پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں اناج کی فصلوں کو ہمیشہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ان فصلوں میں گندم مرکزی حیثیت رکھتی ہے‘ اس لیے کہ گندم ہماری خوراک کا لازمی جزو ہے۔ پاکستان میں گندم کی پیداوار نہ صرف غذائی تحفظ کیلئے ضروری ہے بلکہ یہ دیہی معیشت کی بھی جان ہے۔ یہ عنایتِ خداوندی ہے کہ پاکستان دنیا کے صفِ اوّل کے گندم پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے اور تخمینے کے مطابق ہماری گندم کی سالانہ پیداوار تقریباً 22 سے 26 ملین ٹن کے درمیان ہوتی ہے‘ تاہم یہ مقدار سال بہ سال موسمیاتی حالات پر انحصار کرتی ہے۔ گندم کی بھاری پیداوار کے باوجود ہمارا شمار گندم درآمد کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حالیہ چند برسوں میں حکومت کی کوششوں اور جدید زرعی طریقوں کے باعث پیداوار میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔
رواں سیزن میں گندم کی پیدوار تقریباً 28 ملین ٹن بتائی جا رہی ہے۔ صوبہ پنجاب گندم کی مجموعی پیداوار میں تقریباً 70 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ اس کی وجہ پنجاب کا میدانی علاقہ‘ نہری نظام کی دستیابی اور فصلوں کی کاشت کیلئے موزوں موسم ہے۔ سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخوا بھی قابلِ ذکر مقدار میں گندم پیدا کرتے ہیں لیکن پنجاب کی پیداوار ان صوبوں سے کہیں زیادہ ہے۔ 25 کروڑ لوگوں کی غذائی ضروریات کے پیشِ نظر گندم کی پیداوار تو بلاشبہ اہم ہے لیکن فصل کی کٹائی کے بعد اسے محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنا بھی بڑا چیلنج ہے۔ مناسب اور وافر مقدار میں ذخیرہ سازی نہ صرف سال بھر گندم کی دستیابی کو یقینی بناتی ہے بلکہ اس سے مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا ہونے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔ گندم کے محفوظ ذخیرے پیداوار میں ہونے والے اتار چڑھاؤ کو متوازن رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اگر کسی سال موسمیاتی حالات خراب ہوں اور گندم کی پیداوار کم ہو جائے تو حکومت ذخیرہ شدہ گندم کو مارکیٹ میں لاکر قیمتوں کو کنٹرول میں رکھ سکتی ہے‘ تاہم ہمارے پاس گندم کے ذخائر کی موجودہ صلاحیت ناکافی ہے۔ اس کے علاوہ ذخیرہ کرنے کے دوران گندم کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے مناسب انفراسٹرکچر اور جدید ٹیکنالوجی کی بھی کمی ہے۔
پاکستان میں گندم کے ذخائر کی صلاحیت مختلف سرکاری ایجنسیوں مثلاً پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) اور بعض صوبائی اداروں کے زیرِ انتظام ہے۔ حکومت کی گندم ذخیرہ کرنے کی کل موجودہ صلاحیت تقریباً پانچ سے آٹھ ملین ٹن ہے۔ یہ گندم حکومت خود خریدتی ہے۔ نجی شعبہ تقریباً ڈیڑھ ملین ٹن گندم ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عام طور پر پاسکو کے گوداموں میں نئے سیزن سے پہلے تقریباً دو سے تین ملین ٹن گندم ہوتی ہے مگر گزشتہ سال کی ریکارڈ پیداوار کی وجہ سے پاسکو کے گوداموں میں نئے سیزن سے پہلے تقریباً 4.5 ملین ٹن گندم ذخیرہ تھی۔ مزید یہ کہ ضرورت سے زائد گندم درآمد کرنے کے فیصلے نے بحرانی کیفیت پیدا کر دی کیونکہ پچھلے سال جب آٹے کا بحران پیدا ہوا تو پہلے مرحلے میں 20 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔ درآمد کی گئی گندم فروری میں پاکستان پہنچنا تھی لیکن یہ تاخیر کا شکار ہوئی۔ گندم کے پہلے کوٹے میں تاخیر کے باعث مزید 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی منظوری دی گئی اور مجموعی طور پر 30 لاکھ ٹن گندم درآمد کی گئی۔ یہ بد انتظامی نئے سیزن کی گندم کو ذخیرہ کرنے اور گندم کی خریداری میں اہم رکاوٹ ہے۔ گندم کے وافر سٹاک کے باوجود نئے سیزن سے پہلے عوام کو سستا آٹا فراہم کرکے گوداموں میں گنجائش پیدا کی گئی۔ سرکاری سطح پر گندم کی فی من قیمت 3900 روپے مقرر کی گئی ہے لیکن کسانوں سے اس نرخ پر گندم خریدی نہیں جارہی ‘اس لیے کہ تاحال سرکاری طور پر گندم کی خریداری کا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ کسان سرکاری نرخ سے ایک ہزار روپے کم نرخ پر بیوپاریوں کو گندم فروخت کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ موسم کی سنگینی اور قرضوں کی ادائیگی کے پیشِ نظر وہ گندم کو جلد فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ گندم کی اضافی پیداوار نعمتِ خداوندی ہے جس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے۔ قدر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ دن رات محنت کرنے والے کسانوں کو ان کی محنت کا صلہ دیا جائے۔
پنجاب میں گندم کی ریکارڈ پیداوار سے خیبرپختونخوا کو فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ صوبے کیلئے مناسب داموں وافر گندم کا بروقت انتظام ہو سکے۔ خیبرپختونخوا تین بنیادی ذرائع سے گندم اور آٹے کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ ایک مقامی سطح پر پیدا کی گئی گندم‘ تاہم یہ پیداوار صوبے کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں ہوتی۔ خیبرپختونخوا پنجاب سے بھی گندم خرید کر اپنی ضروریات پوری کرتا ہے۔ یہ ذریعہ صوبائی حکومت کو مارکیٹ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور عوام کیلئے گندم کی دستیابی کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ تیسرا ذریعہ وفاقی حکومت کے ذخائر ہیں۔ حکومت عام طور پر ایک بڑا سٹاک برقرار رکھتی ہے تاکہ کسی بھی غیرمتوقع صورتحال جیسے قدرتی آفت یا قیمتوں میں اچانک اضافے سے نمٹنے کیلئے مدد مل سکے۔ ضرورت پڑنے پر خیبرپختونخوا حکومت وفاقی ذخائر سے بھی گندم حاصل کرتی ہے۔ خیبرپختونخوا کے سرکاری گوداموں اور نجی سٹوریج میں گندم کو ذخیرہ کرنے کی کل گنجائش دو ملین ٹن کے قریب ہے جس سے صوبے کی گندم کی سالانہ ضروریات کا صرف 40فیصد ہی پورا ہوتا ہے۔ اب بھی زیادہ وقت نہیں گزرا‘ گندم کی خریداری اور اسے محفوظ کرنے کی منصوبہ بندی کرکے عوام کی سال بھر کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے جو ضرورت مند ہے اُسے ہی آگے بڑھ کر بات کرنی ہو گی۔ ایسا ممکن نہیں کہ آپ لوگوں سے دوری اختیار کریں اور وہ آپ کی ضروریات کا خیال رکھیں۔
افغانستان خشک سالی سے متاثرہ خطہ ہے جہاں گندم کی پیداوار اندرونِ ملک کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کافی نہیں ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے افغانستان وسط ایشیائی ممالک اور پاکستان سے گندم درآمد کرتا ہے‘ تاہم حالیہ برسوں میں افغانستان میں گندم کی سمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ گندم کی یہ سمگلنگ پاکستان جیسے ہمسایہ ممالک کیلئے مسائل پیدا کر رہی ہے۔ پاکستان سے بڑے پیمانے پر گندم کی سمگلنگ کی وجہ سے ملک میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جس سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ پاکستان میں آٹے کی قلت اور گندم کے ذخائر پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس غیرقانونی سرگرمی کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔ کچھ لوگ افغانستان میں بڑے منافع کی وجہ سے گندم کی سمگلنگ کو ایک آسان ذریعۂ معاش سمجھتے ہیں۔ افغانستان میں گندم کی قیمتیں پاکستان سے زیادہ ہونے کی وجہ سے سمگلر سرحد پار گندم کی فروخت سے زیادہ منافع کماتے ہیں۔ افغانستان میں کمزور سرحدی کنٹرول سمگلروں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جو انہیں آسانی سے گندم افغانستان میں پہنچانے کی اجازت دیتا ہے۔ ہم ضرورت سے زائد گندم کو قانونی طریقے سے افغانستان کو برآمد کرکے زرِمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس مقصد کیلئے پاک افغان کشیدگی کو کم کرکے باہمی تجارت کو فروغ دینا ہو گا‘ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت اہم امور کی طرف توجہ دینے کے بجائے نئی تقرریوں میں مصروف ہے۔
اسحاق ڈار وزارتِ خارجہ کے منصب پر فائز ہیں‘ ان کی توجہ کا مرکز سفارتی امور ہونے چاہئیں مگر شنید ہے کہ اُن کی شدید خواہش تھی کہ خزانہ کا قلمدان بھی انہیں مل جائے‘ لیکن جب ایسا نہیں ہو سکا تو نائب وزیراعظم کے نمائشی عہدے سے نواز دیا گیا ہے۔ شاید علامہ اقبال نے ایسے ہی موقع کے لیے کہا تھا:
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved