یہ درست ہے کہ بھٹو صاحب کا مقدمہ لاہور کی سیشن کورٹ سے ہائی کورٹ میں منتقل کر دیا گیا۔ مولوی مشتاق حسین کی زیرِ قیادت پانچ رکنی بینچ نے اس کی ابتدائی عدالت کے طور پر سماعت کی‘ اس طرح بھٹو صاحب اپیل کے ایک حق سے محروم ہو گئے۔ اگر ان کا مقدمہ سیشن کورٹ میں چلتا تو انہیں دو اپیلوں کا حق حاصل ہوتا۔ پہلی اپیل ہائی کورٹ میں دائر ہوتی‘ اگر وہ مسترد ہو جاتی تو پھر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا۔ ان کا مقدمہ سیشن کورٹ سے براہِ راست ہائی کورٹ میں شروع کرکے انہیں اپیل کے ایک حق سے محروم کر دیا گیا۔ مرحوم کے کئی مداح اسے ناانصافی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس دلیل میں وزن ہو سکتا ہے لیکن آخری فیصلہ تو پھر بھی سپریم کورٹ ہی نے کرنا تھا۔ اگر اپیل دو مرحلوں سے گزر کر وہاں پہنچتی تو بھی اور ایک مرحلے سے گزر کر پہنچتی تو بھی سپریم کورٹ ہی کا فیصلہ حرفِ آخر ہوتا۔ دو اپیلوں کے ذریعے چند ہفتے مزید مل جاتے‘ جو کام اپریل میں ہوا‘ وہ جون یا جولائی یا اگست یا ستمبر میں ہو جاتا۔ اس سے مقدمے کی نوعیت اور حیثیت تو متاثر نہیں ہوتی۔ استغاثہ بھی وہی تھا اور صفائی پیش کرنے والے بھی وہی تھے۔ فریقِ مقدمہ بھی وہی رہے اور گواہان بھی وہی تھے۔ تفتیش کرنے والے اداروں اور صفائی پیش کرنے والوں کی فائلیں بھی وہی تھیں‘ اس لیے یہ دعویٰ درست نہیں کہ اپیل کا ایک اور حق مل جاتا تو فیصلہ مختلف ہو سکتا تھا۔ اگر مقدمے کی سماعت جلد مکمل ہو جاتی تو سپریم کورٹ کے جو جج ریٹائر ہوئے یا بیمار پڑ کر بینچ سے نکل گئے‘ وہ بھی فیصلہ سازی میں شریک ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسے دو جج (جسٹس قیصر خان اور جسٹس وحید الدین) بھٹو صاحب کے حق میں رائے رکھتے تھے‘ ان کے ریمارکس سے یہ تاثر ملتا تھا‘ لیکن ایک ریٹائر ہو گئے تو دوسرے کو دِل کے دورے نے ناکارہ کر دیا۔ اگر ابتدائی سماعت سیشن کورٹ میں ہوتی تو پھر سپریم کورٹ میں معاملہ پہنچتے پہنچتے مزید تاخیر ہو جاتی‘ جو جج صاحبان سپریم کورٹ سے رخصت ہو گئے وہ تو بہرحال رخصت ہو جانا تھے۔ اگر اس ''مفروصے‘‘ کو وزن دیا جائے تو پھر صفائی کے وکلاء کو اپنے دلائل جلد مکمل کر لینا چاہیے تھے۔ بھٹو صاحب کے بڑے وکیل یحییٰ بختیار پر یہی الزام لگتا آ رہا ہے کہ انہوں نے مقدمے کو طول دیا‘ اگر وہ چاہتے تو اپنے دلائل کو فوجداری وکیل کے انداز میں محدود اور مختصر کر کے تاریخ کا رُخ بدل سکتے تھے۔ انہوں نے قتل کا مقدمہ سیاسی انداز میں لڑا اور بھٹو صاحب کو پھانسی کے تختے پر (نادانستہ ہی سہی) لے جانے میں کردار ادا کر گئے۔ یحییٰ بختیار اپنی زندگی میں اس الزام کا جواب دیتے تھک گئے‘ ان کا کہنا تھا کہ میں تو ''صرف‘‘ 57دن بولا‘ 37دن شہادت ہی پڑھتا رہا۔ ریکارڈ پر ہزاروں صفحات آ گئے تھے‘ وہ سب پڑھ رہا تھا‘ 18‘ 19دن مَیں نے بحث کی‘ 38دن اعجاز حسین بٹالوی (وکیل سرکار) نے بحث کی۔ انہوں نے دو اخبار نویسوں پر ہتکِ عزت کے مقدمات بھی دائر کیے۔ ان میں سے ایک تو مون ڈائجسٹ کے مدیر ادیب جاودانی تھے اور دوسرے عظیم الشان کالم نگار حسن نثار۔ ادیب جاودانی نے مولوی مشتاق حسین سے یہ بات منسوب کی تھی کہ بھٹو صاحب کے مقدمے کو اُلجھانے میں یحییٰ بختیار کا ہاتھ تھا۔ وہ تو یہاں تک کہہ گزرے تھے کہ اگر بھٹو صاحب کا وکیل میں ہوتا تو فیصلہ ان کے خلاف نہ آتا۔
لاہور ہائی کورٹ میں دورانِ سماعت تلخی پیدا ہوئی اور بھٹو صاحب نے کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔ ان کی طرف سے صفائی کا کوئی گواہ پیش نہیں کیا گیا۔ وکیلِ صفائی پر لازم تھا کہ وہ اپنے موکل کو روکتے‘ بائیکاٹ نہ کرنے دیتے اور اپنے گواہان بہرطور پیش کرتے‘ مختلف رویہ اختیار کیا گیا تو اس کا یہ مطلب نکالا گیا کہ انہیں مطلوبہ معیار کے گواہانِ صفائی میسر نہیں ہیں۔
مولوی مشتاق حسین لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر تو کر دیے گئے تھے لیکن انہیں ''قائم مقام‘‘ ہی رکھا گیا‘ جہاں تک مجھے یاد ہے وہ کبھی مستقل چیف جسٹس نہیں بنائے گئے۔ یہی سلوک ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان کے ساتھ بھی کیا گیا۔ مولوی صاحب چیف جسٹس کا منصب سنبھالے ہوئے تھے کہ انہیں چیف الیکشن کمشنر بھی مقرر کر دیا گیا۔ یوں وہ بیک وقت دونوں عہدوں پر کام کرتے رہے۔ (قائم مقام) چیف الیکشن کمشنر کے طور پر ان کا جنرل ضیاء الحق سے رابطہ رہتا تھا۔ یہ محض اتفاق تھا یا جنرل ضیاء الحق کے ''قانونی دماغ‘‘ شریف الدین پیرزادہ کی کاری گری تھی کہ انہوں نے ان دونوں کے درمیان (اپنے مخصوص جادوئی انداز میں) ماورائے عدالت تعلق کا راستہ ڈھونڈ لیا تھا۔ بھٹو صاحب کے وکلاء کو یہ معاملہ عدالت میں اٹھانا اور چیف الیکشن کمشنر کو اپنے مقدمے سے دستبردار کرانے کے لیے دباؤ میں لانا چاہیے تھا لیکن اس طرح کی کوئی درخواست تلاش نہیں کی جا سکی۔ مولوی صاحب اور بھٹو صاحب کے درمیان الفاظ کا بے دریغ استعمال ہوا لیکن یہ نکتہ کہیں اُٹھا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبدالرشید نے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان سے اس لیے ملنے سے معذرت کر لی تھی کہ ان کی عدالت میں ایک ایسا مقدمہ زیر سماعت تھا جس میں مرکزی حکومت بھی فریق تھی تو اپنے آپ کو بہت ہی ارفع مقام پر فائز سمجھنے والے مولوی صاحب کو یہ احساس دلانا وکیلِ صفائی کا کام تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کا منصب سنبھالنے کے بعد انہیں منصف کے طور پر فرائض ادا نہیں کرنے چاہئیں‘ بالخصوص اُس مقدمے میں جس میں حکومت ایک بڑے فریق کے طور پر سامنے آ چکی ہو۔ یہ بھی تعجب انگیز ہے کہ مقدمے کی لاہور ہائی کورٹ منتقلی کے خلاف کوئی باقاعدہ درخواست دائر نہیں کی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ یہ درخواست رد کر دیتی تو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جاتی۔ پاکستان کے نظامِ قانون کے تحت اگر کوئی فریق مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے کسی حق پر اصرار نہیں کرتا تو بعدازاں وہ اس کا حوالہ دے کر مظلومیت کا تاثر قائم نہیں کر سکتا۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ مولوی مشتاق حسین پر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں کیا گزری۔ ایئر مارشل اصغر خان نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی کہ عام انتخابات کی تاریخ مقرر کی جائے۔ سپریم کورٹ نے مارشل لاء کو جو جواز فراہم کیا تھا‘ اس کے مطابق انتخابات کو غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مولوی صاحب کے زیر قیادت فُل بینچ نے اس کی سماعت شروع کر دی‘ کئی روز وکلاء اپنے دلائل دیتے رہے۔ یہ سلسلہ مکمل ہوا تو فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ اُسی رات چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے ان کا ''بھٹو‘‘ بنا ڈالا۔ جس طرح انہیں ایوانِ وزیراعظم سے رخصت کیا گیا تھا‘ اُسی طرح لاہور ہائی کورٹ کو اپنے ''بھٹو‘‘ سے ہاتھ دھونا پڑے۔ مولوی صاحب کو سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کر دیا گیا۔ انہیں اگلے روز اپنے کمرۂ عدالت کی شکل دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ وہ فل بینچ ٹوٹ گیا جس نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ مولوی صاحب کو انتخابات کی تاریخ کے لیے فرمان جاری کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ اگر وہ فیصلہ محفوظ کرنے کے بجائے اُسے صادر فرما دیتے تو تاریخ ایک نیا موڑ مڑ جاتی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ (جاری)
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved