تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     29-04-2024

پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری

پاکستان گزشتہ تین ماہ سے سفارتی توجہ حاصل کر رہا ہے۔ یہ توجہ سعودی عرب‘ قطر اور ایران کی جانب سے ہے اور اس کا نقطہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات ہیں۔ پاکستانی حکام گزشتہ دو سالوں سے خلیجی ریاستوں کے سرکاری اور نجی شعبوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دے رہے تھے۔ امکان ہے کہ پاکستانی کاوشیں جلد ہی عملی صورت اختیار کر لیں گی۔ سعودی عرب پاکستانی معیشت کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی ظاہر کر رہا ہے اور سلامتی و تکنیکی شعبوں میں دو طرفہ تعاون بڑھانے کا خواہشمند ہے۔ ان تعلقات کو وسعت دینے میں سعودی عرب اور پاکستان‘ دونوں کی گہری دلچسپی ہے۔ سعودی نقطہ نظر سے دوسرے ممالک میں سرمایہ کاری سے سعودی معیشت کو متنوع بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور اس سے تیل کی برآمدات پر سعودی مملکت کا انحصار کم ہو جائے گا۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی حکومت اپنی معیشت کو وسیع اور جدید بنا رہی ہے اور نالج‘ ٹیکنالوجی اور سائنس کے لحاظ سے مملکت کو 21ویں صدی میں منتقل کرنا چاہتی ہے لہٰذا سعودی عرب نئے اقتصادی منصوبے لا رہا ہے تاکہ تیل کے وسائل ختم ہونے تک‘ سعودی معیشت کثیر شعبہ جاتی اور وقت کے تقاضوں سے نمٹنے کیلئے لچکدار ہو جائے۔ اس مقصد سے سعودی عرب مختلف ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور پاکستان بھی سعودی سرمایہ کاری کی ایک اہم منزل ہو سکتا ہے۔
رمضان کے آخری ہفتے میں وزیراعظم شہباز شریف کے سعودی دورے کے دورے کے موقع پر پاکستان اور سعودی عرب نے سرمایہ کاری کے امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ بعد ازاں سعودی وزیر خارجہ نے 15‘ 16 اپریل کو پاکستان کا دورہ کیا تو معاشی تعاون اور سرمایہ کاری پر تفصیل سے تبادلہ خیال ہوا۔پاکستان نے سعودی عرب کو 32 بلین ڈالر سے زائد کے منصوبے پیش کیے ہیں۔ اگرچہ سعودی سرمایہ کاروں نے ابھی تک کسی خاص منصوبے کی نشاندہی نہیں کی لیکن ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب کی دلچسپی بلوچستان میں کان کنی کے منصوبوں‘ توانائی اور خاص طور پر بجلی کی پیداوار‘ سیاحت‘ ہوٹلوں‘ زراعت اور متعلقہ صنعتوں میں ہو گی‘ اور اس سے پاکستانی معیشت میں سعودی عرب کو نمایاں مقام حاصل ہو گا۔ پاکستان اس امید کے ساتھ سعودی سرمایہ کاری حاصل کرنے کا خواہشمند ہے کہ اس سے معیشت کی بحالی اور لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی سرمایہ کاری کو ایڈجسٹ کرنے کو ترجیح دی ہے۔ 17 اپریل کو سعودی عرب کے معاون وزیر دفاع بھی مشاورت کیلئے اسلام آباد آئے جبکہ سعودی وزیر دفاع نے 22 تا 24 مارچ کو اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ سعودی عرب دفاع و داخلی سلامتی کے شعبوں میں بھی پاکستان کے تعاون کے حصول میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اس تعاون کی طویل تاریخ ہے۔ دو سال پہلے تک‘ تقریباً پندرہ سو پاکستانی فوجی اور ریٹائرڈ فوجی اہلکار سعودی عرب میں داخلی سلامتی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ یہ پاکستانی فوجی اداروں میں تربیت حاصل کرنے والے سعودی فوجی اہلکاروں کے علاوہ ہے۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائی سے سعودی مرد اور خواتین طلبہ کی ایک بڑی تعداد کراچی اور لاہور میں میڈیکل اور انجینئرنگ کے اداروں میں تعلیم حاصل کرتی تھی‘ جبکہ پاکستانی مزدور اور پیشہ ور افراد اب بھی بڑی تعداد میں سعودی عرب میں ملازمت کر رہے ہیں۔
پاکستان قطر کے نجی اور سرکاری اداروں کو بھی مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرنے پر کام کر رہا ہے۔ پاکستان کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد کے تین بڑے ہوائی اڈوں کو قطری گروپ کو آؤٹ سورس کرنے کے امکانات تلاش کر رہا ہے۔ اس طرح پاکستانی کے ریاستی ملکیتی کاروباری اداروں خاص طور پر پی آئی اے کے مشترکہ انتظام کے لیے خلیجی ریاستوں سے کاروباری شراکت داروں کی تلاش بھی کی جا رہی ہے۔
پاکستان دہشت گرد گروہوں کی سرحد پار نقل و حرکت کے سوال پر تعلقات میں پائے جانے والے تناؤ کو ختم کرنے کے لیے ایران کے ساتھ بھی بہتر معاشی تعلقات کی کوشش کر رہا ہے۔ رواں سال جنوری میں ایران نے پاکستان میں داخل ہونے والے ایک ایرانی دہشت گرد گروہ کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی تھی۔ حکومت پاکستان نے اس پر احتجاج کیا اور جب ایران کی جانب سے تسلی بخش جواب نہ آیا تو پاکستان نے ملحقہ ایرانی علاقے میں مقیم ایک بلوچ گروپ کے خلاف اسی طرح کی جوابی فضائی کارروائی کی۔ پاکستان کے اس ردعمل نے ایران کو پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد درست کرنے اور دونوں سمتوں میں سرحد پار کرنے والے دہشت گرد گروہوں کو روکنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنے پر مجبور کیا۔ ایران چاہتا ہے کہ پاکستان ایرانی گیس حاصل کرنے کے لیے سرحد کے پاکستانی حصے پر گیس پائپ لائن تعمیر کرے‘ جیسا کہ 2013ء کے ایران پاکستان گیس پائپ لائن معاہدے میں طے پایا تھا۔ اس معاہدے کی ایک شق ایران کو نقصانات کے ازالے کا حق دیتی ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2013ء میں اپنی مدت کے آخری مہینے میں ایسی ناپسندیدہ شرط کو قبول کیا۔ نقصانات کے خطرے کی وجہ سے پاکستان نے ایرانی سرحد سے گوادر اور اس سے آگے پائپ لائن قائم کرنے کے لیے ابتدائی کام شروع کر دیا ہے۔ پاکستان گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں کے لیے ایران سے ایک سو میگاواٹ سے زائد بجلی بھی حاصل کرتا ہے؛ تاہم پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں ایک بڑی رکاوٹ امریکی مخالفت ہے۔ امریکہ اس منصوبے کی مخالفت کرتا ہے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں موجودہ فعالیت کا مقصد بھی پاکستان کو ایران سے گیس حاصل کرنے سے روکنا ہے؛ تاہم اگر پاکستان امریکی دباؤ کے سامنے جھکتا ہے اور پائپ لائن کی تعمیر نہیں کرتا تو ایران پاکستان سے ہرجانے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
اسرائیل کے ساتھ ایران کی موجودہ محاذ آرائی پاکستان کیساتھ اقتصادی تعلقات سے ایران کی توجہ کم کر سکتی ہے۔ یکم اپریل کو اسرائیل نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر میزائل حملہ کیا۔ ایران نے 13 اپریل کو اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملہ کرکے اس حملے کا جواب دیا۔ اسرائیل نے 19 اپریل کو ایران کی فوجی تنصیبات پر جوابی میزائل حملہ کیا۔ پاکستان نے شام میں ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے پر تنقید کی اور ایرانی کارروائی کو اسرائیلی کارروائی کا جواب قرار دیا۔ ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان نے دونوں ملکوں میں سفارتی اور معاشی تعاون کے دائرہ کار کو بڑھایا ہے‘ لیکن یہ واضح نہیں کہ پائپ لائن کے مسئلے پر اتفاق ہوا ہے یا نہیں۔
مشرقِ وسطیٰ اور خلیجی خطے کی ریاستوں کے ساتھ اقتصادی تعلقات پاکستان کی معیشت کو فروغ دینے کیلئے اہم ہیں۔ ان کی اہمیت یوں مزید بڑھ جاتی ہے کہ اگست 2019ء سے بھارت کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات معطل ہیں اورکابل میں طالبان حکومت کی وجہ سے افغانستان کے ساتھ معاشی بات چیت بھی اکثر مشکلات کا شکار رہتی ہے؛ تاہم پاکستان میں حزبِ حکومت اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے درمیان جاری تصادم اور ایک سیاسی جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں پر مقدمات اور سزائیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا سبب ہیں۔ ایک اور حوصلہ شکن عنصر دہشت گردی ہے‘ خاص طور پر چینی کارکنوں پر حملے۔ یہ صورتحال پاکستان میں بڑے منصوبے شروع کرنے کیلئے بیرونی ممالک کے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا باعث ہے۔ اگر حکومت غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا چاہتی ہے تو ان مسائل سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved