کیا تقریر کا دور تمام ہوا؟ کسی موضوع پر توجہ مرتکز کرنے کا انسانی دورانیہ‘ کیا سمٹ گیا ہے؟
برادرم طاہر ملک نے اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں جب نوجوانوں کی ایک مجلس سجائی اور مجھے تقریر کے لیے کہا تو موضوع سے پہلے یہ سوالات میرے دامنِ فکر سے لپٹ گئے۔ برادرِ عزیز سبوخ سید کی معیت میں جب میں یونیورسٹی کی جانب روانہ ہوا تو میں نے یہی سوالات ان کے سامنے بھی رکھے۔ ابلاغیات اُن کا موضوع ہے اور وہ برسوں سے اس بحر کے شناور ہیں۔ مجھے یقین تھا کہ ان کاجواب صائب ہو گا۔
تقریر کا ایک دور تھا جو گزر چکا۔ لوگ اپنے من پسند مذہبی اور سیاسی مقررین کی تقاریر شوق سے سنا کرتے اور اس کے لیے سفر کی مشکلات بھی بخوشی بر داشت کرتے تھے۔ اسی شوق میں‘ نوجوانی کی معلوم نہیں کتنی راتیں‘ میں نے بھی مسجد کے ننگے فرش پر گزاری ہیں۔ ان تقاریر سے میں نے کیا سیکھا؟ میں نے یہ مشقت‘ کسی ملال کے بغیر‘ کیوں اٹھائی؟ آج جب میں ان سوالات پر غور کرتا ہوں تو مجھے یہ جواب ملتا ہے کہ میں نے ان سے کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں سیکھی۔ ایک دو مقررین کا استثنا ہے ورنہ اس ساری مشق کا مقصد صرف حَظ اٹھانا تھا۔ میں اسی قوم کو حصہ ہوں جس کو مخاطب کرتے ہوئے سید عطا اللہ شاہ بخاری نے کہا کہ 'تم کانوں کے عیاش ہو‘۔ آج خیال ہوتا ہے کہ میں بھی یہ تقاریر کانوں کی عیاشی کے لیے سنا کرتا تھا۔
جب تقاریر شوق سے سنی جاتی تھیں تب طلب و رسد کے اصول پر اچھے مقرر بھی موجود تھے۔ اب طلب کم ہو گئی ہے اور نتیجتاً رسد بھی۔ مسلکی ضروریات نے کچھ واعظین و ذاکرین کے وجود کو باقی رکھا ہے ورنہ خطابت کی دنیا پر زوال ہے۔ اس زوال کے کئی اسباب ہیں لیکن ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اب تا دیر لوگ کسی ایک جگہ اپنی توجہ مرتکز نہیں کر سکتے۔ سوشل میڈیا نے جو نیا کلچر دیا ہے اس میں ہیجان اور سرعت ہے۔ لوگ کچھ سیکنڈز کے لیے ایک جگہ ٹھیرتے ہیں۔ اگر چند لمحات کے لیے آپ کسی کے پاؤں میں زنجیر نہیں ڈال سکتے تو پھر یہ راہی کسی دوسرے ملک کا رُخ کر لیتا ہے۔ وہاں بھی اس کا قیام چند منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا۔
سبوخ سید کا کہنا بھی یہی تھا۔ اس لیے مجھے خیال ہوا کہ طاہر ملک صاحب کے دیے گئے موضوع کو ایک طرف رکھتے ہوئے‘ نوجوانوں کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنے خدشات‘ خیالات اور اعتراضات کا ذکر کریں۔ میں ان کی گفتگو میں شریک ہو جاؤں۔ یوں میرے سمیت سب کا بھلا ہو۔ طاہر ملک سے اس تجویز کا ذکر کیا تو انہوں نے بھرپور تائید کی۔ ویسے ملک صاحب کو بھی کسی ایک موضوع پر روک کر رکھنا اکیلے آدمی کے بس میں نہیں۔ خیر یہ طریقہ کامیاب رہا۔ شرکا آخری وقت تک‘ ذہنی طور پر متحرک رہے۔
سوشل میڈیا نے اسی سرعت کے چلن کو فروغ دیا ہے مگر کیا تحصیلِ علم کے لیے یہ کوئی موزوں طریقہ ہے؟ لاابالی پن اگر حصولِ علم کے عمل پہ بھی اَثر انداز ہونے لگے تو پھر غور و فکر کا مزاج کیسے پیدا ہوگا؟ یہ تو ذہنی مراقبے کا تقاضا کرتا ہے۔ استغراق اسی کا منتہا ہے۔ صوفیانہ روایت میں یہ فنا کی منزل ہے‘ جو مقصود ہے۔ اس وقت خدا کی ذات کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ صوفیا اس کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ استغراق وہ منزل ہے جہاں ذاکر ذکر کرتے وقت‘ ذکر کے خیال سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے۔ یعنی اس لمحے صرف خدا کا وجود ہی ثابت ہوتا ہے۔ 'رسالہ قشیریہ‘ تصوف کی امہاتِ کتب میں سے ہے۔ اس میں فنا کی تین حالتوں کا بیان ہے: پہلی حالت اپنی ذات و صفات سے فنا ہو کر ذات و صفاتِ حق کے ساتھ باقی رہنا ہے۔ دوسری حالت یہ ہے کہ ذات و صفاتِ حق سے فنا ہو کرمشاہدۂ حق کے ساتھ باقی رہا جائے۔ تیسری حالت یہ کہ ذاتِ حق میں مکمل فنا ہو کر‘ سالک مشاہدۂ حق سے بھی فنا ہو جائے۔ یہی استغراق ہے۔ اس حالت تک پہنچنے کے لیے عمر بھر کی ریاضت چاہیے۔ تصوف یہی ہے۔ عامیانہ سطح پر البتہ آپ جو چاہیں‘ تعریف کرتے رہیں۔
دنیاوی تعلیم کی جامعات میں بھی ایک کلاس تین تین گھنٹے کی ہوتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک تعلیمی سال میں ایک طالب علم کے لیے وہ دورانیہ طے ہے جو اس نے کمرۂ جماعت میں گزارنا ہے۔ گویا تعلیم کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ایک طالب علم مراقبے کی عادت نہ ڈالے اور ایک موضو ع پر تادیر غور و فکر نہ کرے۔ گویا ریاضت کے بغیر دنیا کا علم بھی حاصل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ جب مزاج اس طرح کا بن جائے کہ انسانی ذہن کے لیے ایک مقام پر پڑاؤ محال ہو جائے تو پھر علم کے ساتھ اس کا دیر پا رشتہ کیسے قائم ہو سکتا ہے؟
نئی تحقیقات بھی یہی بتاتی ہیں کہ آج کا انسان ایک مقام پر تا دیر نہیں رکتا۔ نفسیات میں یہ سوال زیرِ بحث رہتا ہے کہ ایک انسان اوسطاً کتنی دیر ارتکاز کر سکتا ہے؟ یہ سوال اس حوالے سے بھی غور کا موضوع بنا کہ تعلیمی اداروں میں ایک پیریڈ کا دورانیہ کیا ہونا چاہیے؟ یورپ کی جامعات میں گیارہویں صدی سے پچاس منٹ کا پیریڈ چلا آ رہا ہے۔ پھر یہ کہا گیا کہ وقت کے ساتھ طالب علموں کی توجہ کا دورانیہ کم ہو کر پندرہ منٹ رہ گیا ہے۔ بعض یونیورسٹیوں نے اس کو اپنا لیاہے۔ 'ٹیڈ ٹاکس‘ (TED Talks) سوشل میڈیا پرلیکچرز کا ایک مقبول پروگرام ہے۔ اس میں ایک گفتگو کا زیادہ سے زیادہ دورانیہ اٹھارہ منٹ ہے۔ اس کے پس منظر میں بھی یہی خیال ہے کہ توجہ کا دورانیہ پندرہ منٹ ہے۔ ایک تحقیق یہ کہتی ہے کہ یہ دورانہ آٹھ سیکنڈ ہے جو گولڈ فش سے بھی کم ہے۔ ایک تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ 2000ء اور 2015ء کے عرصہ میں‘ اس دورانیے میں پچیس فیصد کمی آئی ہے۔ ایک اور تحقیق کے مطابق اب یہ دورانیہ 8.25 سیکنڈ ہے۔
اس کا تعلق عمر‘ صحت اور دیگر بہت سے عوامل سے ہے۔ میں اس باب میں کوئی حتمی بات نہیں کہہ سکتا‘ تاہم صدیوں کے انسانی تجربات کا حاصل یہ ہے کہ مراقبے اور استغراق کے بغیر فکر و عمل میں پختگی آ سکتی ہے نہ نظری مسائل سلجھ سکتے ہیں۔ یہ انسانی ارتکاز کا سکڑتا ہوا دائرہ ہے جس نے مصنوعی ذہانت کو انسانی دماغ کا متبادل بنا دیا ہے۔ ہمارا تجربہ ہے کہ سرعتِ نتائج کے حوالے سے‘ کمپیوٹر انسان سے افضل ہے۔
میں اس سے یہ سمجھ سکا ہوں کہ معاشرتی سطح پر پختہ فکری کام کے لیے سوشل میڈیا کی نئی صورتیں‘ جیسے انسٹاگرام یا ٹک ٹاک ہیں‘ کسی طور موزوں نہیں۔ اگر سماج میں ہیجان پیدا کرنا ہے‘ لوگوں کو مشتعل کرنا ہے اور ان کے فوری ردِعمل سے کوئی مقصد حاصل کرنا ہے تو ابلاغ کے یہ ذرائع اس کے لیے بہت سازگار ہیں۔ انسانی ذہن کو ردِعمل کی نفسیات سے نکال کر اس قابل بنانا کہ وہ عقل کے استعمال سے کوئی فیصلہ کرے وقت طلب کام ہے۔ اگر ہم گزشتہ ماہ و سال پر غور کریں تو پاکستان میں جو ہیجان آمیز فضا قائم کی گئی‘ اس کے لیے یہی ذرائع کام آئے ہیں۔
تقریر کا روایتی دور کئی اسباب سے تمام ہوا لیکن گفتگو اور علمی خطبات کی جگہ باقی ہے۔ سوشل میڈیا اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن ان سرگرمیوں کے لیے 'لائکس‘ اتنے نہیں ہو سکتے جو ہیجان پیدا کرنے والے فورمز کو میسر ہیں۔ یہ 'لائکس‘ کسی پائیدار فکری عمل کا حاصل نہیں ہو سکتے۔ یہ اُسی کو مل سکتے ہیں جن کے ارتکاز کا دورانیہ کم ہو۔ سرعت کا تعلق کسی جسمانی سرگرمی سے ہو یا ذہنی مشق سے‘ ایک مرض ہے۔ اس سے نجات ہی میں صحتِ جسم و جاں کا پیغام ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved