تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     28-04-2024

یوکرین‘ کینیڈا‘ آسٹریلین کسان زیادہ پیارے

کسان ہر دفعہ لٹ جاتے ہیں۔ اس وقت تو وہ گندم کے بحران کا سامنا کررہے ہیں ورنہ پورا سال وہ کسی نہ کسی بحران کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ اب ہمارے کسان فرانس کے کسان تو ہیں نہیں کہ سب کچھ جام کر دیں اور حکومت کو مجبور کر دیں کہ ان کی باتیں مانی جائیں۔
کسان کیونکہ شہری میڈیا کو اشتہار نہیں دے پاتا لہٰذا ان کے مسائل پر توجہ بھی کم دی جاتی ہے‘ورنہ یہی دیکھ لیں کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر انہی کسانوں سے اربوں روپے کا GIDC ٹیکس اکٹھا کیا گیا تھا۔ آپ کہیں گے اس ٹیکس یا پائپ لائن کا بھلا کسانوں سے کیا تعلق۔ اگلوں نے جب ٹیکس لینا تھا تو کسانوں تک سے پائپ لائن تک کا ٹیکس لے لیا۔ جواز یہ تھا کہ جو کھاد فیکٹریوں میں گیس استعمال ہورہی ہے اس پہ ٹیکس دینا ہے تاکہ پائپ لائن بچھا سکیں۔ کیونکہ ایرانی گیس ان کھاد فیکٹر یوں میں بھی استعمال ہوگی لہٰذا کسان بھی ٹیکس دیں۔ حکومتیں پندرہ سال تک ان کسانوں سے ٹیکس لیتی رہیں اور پائپ لائن تک نہیں بچھی۔ اربوں روپے اکٹھے ہوئے تو ان کھاد کمپنیوں اور دیگر نے کہا کہ ہم تو جو سات آٹھ سو ارب روپے اکٹھے کیے تھے وہ حکومت کو نہیں دیتے۔ عمران خان وزیراعظم بنے تو ان سے سودا کیا کہ چلیں آدھے آدھے کر لیتے ہیں۔ یوں تین سو ارب روپے سے زائد ان کھاد فیکٹریوں اور دیگر اداروں کو معاف کیے گئے۔کسانوں سے پیسہ لے کر کھاد فیکٹریوں کے مالکان کو اربوں معاف کر دیے گئے۔ وہی کسان جنہوں نے بلیک میں کھاد خریدی تھی۔ وہ کسان جنہیں گیس پائپ لائن کے نام پر بھی لوٹا گیا اور ان سے اکٹھا کیا گیا ٹیکس بڑے بڑے شہری بزنس مین کھا گئے۔ اب وہ کسان پھر رُل رہے ہیں کہ ان کی گندم کا ریٹ کوئی نہیں دے رہا۔ سرکاری ریٹ 3900 روپے تھا تو اب ڈھائی سے تین ہزار روپے کے درمیان مڈل مین دے رہا ہے۔ پاسکو اور صوبائی فوڈ ڈیپارٹمنٹ چپ چاپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاسکو اِن کسانوں کو بار دانہ نہیں دے رہا۔ اب بچ بچا کر کسانوں کے پاس ایک ہی حل ہے کہ وہ کم قیمت پر اپنی گندم بیچیں اور نقصان اٹھائیں۔ سارا سال کسانوں نے کھاد فیکٹریوں کی مقرر کردہ قیمت پر کھاد خریدی، حکومت کے سرکاری ریٹ پر تیل خریدا، بیج خریدا‘سرکاری ریٹ سے بجلی کے نرخ ادا کیے‘ لیکن اب جب ان کی فصل کی باری آئی ہے تو اس وقت سرکار اپنے ریٹ پر بھی گندم نہیں خرید رہی۔ سب کچھ شہری بابو فکس کرتے ہیں۔ جب ملک میں گندم کی قلت ہو جائے تو ڈپٹی کمشنرز پولیس ساتھ لے کر کسانوں کے گھروں پر چھاپے مار کر گرفتار کر لیتے ہیں کہ تم نے گھر میں گندم سٹور کیوں کی ہے‘ تم ذخیرہ اندوزی کا جرم کررہے ہو۔ وہی ڈپٹی کمشنر دفعہ 144لگا دے گا کہ گندم ضلع سے باہر نہیں جا سکے گی۔ یوں پولیس اور قانون کا سہارا لے کر ضلعی انتظامیہ ساری گندم زبردستی گھروں سے اٹھا کر کسانوں کو جیل میں ڈال دیتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنا ٹارگٹ پورا کرنا ہوتا ہے۔ ٹارگٹ کے نام پر ساری ماردھاڑ کی جاتی ہے۔ اب کہاں ہیں ڈپٹی کمشنرز اور پولیس افسران جو پچھلے سال کسانوں کے گھروں پر چھاپے مار کر گندم برآمد کررہے تھے؟ اب سب غائب ہیں۔ اب کسان کو آزادی ہے کہ وہ اپنی گندم ضلع سے باہر جا کر بیچے‘ اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ پچھلے سال تک تو افغانستان کے تاجروں نے کسانوں کی کھڑی فصلوں تک کے سودے کر لیے تھے اور انہیں سرکاری ریٹ سے زیادہ ریٹ آفر کیا جارہا تھا۔ اس وقت یہ خطرہ تھا کہ ساری گندم افغانستان پہنچ جائے گی اور پاکستان میں گندم کی کمی ہوجائے گی اور ہمیں ڈالرز مانگ کر باہر سے منگوانی پڑے گی۔ اور یہی ہوا۔ پچھلے سال گندم کم ہونے کی وجہ سے باقاعدہ مہم چلائی گئی کہ گندم زیادہ کاشت کی جائے۔ اب جب گندم زیادہ کاشت ہوگئی ہے تو حکومت نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں کہ ہم نہیں خرید سکتے۔ تو اب کسان اس گندم کو کہاں لے کر جائے؟ اس کا فائدہ اب مڈل مین کو ہورہا ہے کیونکہ کسان اپنی فصل کو کھیت میں کھڑا رکھ سکتا ہے اور نہ ہی کاٹ کر سٹور کرسکتا ہے کہ جب اچھا ریٹ ملے تو نکال کر بیچ دے ۔ کسان کی ساری امیدیں گندم کی فصل سے ہوتی ہیں۔ یہ اس کی سب سے بڑی کیش کراپ سمجھی جاتی ہے۔ اس نے جہاں سال بھر کے ادھارواپس کرنے ہوتے ہیں وہیں بچوں کی شادیاں بھی اس فصل کے پکنے کے انتظار میں ہوتی ہیں۔ اس فصل پر ہی گائوں میں خوشی غم کا انحصار ہوتا ہے۔ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی میں پڑھتے بچوں کی سالانہ فیسیں‘ سب کچھ اس فصل پر ادا ہوتا ہے ‘یا فصل بیچ کر پیسے جوڑ لیے جاتے ہیں کہ اگلا پورا سال کھاد‘ بیج اور تیل کی لاگت پوری کرنی ہوتی ہے۔ اوپر سے کسانوں کو فصل کی انشورنس کی سکیم بھی نہیں مل سکی‘ جس وجہ سے جب بھی بارش اور طوفانوں سے ان کی فصلیں برباد ہوئیں تو ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔محنت تو گئی سو گئی ان کا فصل پر لگایا سرمایہ اور کچھ کمانے کی امیدیں بھی ساتھ ہی دم توڑ گئیں۔
دوسری طرف ہم بحران پیدا کرنے کے بڑے ماہر ہیں۔ یہ گندم کا بحران بھی ایسے ہی پیدا نہیں ہوا اس کے لیے بڑی محنت کی گئی ہے۔ نگران حکومت نے گندم امپورٹ کرنے کی اُس وقت اجازت دے دی جب نئی فصل دو ماہ بعد آنے والی تھی۔ ابھی جنوری میں لاکھوں ٹن گندم پاکستان پہنچی ہے ‘جبکہ اپریل میں نئی فصل کی کٹائی ہونی تھی۔ اب بتائیں جب آپ باہر سے لاکھوں ٹن گندم دو ماہ پہلے لا کر مارکیٹ میں پھینک دیں گے تو کسانوں کی گندم کون خریدے گا؟ آپ نے غیرملکی کسانوں کو تو ڈالرز دے دیے لیکن اپنے کسان کو روپے میں بھی ادائیگی کرنے کو تیار نہیں۔ کسانوں کے حوالے سے پیپلز پارٹی حکومت بہتر رہی۔ ہمیشہ سپورٹ پرائس پیپلز پارٹی دور میں بڑھائی گئی ‘ مسلم لیگ(ن)ہو یا عمران خان حکومت وہ پرائس پر کوئی فیور نہیں کرتیں۔ مسلم لیگ(ن) کو تو کسانوں کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ تو اللہ بھلا کرے سندھ حکومت کا جس نے 1400 روپے فی من سے قیمت بڑھائی تو عمران خان حکومت پر دبائو پڑا کہ وہ بھی بڑھائے۔ سندھ حکومت نے قیمت بڑھائی تو فیڈرل حکومت اور پنجاب کو بڑھانی پڑی۔ پیپلز پارٹی کے 2008ء میں سپورٹ پرائس بڑھانے سے ہی 2009ء سے 2019 ء تک گندم سرپلس تھی۔ باہر سے نہیں منگوانی پڑی۔ کسانوں نے اس ملک کے ڈالرز بچائے اور اب خود کو تباہ کروائے بیٹھے ہیں۔ عمران خان کے دور میں دس ارب ڈالرز کی گندم، کاٹن، دالیں، چینی وغیرہ باہر سے منگوائیں گئیں اور یہ ڈالر ادھار لیے گئے۔ ہر سال مسلسل گندم اور کاٹن منگوائی جاتی رہی۔ کیا اس ملک میں کوئی محکمہ نہیں جس کا کام یہ طے کرنا ہو کہ سال میں کس وقت گندم باہر سے منگوانی ہے تاکہ مقامی فصل تباہ نہ ہو جائے‘ کسان نہ رُل جائے۔ وہی بات کہ اب ہمیں مانگنے کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ ہم کہتے ہیں چھوڑو یار کون خود ڈالرکمائے یا ڈالر بچائے‘ ہم مانگ لیں گے۔ اب مانگے کے جن ڈالروں کے عوض گندم جنوری میں ہمارے نگرانوں نے منگوا لی اُن سے کوئی پوچھنے والا ہے کہ یہ کیسا ظلم کیا ہے؟ ہمارے حکمران ڈالر ادھار لے کریوکرین، کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکہ کے کسانوں سے گندم منگوائیں گے لیکن اپنے کسان سے نہیں خریدیں گے۔ کسی دوست نے فون پر کہا کہ اس گندم میں ہمارے افغان بھائیوں کا حصہ رکھا جاتا ہے وہ بھی نہ بھولا کریں۔ میں نے کہا: جی بالکل، چالیس سال ہم نے بڑی محنت کی۔ کوشش کی۔ لہو بہایا کہ کسی طرح افغانستان ہمارا پانچواں صوبہ بن جائے۔ افغانوں نے سمجھایا کہ صاحب رہنے دیں جیسے ہم رہ رہے ہیں۔ ہم نے کہا نہیں۔اب انہوں نے آپ کو اپنا صوبہ سمجھ لیا ہے تو پھر گلہ شکایت کیسی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved