حاسد کے حسد سے محفوظ فرما دے‘ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved