اللہ تعالیٰ رحمان‘ رحیم‘ کریم‘ حلیم‘ حنان‘ ودود‘ رؤف اور رب العالمین ہے یعنی اپنی تمام مخلوقات کی پرورش فرمانے والا‘ انتہائی مہربان ہے۔ تمام مذاہب میں اللہ واحد کا یہی تعارف ہے مگر بعض لوگ اس قدر انتہا پسند ہو جاتے ہیں کہ انسانیت کیلئے بے رحم درندے اور انتہائی سفاک بھیڑے بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک سفاک گروہ سامنے آیا ہے جو اسرائیلی فوج کا حصہ ہے۔ اس گروہ کی اسرائیلی فوج میں عمومی تعداد 21ہزار ہے؛ تاہم جو زیادہ خونخوار ہیں ان کی تعداد 2800ہے جبکہ انتہائی بے رحم بھیڑیوں کی تعداد ایک ہزار ہے۔ ان لوگوں کی ٹریننگ میں روزانہ کی بنیاد پر توریت کی تلاوت شامل ہے۔ ان لوگوں میں بعض جوان باریش ہیں‘ انہیں جو مذہبی علماء یعنی ربی حضرات لیکچر دیتے ہیں وہ داڑھی‘ لمبے بال اور سر پر ہیٹ رکھے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اسرائیلی جھنڈے تھام کر اور اسلحہ سے لیس ہو کر چلتے ہیں تو ان کے آگے ایک باریش فوجی جوان توریت کا سکرول (طومار) تھامے چل رہا ہوتا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکے ساتھ ان کی مصافحہ کی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان کٹر لوگوں کا جو سربراہ ہے‘ اسے لیفٹیننٹ کرنل کا عہدہ دیا گیا ہے۔ موجودہ سربراہ کا نام شلوموشیران (Shlomo Shiran) ہے۔ ان کا جو نشان (لوگو) ہے وہ ایک شیر کا ہے‘ جو پورا منہ کھولے دھاڑ رہا ہے اور اسے پر بھی لگے ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جدید دور کا ٹیکنالوجیکل شیر ہے جسے اہلِ فلسطین پر دھاڑنا اور چبا ڈالنا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو کو ان لوگوں سے خاص محبت ہے۔ وہ ان سے خطاب بھی کرتا ہے اور ان میں گھل مل بھی جاتا ہے۔
ان سفاک لوگوں کو اسرائیلی فوج کا حصہ بنانے کا آغاز 1999ء میں ہوا۔ ان کا تعلق اسرائیل کے ہاردی (Hardi) فرقے سے ہوتا ہے۔ یہ الٹرا آرتھوڈکس فرقہ ہے یعنی انتہائی متعصب‘ کٹر اور انتہا پسند فرقہ۔ اسرائیلی فوج کی تب 96بٹالینز تھیں۔ اب ایسے لوگوں پر مشتمل 97ویں بٹالین بنا دی گئی ہے اور اس کا نام جو رکھا گیا وہ کچھ اس طرح ہے: Netzah Yehuda Battalion۔ عبرانی زبان میں اس کا مطلب ہے: یہود کی فاتح بٹالین۔ انگریزی میں اسے Judah's Victory Battalion کہا جاتا ہے۔ ویسے اس کا ایک 'نک نیم‘ بھی ہے اور وہ ہے :Nahal Haredi۔ مسٹر ڈیوڈ او جانسن نے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں جو تازہ ترین معلومات دی ہیں‘ قارئین کرام! ان کو اور دیگر تازہ معلومات کو اکٹھا کرکے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ اس بٹالین کو یہودی فوج کے جس بریگیڈ کا حصہ بنایا گیا ہے اس کو Kfir کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 'حریدی‘ فرقے کی اس 'نحل‘ بٹالین کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ اسرائیلی آرمی میں بطور Combat soldiers یعنی لڑاکا سپاہیوں کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے سکتی ہے:By creating an atmosphere conducive to their religious convictions in the strict observance of halaka۔
یعنی ان کی طرف سے ایک ایسا سازگار ماحول بنایا جائے کہ مذہبی قانون کے سخت تناظر میں مذہبی سزا دی جا سکے۔ قارئین کرام! اس بٹالین کے انتہا پسند لوگوں کو مغربی کنارے‘ غزہ اور اسرائیل کے اندر اہلِ فلسطین کی سرکوبی کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ آج دنیا بھر کا میڈیا ان لوگوں کو جو نام دے رہا ہے وہ Violent ultra-orthodox ہے یعنی انتہا پسندوں سے کہیں آگے کے انتہا پسند۔ 22اپریل کو دنیا کے معروف اشاعتی ادارے ''رائٹرز‘‘ کے ایک صحافی (Andrew F MacAskill) نے اس حوالے سے جو معلومات دیں‘ میں نے ان کو سامنے رکھ کر اپنے قارئین کو حقائق سے آگاہ کیا۔ رائٹرز اور دیگر اشاعتی اداروں نے اسرائیلی میڈیا آرگنائزیشن ''ہارٹز‘‘ کے حوالے سے بتایا کہ مذکورہ بٹالین نے حقوقِ انسانی کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔ مغربی کنارے کے علاقے ''جنین‘‘ اور ''رام اللہ‘‘ ان کے حوالے کیے گئے‘ جہاں انہوں نے نئے یہودی آباد کاروں کی مدد کے حوالے سے ظلم کی انتہا کر دی۔ یہ فلسطینیوں کے گھر گراتے ہیں‘ ان کو قتل کرتے ہیں‘ زمینوں پر قبضے کرتے ہیں اور مزاحمت پر حقداروں کو اغوا کرکے قیدی بنا لیتے ہیں۔
رائٹرز کے مطابق: جنوری 2022ء میں یہ لوگ اس وقت امریکہ کے ریڈار پر نمایاں ہو کر سامنے آئے جب انہوں نے امریکہ سے ایک 78 سالہ فلسطینی بزرگ کو پکڑا‘ اس کے ہاتھ توڑے‘ اندھا کیا‘ گلی میں گھسیٹا اور مرنے پر پہلے اسے فریز کیا اور پھر فلسطینیوں کے علاقے میں پھینک دیا۔ انہی کے ہاتھوں چند دن قبل 14فلسطینی قتل ہوئے۔ یہ ہیں وہ خدمات جن کی وجہ سے اس بٹالین کو 2012ء میں Excellence Award سے نوازا گیا اور پھر 2014ء میں The chief of staff award دیا گیا۔ اس بٹالین کا سربراہ لیفٹیننٹ کرنل شلومو شیران بھی انتہا درجے کا انتہاپسند ہے۔ اس کے ظلم کے بارے میں ''ہارٹز‘‘ نے جو لکھا‘ قابلِ غور ہے کہ اس بٹالین کے لوگ اسرائیل کے مختلف کیسز میں فلسطینیوں کے خلاف گزشتہ کئی سالوں سے torture اور sexual assault کی وجہ سے نمایاں ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کے ملٹری انٹیلی جنس چیف کا نام اہارون (Aharon Haliva) ہے۔ اس کی عمر 57سال ہے جبکہ اس فیلڈ میں وہ 38سالہ تجربے کا حامل ہے۔ ہاردی بٹالین کے مظالم اب دنیا کے سامنے آ چکے ہیں۔ امریکہ نے اس بٹالین پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو فوج کا حصہ بنانا اور ظلم کی چھوٹ دینا غیرقانونی ہے۔ امریکہ نے شاید دنیا کی تنقید سے بچنے کیلئے ایسا کیا۔ اسرائیل نے اس پر پریشانی کا اظہار کیا ہے۔ ایسے ماحول میں میجر جنرل اہارون نے استعفے کا اعلان کردیا اور کہا ہے کہ سات اکتوبر کو قسّام بریگیڈ نے جو حملہ کیا اسے روکنے میں ہماری ملٹری ناکام ہو گئی‘ 1130سے زائد لوگ مارے گئے‘ 250 قیدی بنا لیے گئے‘ یہ بدترین انٹیلی جنس ناکامی ہے۔ یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس حملے کی معلومات آ رہی تھیں مگر ہم نے کچھ نہ کیا‘ اب اس پر کمیشن بننا چاہیے اور ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے۔ جنرل اہارون نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس حملے کے پیچھے سالوں کا ہمارا رویہ ہے جو اس حملے کا سبب بنا۔ ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ ہماری فضائی فورس نے حملے شروع کر دیے‘ 34ہزار فلسطینی مارے گئے۔ 22لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو گئے یعنی غزہ کی ساری آبادی ہم نے بے گھر کر دی۔ امریکی نشریاتی ادارے نے میجر جنرل اہارون کا یہ جملہ کوٹ کیا کہ: We failed to defend civilians۔
جی ہاں! یہ ذومعنی جملہ ہے کہ اس سے مراد کون ہیں؟ بقول انکے 250 شہری یہودی یا 34ہزار فلسطینی شہری‘ جو شہید کر دیے گئے اور 22لاکھ فلسطینی‘ جو بے گھر کر دیے گئے؟ 22اپریل کے دی گارڈین نے میجر جنرل اہارون کا یہ جملہ کوٹ کیا: I will carry the horrible pain of the war with me forever۔ ''میں اپنے اندر اس خوفناک جنگ کی شدید تکلیف تمام عمر اٹھائے پھرتا رہوں گا‘‘۔ اللہ اللہ! اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے سابق چیف مسٹر Alon Liel کہتے ہیں: اسرائیلی فوج کی جنوبی کمان کے اعلیٰ آفیسرز بھی مستعفی ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ اسرائیلی آرمی کا چیف آف سٹاف بھی ایسا ہی فیصلہ کرنے کا سوچ رہا ہے۔ (الجزیرہ، 22 اپریل 2024ء)
انتہا پسندی کو پرموٹ کرنے اور نہتے لوگوں‘ عورتوں اور بچوں پر ظلم روا رکھنے کا جو نتیجہ نکل رہا ہے‘ وہ ساری دنیا میں بدترین بدنامی اور اندرونی محاذ پر پھوٹ اور شکست خوردگی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ظلم کا مستقبل دنیا میں بھی بربادی ہے اور اگلے جہان میں بھی بربادی ہے۔ کاش! دنیا اس ظلم کو بند کرانے کو آگے بڑھے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کا رب‘ رحمان و رحیم ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved