تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     28-04-2024

فنڈزکی تقسیم کا قدیم فارمولا

خیبرپختونخوا حکومت وفاقی حکومت سے بقایا جات وصول کرنے کا پلان ترتیب دینے میں مصروف ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کے دعوے کے مطابق اے جی این قاضی فارمولے کے تحت پن بجلی کی مد میں وفاق کے ذمے 1510ارب روپے‘ نیشنل گرڈ کو بیچی جانے والی صوبائی بجلی کی مد میں چھ ارب روپے‘ این ایف سی میں سالانہ 262ارب روپے ہیں‘ جبکہ ضم شدہ قبائلی اضلاع کے 10سالہ پلان کے تحت صوبے کو 500ارب روپے میں سے صرف 103ارب روپے ملے ہیں۔ یہ ایک خطیر رقم ہے اور عام شہری کی نظر سے دیکھا جائے تو صوبے کے پیسے اسے ضرور ملنے چاہئیں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی سیاست کا مرکز و محور ان دنوں صرف وفاق سے فنڈز کا حصول بن کر رہ گیا ہے۔ خیبرپختونخوا کا وفاق سے بقایا جات کا دعویٰ کس حد تک درست ہے‘ اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے 1510ارب روپے کے دعوے کے گتھی کو سلجھاتے ہیں۔ اے جی این قاضی فارمولا ایک ایسا فارمولا ہے جو وفاق اور صوبوں کے درمیان بجلی کے خالص منافع کی تقسیم کا تعین کرتا ہے۔ اس فارمولے کو 1991ء میں وضع کیا گیا تھا اور اس کا نام اُس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ اے غنی قاضی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ یہ فارمولا تین عوامل‘ یعنی صوبے میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت‘ آبادی اور صوبے میں بجلی کی کھپت پر مبنی ہے۔ فارمولے کے تحت ہر صوبے کو بجلی کے خالص منافع کا حصہ اس کے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت‘ آبادی اور بجلی کی کھپت کے تناسب سے ملتا ہے۔ اے جی این قاضی فارمولا پر کئی برسوں سے تنازع چلا آ رہا ہے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان جیسے صوبوں کا مؤقف ہے کہ انہیں اس فارمولے کے تحت اپنا پورا حصہ نہیں مل رہا۔ ان صوبوں کا کہنا ہے کہ اس فارمولا پر نظر ثانی کی جانی چاہیے اور اسے زیادہ منصفانہ بنایا جانا چاہیے۔ 2018ء میں وفاقی حکومت نے اے جی این قاضی فارمولے پر نظر ثانی کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اپنی سفارشات 2021ء میں پیش کیں جن میں صوبوں کیلئے بجلی کے خالص منافع کا حصہ بڑھانے کی تجویز شامل تھی‘ تاہم ابھی تک ان سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ۔ وفاق کے اعداد و شمار اس کے بالکل برعکس ہیں جس کا اظہار شہباز شریف نے دوسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں یوں کیا تھا کہ جاری مالی سال کے دوران 12300ارب روپے کے محصولات کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کے بعد 7300 ارب روپے وفاق کے پاس بچتے ہیں۔ سود کی ادائیگی 8000ارب روپے ہے‘ یعنی ہم 700ارب روپے کا خسارہ لے کر چلتے ہیں۔ ایسے میں ترقیاتی منصوبوں‘ صحت و تعلیم کی سہولیات اور ملازمین کی تنخواہوں کا پیسہ کہاں سے لائیں گے؟ یہ سب قرض لے کر کئی برسوں سے دیا جا رہا ہے۔ جبکہ وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کے مطابق اس سال ہمیں قرضوں کی ادائیگی کیلئے 8 ہزار ارب روپے درکار ہیں۔ پنشن کا بجٹ 800ارب اور حکومتی امور چلانے کا 700ارب روپے ہے جبکہ سبسڈیز 900ارب اور دفاعی اخراجات 1800ارب روپے ہیں‘ صوبوں کو ٹرانسفرز کی مد میں 1200ارب روپے کا خرچہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو وفاق اپنے فنڈز کا رونا رو رہا ہے کہ صوبوں کو ادائیگی کے بعد ملک چلانے کیلئے وفاق کے پاس پیسے بہت کم بچتے ہیں جبکہ صوبے اپنی جگہ پر وفاق سے فنڈز کے حصول میں شکوہ کناں ہیں۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 160میں اس بات کا ذکر ہے کہ وفاقی حکومت ہر سال مجموعی قومی آمدنی کا ایک خاص حصہ صوبوں کو منتقل کرے گی۔ یہ رقم کس طرح تقسیم ہو گی‘ اس کی وضاحت آرٹیکل 161میں کی گئی ہے جو آبادی‘ ترقی اور ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت جیسے عوامل پر غور کرنے کا حکم دیتا ہے۔ صوبوں کی آبادی کا تناسب انکو ملنے والی رقم کا ایک اہم عنصر ہے۔ زیادہ آبادی والے صوبے کو زیادہ فنڈز دیے جائیں گے۔ پسماندہ علاقوں کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے انہیں نسبتاً زیادہ فنڈز دیے جا سکتے ہیں۔ اگر کسی صوبے میں ٹیکس جمع کرنے کی صلاحیت زیادہ ہے تو اسے کم فنڈز مل سکتے ہیں۔فنڈز کے مسائل کو حل کرنے کیلئے وفاقی حکومت ہر پانچ سال بعد نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی)تشکیل دیتی ہے جو ان تمام عوامل کا جائزہ لے کر صوبوں کو منتقل کی جانے والی رقم کی سفارشات کرتا ہے۔ یہ سفارشات عام طور پر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بات چیت کے بعد منظور کی جاتی ہیں لیکن پچھلے چودہ‘ پندرہ برسوں سے ایک ہی این ایف سی ایوارڈ فارمولے پر عمل کیا جا رہا ہے‘ اس دوران معاشی حالات تبدیل ہو گئے‘ نئے چیلنجز اور تقاضے سامنے آ گئے مگر این ایف سی ایوارڈ کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس وقت جس این ایف سی ایوارڈ کے تحت فنڈز کی تقسیم کی جا رہی ہے وہ یکم جولائی 2010ء سے نافذ ہے۔آئین کے مطابق جولائی 2010ء میں شروع ہونیوالے این ایف سی ایوارڈ کی مدت جون 2015ء کو ختم ہو چکی ہے لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اب بھی آئی ایم ایف نے اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے تو وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ اس مسئلے کو ڈسکس کر رہی ہے۔
آئی ایم ایف نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان وسائل کی تقسیم میں تفاوت کا حوالہ دیتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا ہے کیونکہ 2010ء میں قائم ہونے والے موجودہ فارمولے کے نتیجے میں صوبائی حصص بغیر کسی اضافی ذمہ داریوں کی منتقلی کے کل وفاقی ٹیکسوں کے 47.5فیصد سے بڑھ کر 57.5فیصد ہو گئے ہیں۔ اس سے مالیاتی عدم توازن اور عوامی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا کہ آئینی ترمیم لائے بغیر اور تمام صوبوں کو نئے فارمولے پر متفق کیے بغیر صوبائی حصص میں کمی نہیں کی جا سکتی۔ 2010ء کے این ایف سی ایوارڈ پر پانچ سال کی مدت کیلئے اتفاق کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد اس پر نظرثانی کیلئے کوئی اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔ نئی اصلاحات کیلئے صوبائی حمایت حاصل کرنے کے چیلنج سے نمٹنا‘ بالخصوص سیاسی طور پر متنوع موجودہ منظر نامے کے اندر‘ مخلوط حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ آئینی ترامیم کیلئے ضروری دو تہائی اکثریت رکھنے کے باوجود چاروں صوبائی حکومتوں سے معاہدے کا حصول غیریقینی ہے۔ بلاشبہ 18 ویں ترمیم نے مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے مسئلے کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا کیونکہ ترمیم سے پہلے صوبوں کو ملنے والے فنڈز کی تقسیم کا فارمولا اکثر بحث و مباحثے کا موضوع رہتا تھا اور صوبے یہ شکایت کرتے تھے کہ انہیں ضروریات کے مطابق فنڈز نہیں مل رہے۔ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والے فنڈز کی کم از کم شرح آئین میں متعین کر دی گئی لیکن یہ مسئلہ ایک بار پھر شدت کے ساتھ سر اُٹھا چکا ہے اور خیبرپختونخوا حکومت وفاق کے خلاف منصوبہ بندی کر رہی ہے اس لیے فنڈز کے معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان تنازعات کے حل کیلئے مقتدرہ سے تعاون مانگنے کی تصدیق کی ہے۔ پی ٹی آئی مقتدرہ کے خلاف واضح بیانیہ اپنائے ہوئے ہے‘ اس کے باوجود اس نے وفاق کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے فنڈز کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے مقتدرہ سے مدد طلب کی ہے تو اس کی کسی حد تک گنجائش نکل سکتی ہے‘ تاہم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے اس بیان کہ اگر ہمیں اپنا حق نہ ملا تو اسلام آباد پر قبضہ کریں گے‘ کی کسی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ فنڈز کا معاملہ تمام صوبوں کیلئے یکساں طور پر حل طلب ہے‘ تاہم اس سے پہلے کہ خیبرپختونخوا حکومت کا تلخ رویہ کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ بن جائے‘ اس مسئلے کا قابلِ قبول حل نکالنا ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved