بات سے بات نکلتی ہے۔ اہلِ سنت والجماعت کے راہنما مولانامحمود احمد لدھیانوی نے کہا ہے کہ اگر طالبان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو اُن سے کیوں نہیں۔اگر آپ کو یاد ہو تو طالبان سے مذاکرات کے لیے بنیادی استدلال یہی پیش کیا گیا تھا کہ امریکا طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں۔ یہ سلسلہ اگر دراز ہو اور اسی استدلال کے ساتھ آگے بڑھے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مذاکرات کیسے ’’مذاق رات‘‘ بنتے ہیں۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ جیسے مشرف صاحب کے عہد میں ’’روشن خیالی‘‘ نے ان کے زیرِ سایہ ایک مضحکہ خیز اصطلاح کی صورت اختیار کر لی تھی، اسی طرح اس دور میں ’’مذاکرات‘‘ بھی اسی انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔ روشن خیالی کوئی عیب نہیں ہے، لیکن جنرل صاحب کے سلوک نے اسے عیب میں بدل دیا۔مذاکرات کے ساتھ ہماری حکومت نے جو سلوک کیا ، اس کے بعد مذاکرات ہماری لغت میں نئے مفہوم سے آشنا ہوں گے، جیسے سیاست کوہمارے طرزِ عمل نے نئے معانی پہنا دیے ۔ اب ہر کوئی عمران خان تو نہیں ہوتا کہ ان کے کہے گئے الفاظ کے بھی اچھے معانی دریافت کر لیے جائیں۔ تفنن برطرف، مولانا لدھیانوی کی حد تک ، اس مقدمے میں وزن ہے۔ وہ ہمارے ہاں مو جود ایک نقطۂ نظر کے ترجمان ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شدت پسندانہ ہے۔اس کی ترویج اور ردِ عمل سے مذہب کی تفہیم کا اختلاف اتنا بڑھا کہ سماجی امن کے لیے خطرہ بن گیا۔ خود یہ نقطۂ نظر رکھنے والوں کی پہلی صف الٹ گئی۔سب راہنما مار ڈالے گئے۔ کوئی باقی نہیں بچا۔ تشدد اس گروہ سے اس طر ح منسوب ہو گیا کہ آج ان کے مقتولین کا نوحہ کہنے والا کوئی نہیں۔یہ بات خود ان لوگوں کے سوچنے کی ہے کہ ان کا خون، خونِ خاک نشیناں بن کر کیوں رزقِ خاک ہوا؟ مجھے تو اس وقت مولانالدھیانوی کی بات کو موضوع بنانا ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا مقصود تشدد کو روکنا ہے۔ بنیادی خیال یہی ہے کہ جن لوگوں نے تشدد کو بطور ہتھیار اپنا لیا ہے، انہیں کسی طرح روکا جائے۔طے ہوا کہ ان سے براہ راست بات کی جائے۔اگر استدلال کے ساتھ گفتگوممکن ہو اور ان کو قائل کیا جا سکے یا ان کی کسی بات کو قبول کیا جا سکے تو تشدد روکنے کایہ سب سے بہتر طریقہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ریاست کا یہ حق محفوظ ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کرے اور سماج میں قانون کی بالا دستی کو مستحکم کرے۔اس مقدمے میں وزن ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسے اکثریت کی تائید حاصل ہے۔ اس وقت اگر اضطراب ہے تو اس وجہ سے کہ مذاکرات کا عمل آگے بڑھتا دکھائی نہیں دے رہا۔ تشدد جاری ہے اور اس کی روک تھام نہیں ہو رہی۔ ان لوگوں کی مایوسی بڑھتی جا رہی ہے جو مذاکرات کے حا می ہیں۔عمومی تأثر یہی ہے کہ حکومت کو اس باب میں جو پیش قدمی کرنی چاہیے تھی، وہ نہیں ہو سکی یا یہ کہ اس کے شواہد موجود نہیں ہیں۔ صرف مولانا فضل الرحمن مذاکراتی عمل پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی سطح پر کوئی ایسا سلسلہ جنبانی قائم ہے ، جو مولانا کے علم میں ہے، لیکن باقی لوگ بے خبر ہیں۔یہ بے خبری حکومت کے حق میں نہیں ہے۔ اگر فی الواقعہ کوئی سلسلۂ گفت و شنید جاری ہے تو عوام کے سامنے آنا چاہیے ۔ بصورتِ دیگر یہ اضطراب حکومت کے خلاف جذبات کو تقویت پہنچائے گا۔ حکومتی تاخیرمذاکراتی عمل پر اعتماد کو متاثر کر رہی ہے۔تاہم اب بھی اصولی طور پر اکثریت اسے ایک بہتر متبادل سمجھتی ہے۔میرا خیال ہے کہ مذاکراتی عمل کا دائرہ ریاست میں موجود دوسرے اختلافات تک بڑھا دینا چاہیے،کم از کم ان لوگوں کی حد تک ،جن کے نقطہ نظر میں شدت ہے لیکن انہوں نے گروہی طور پر ہتھیار نہیں اٹھائے۔مو لا نا لد ھیانوی کا شمار میں ان ہی لوگوں میں کر تا ہوں۔اگر وہ مذاکرات کی بات کر رہے ہیں تو اسے سنجیدگی سے لیا جا نا چاہیے۔میں ان کی اس خواہش کی تائید کر تے ہو ئے دو باتیں کہنا چا ہتا ہوں۔ایک یہ کہ حکومت اس کا آغاز کرے۔اس میں سماج کے دوسرے طبقات ،علماء، سول سوسائٹی اور میڈیاکے سنجیدہ عناصر کو شامل کیا جا ئے۔اگر حکومت ابتدا نہ کرے تو پھر میڈیا اور سول سوسائٹی کو پہلا قطرہ بننا چاہیے۔اگر میڈیا پاک بھارت مذاکرات کا آغاز کرا سکتا ہے تو بین المسالک مذاکرات کا کیوں نہیں؟کیا یہاں امن کی آشا کی ضرورت نہیں؟میرا مشورہ ہوگا کہ اسے ٹاک شوزکا موضوع بنانے سے پہلے محدود حلقے میں زیرِ بحث لایا جائے۔ جب اس کی کچھ بنیادیں طے ہو جائیں پھر اسے عامتہ الناس کے سامنے لایا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مذاکرات کے لیے ایک ایجنڈے کا تعین ہو۔میرے نزدیک، چند سوالات اس ضمن میں اہم ہیں۔ ٭ مذہبی جماعتوں اور علما کا سماجی دائرہ کار کیا ہے؟اس حوا لے سے مو جودہ صورتِ حال کیا ہے؟ ٭ کیا کافر اور غیر مسلم میں فرق ہے؟ ٭ کسی فرد یا گروہ کی تکفیر کے لیے بنیادی شرائط کیا ہیں؟یہ حق کس کو ہے:علما، مذہبی گروہ،ریاست یا پھر کسی کو نہیں؟ ٭ احترامِ مسلک و مذہب کی حدود کیا ہیں؟ہمارے مو جود قوانین کس حد تک ان کا لحاظ رکھتے ہیں؟ ہمارے ہاں تشدد کی ایک بڑی وجہ مذہبی اور مسلکی انتہا پسندی ہے۔اس کا آ غاز نقطہ نظر کی شدت سے ہو تا ہے۔پھر لوگ حسبِ توفیق اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔کوئی شعلہ بیانی پر اکتفا کرتا ہے اور کوئی شعلے اگلتے ہتھیار اٹھالیتا ہے۔اگر مذہبی واعظین اور مبلغین ایک اخلاقی ضابطہ کار کے پابند ہو جائیں تومذہبی اختلاف سماجی مسئلہ نہیں بنتا۔ اگر حکومت سماج کو تشدد سے پاک کر نے کا ارادہ رکھتی ہے تو پھر اس کی تمام صورتوں کومخاطب بنا نا ہو گا۔کراچی میں آپریشن کے ذریعے تشدد کی ایک قسم کو ختم کیا جا رہا ہے۔طالبان سے مذاکرات کیے جارہے ہیں۔تشدد کی ایک صورت مذہبی اختلاف کی شدت ہے۔ اسے موضوع بنانا بھی ضروری ہے۔ یہ شدت کہیں نقطہ نظر میں ہے اور کہیں حکمت عملی میں۔مذاکرات کا سلسلہ چل نکلا ہے تو اسے آگے بڑھایا جائے اور مولانا لدھیانوی کی بات پر کان دھرے جائیں۔ یہ کوشش بھی کی جائے کہ مذاکرات، ’’مذاق رات‘ ‘نہ بنیں۔ تصحیح: پچھلے کالم کا اختتام احمد ندیم قاسمی کے ایک شعر پر کیا تھا جو غلط شائع ہوگیا۔ یہ شعر اس طرح ہے: حسن بیگانۂ احساسِ جمال اچھا ہے غنچے کھلتے ہیں توبک جاتے ہیں بازاروں میں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved