تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     23-10-2013

چھیاسٹھ سال

تشکیلِ پاکستان سے تقریباً ساڑھے تین ماہ قبل یکم مئی 1947ء کو قائداعظم محمدعلی جناح ؒ سے ممبئی میں ان کی رہائش گاہ پر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے دو نمائندوں نے ملاقات کی۔ ان میں سے ایک جنوبی ایشیا ڈویژن کے سربراہ ریمنڈ (Raymond A. Hare) اور دوسرے بھارت میں امریکی سفارت خانے کے سیکنڈ سیکرٹری تھامس ای ویل (Thomas E Weil) تھے۔یہ ملاقات وہ تھی جس میں طے کرلیاگیاتھا کہ مستقبل میں پاکستان اورامریکہ کے تعلقات کی نوعیت کیاہوگی؟ 1923ء تک امریکہ کو محمدعلی جناح ؒاور مسلم لیگ کا کوئی تعارف نہیں تھا۔کلاوڈ وین ٹائن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان کے 70ملین (7کروڑ ) مسلمان ہر لحاظ سے ایک قوم ہیں اورحکومت کو انہیں ایک قوم ہی تصور کرنا چاہیے‘‘۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل امریکہ کو ہندوستان کی تاریخ ،مذاہب اور سیاست کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے ہندوستان میں دلچسپی لینا شروع کی اورامریکی لیڈروں کا تعارف انڈین نیشنل کانگریس سے ہوا جو 1885ء میں قائم کی گئی تھی۔کانگریس نوآبادیاتی دور کی معروف قومی تحریک بن کرا بھری تھی اور مہاتما گاندھی کو ایشیا کے عوام کی قومی آرزوئوں کا واحد نمائندہ اورترجمان سمجھا جارہاتھا۔ قائداعظم ؒ نے 12نومبر 1930ء کو لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں شرکت کی۔ اس ایونٹ کی روداد ٹائمز میں شائع ہوئی جس میں قائدا عظم ؒکا ذکر بطور مسلمان رہنما کیاگیا ۔ جناح ؒ کئی سال تک حصول پاکستان کے لئے جدوجہد کرتے رہے اور بالآخر انہیں خطے کااہم لیڈر مان لیا گیا۔امریکہ نے پاکستان کا قیام ناگزیر دیکھا تو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں نے قائد اعظم ؒ سے ملاقاتیں شروع کردیں۔1947ء میں یکم مئی اور 2جولائی کو امریکیوں کی بابائے قوم سے ہونے والی ملاقاتیں انتہائی اہم رہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ ملاقاتیں تھیں جن میں ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جناح ؒ نے امریکیوں سے کہاکہ مسلم لیگ انڈین یونین کو تسلیم کرنے کے بجائے ہر صورت پاکستان کا قیام عمل میں لائے گی۔ بابائے قوم نے امریکی سفارت کاروں کو یقین دلایا کہ ایک آزاد اورخود مختار پاکستان امریکہ کے مفاد میںہوگا۔مسلمان ممالک متحد ہوکر روسی جارحیت کامقابلہ کریںگے اوراس صورت میں امریکی امداد کے طلب گار ہوں گے۔ M.S.Venkataramaniاپنی تصنیف The American Role in Pakistan میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے روسی خطرے کے ساتھ ہندوسامراج کو بھی مسلم لیگ کے لئے خطرہ قرار دیا۔قائدنے زور دے کر کہاکہ مشرق وسطیٰ کو ہندوسامراج کے غلبے سے بچانے کے لیے پاکستان کا قیام ضروری ہے ۔14اگست 1947ء کے دن جب پاکستان معرض وجود میں آیا توقائدا عظم ؒدہلی سے کراچی روانہ ہوئے۔ اس موقع پر بھارت میں امریکی سفیر ان کو الوداع کہنے کے لئے ایئر پورٹ پر موجودتھے۔امریکی سفیر نے قائد اعظمؒ کو خراج تحسین پیش کیااورقائد نے امید ظاہر کی کہ امریکہ پاکستان کے مختلف نوعیت کے مسائل حل کرنے میں مدد کرے گا۔اس وقت امریکہ کے صدر ہیری ایس ٹرومین (Harry S.Truman) تھے۔15اگست کے دن امریکی صدر نے پاکستان کے پہلے گورنرجنرل کے نام جو پیغام تہنیت ارسال کیااس کااقتباس توجہ طلب ہے: ’’میںآپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ امریکہ ،پاکستان سے مضبوط دوستی اورخیر سگالی کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرے گا۔امریکی حکومت اورعوام آپ کے ملک کے ساتھ طویل ،قریبی اورخوشگوار مراسم کی توقع رکھتے ہیں۔ہم آپ کی خوشی میں شامل ہیں اورامید رکھتے ہیںکہ پاکستان اپنے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے تیزی سے ترقی کرے گا۔ہم منتظر ہیںکہ نیا ملک انسانیت کی فلاح کے لئے عالمی امور میں تعمیری کردار ادا کرے گا‘‘۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح ؒ نے امریکی صدر کے پیغام تہنیت کاجواب ان الفاظ میں دیا: ’’آپ نے امریکی عوام کی جانب سے پاکستان کے نام مبارکباد اورنیک تمنائوں کا جو گرم جوش پیغام ارسال کیاہے اس سے حکومتِ پاکستان ،عوام اورمیں بے حد متاثر ہوئے ہیں۔ہم دوستی اورخیر سگالی کے جذبات کی بڑی قدر کرتے ہیں۔میرے ذہن میں کوئی شک نہیں کہ یہ امریکہ اورپاکستان کے درمیان طویل قریبی اورخوشگوار تعلقات کاآغاز ہے‘‘۔امریکی صدر کے گرم جوش پیغام اورقائد اعظم ؒ کا محبت آمیزجواب دونوں ممالک کے درمیان طویل ووستی کی سنجیدہ خواہش کا مظہر ہے ۔قائد اعظم ؒکو یقین تھا کہ ابتدائی مشکلات پر قابو پانے کے لئے امریکہ ،پاکستان سے تعاون کرے گا۔ قائداعظم ؒ نے 7ستمبر 1947ء کے کابینہ کے اجلاس میںپاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں ریمارکس دیتے ہوئے کہاتھاکہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور کمیونزم اسلام کی سرزمین پر نہیںپنپ سکتا‘ لہٰذا ظاہر ہے کہ ہمارے مفادات روس کے بجائے دوعظیم جمہوری ملکوں برطانیہ اورامریکہ سے وابستہ ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت برطانیہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غروب ہورہاتھاجبکہ امریکہ سرمایہ دارانہ نظام کا سورج بن کر طلوع ہورہاتھا۔ ہمارے بڑوں نے اس وقت مناسب جانا کہ روس کے بجائے امریکہ کا حلیف بنا جائے۔ پاکستان کے قیام کے صرف دوہفتے بعد ہمارے پہلے وزیر خزانہ غلام محمد(جو بعد میں گورنر جنرل بنے) نے امریکہ کے سفارت کار چارلس لیوئس (Charles Lewis) سے امریکی امداد کے لئے براہ راست درخواست کر دی۔ امریکی ریکارڈ کے مطابق امریکہ نے پاکستان کی بروقت امداد سے گریز کیا۔ امریکہ میں پاکستان کے پہلے سفیر ایم اے ایچ اصفہانی نے پاکستان کی پانچ سالہ معاشی اوردفاعی ضروریات کے لیے 2بلین ڈالر امریکی امداد کی درخواست کی جسے امریکہ نے مسترد کردیا اوربعد میںصرف 10ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ابتدائی دنوں میں پاکستان انتہائی مالی مشکلات کا شکار تھا۔ حکومت پاکستان کے پاس فوج اورسرکاری ملازمین کی تنخواہیں دینے کے لئے بھی سرمایہ نہیں تھا۔نومولود پاکستان کو روس اوربھارت کی جانب سے اپنی سلامتی کاخطرہ بھی تھا لہٰذا مسلم لیگ کے مرکزی رہنما امریکی سفارت کاروں پر مالی امداد کے لئے زور ڈالتے رہے۔ قائداعظم نے فیروز خان نون کو دنیا کے اہم خصوصاً مسلمان ممالک کے دورے پر بھیجا۔فیروز خان نے ترکی میں امریکی سفیر کو باور کرایا کہ ’’پاکستان کے مسلمان کمیونزم کے خلاف ہیں۔ ہندوئوں نے ماسکو میں نہرو کی ہمشیرہ مسز پنڈت کو بھارت کا سفیر تعینات کررکھا ہے۔روسیوں نے بھی اپنا سفیر دہلی میں تعینات کیا ہے جبکہ پاکستان کا ماسکو میںکوئی سفیر نہیں ہے اورنہ ہی روس کا کراچی میں کوئی سفیر ہے۔پاکستان امریکی اشیا کی منڈی بن سکتا ہے۔ لہٰذاامریکہ کوپاکستان سے مالی تعاون کرناچاہیے‘‘۔ پاکستان اورامریکہ کی ’’قابل اعتماد دوستی‘‘ کو 66سال گزر گئے‘ ہم آج بھی امریکہ سے دفاعی اورمالی امداد کا تقاضا کررہے ہیں۔ ’’قابل فخر ‘‘ بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہماری قومی غیرت اور Self respectکا ٹوئن ٹاور ( جڑواں مینار) وہیں ایستادہ ہے جہاں 14اگست 1947ء کو تھا۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف 66سال بعد پھر پاکستان کے لئے کچھ امریکی امداد بحال کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ’’برابری‘‘ کی سطح پر آکر امریکہ سے کہا جاتا ہے کہ ہمیں امداد نہیں امریکی منڈی چاہیے۔ فرض کریں اگر مسلمانوں کے ’’قریبی رشتہ دار‘‘ بارک اوباما ہمارے لئے امریکی منڈی حاضر کردیتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ہم امریکی منڈی میں اپنی کون سی مصنوعات بھیجیں گے؟ پاکستان وہ ملک ہے جہاں بجلی کا ٹیرف امریکہ اوریورپ سے بھی زیادہ ہے۔ مہنگی بجلی سے تیارکردہ ’’دونمبرمال‘‘ امریکہ سمیت کون سی دوست منڈی میں فروخت ہوگا؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved