اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ خونیں انقلاب کب آ رہا ہے۔ میں کہتا ہوں: انقلاب کا راستہ ہمارے کسانوں نے روک رکھا ہے۔ وہ حیران ہو کر پوچھتے ہیں: کسانوں کا انقلاب سے کیا تعلق ہے؟ میں کہتا ہوں: وہی تعلق ہے جو انقلابِ فرانس سے ان کا تھا۔ انقلابِ فرانس میں جہاں دیگر وجوہات کارفرما تھیں‘ وہیں فوری وجہ غلہ بنا تھا۔ کھانے کو گندم نہ تھی‘ روٹی نہیں مل رہی تھی۔ فرانس کی ملکہ کا وہ قول آج تک دہرایا جاتا ہے کہ اگر روٹی نہیں مل رہی تو یہ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ یہ فقرہ فرانس کے شاہی خاندان کی عوام کے مسائل سے دوری اور بے خبری کو اجاگر کرتا ہے۔
فرانس میں انقلاب کی فوری وجہ کسان بنے تھے۔ فرانس میں روٹی اور نمک کی وجہ سے لوگوں میں غصہ پیدا ہوا اور انہوں نے سب کچھ جلا دیا۔ بادشاہ اور ملکہ تک کو قتل کر دیا۔ فرانس میں روٹی اور نمک خوراک کا اہم جزو تصور کیے جاتے تھے۔ لوگوں کو دنگے فساد سے روکنے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ انہیں غلہ یا روٹی ملتی رہے۔ فرانس کی پولیس کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ غلے کی پیدوار سے روٹی تک‘ تمام معاملات کی نگرانی کرے۔ فرانس کے مزدور اور غریب طبقے کا سارا گزارہ روٹی ہی پر ہوتا تھا۔ فرانس میں اٹھارہویں صدی میں مزدور اپنی روزانہ کی مزدوری کا نصف روٹی پر خرچ کرتا تھا لیکن جب 1788ء اور 1789ء میں دو سال مسلسل غلے کی فصل بری طرح متاثر ہوئی اور پیداوار بہت کم ہو گئی تو بحران شروع ہوا۔ ساتھ ہی اس مزدور کی روزانہ کی اجرت‘ جو پہلے روٹی پر پچاس فیصد خرچ ہو رہی تھی‘ اچانک بڑھ کر 88 فیصد ہو گئی اور روٹی کی مہنگائی نے مزدورں کا حشر نشر کر دیا۔ یوں فصل کم ہونے سے ایک طرف قحط کی سی صورتحال پیدا ہو گئی تو دوسری طرف شہروں میں روٹی کی قلت کیساتھ ہی قیمتیں آسمان کو پہنچ گئیں۔ اکثر غریبوں اور مزدورں نے اس صورتحال کا ذمہ دار امیروں کو ٹھہرایا اور ان کے غصے کا رُخ ان کی طرف ہونا شروع ہو گیا۔ ابھی غریب روٹی کو ترس ہی رہے تھے کہ انہی دنوں نمک پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا جو اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ لوگ بغاوت پر تُل گئے اور ان حالات میں فرانس کی ملکہ کا وہ جملہ جلتی پر تیل کا کام کر گیا کہ روٹی نہیں مل رہی تو کیک کھا لو۔ اگرچہ اس جملے پر جدید مؤرخین کی ریسرچ کہتی ہے کہ اس ملکہ نے 1789ء میں ایسی کوئی بات نہیں کی تھی۔
میں نے بھی پچھلے سال لندن سے اس ملکہ پر لکھی گئی ایک نئی کتاب خریدی تو اس میں بھی بہت سارے تاریخی حوالوں سے ثابت کیا گیا تھا کہ یہ جملہ فرانس کی ملکہ نے نہیں کہا تھا بلکہ اس سے تقریباً ایک سو سال پہلے کسی اور شہزادی نے کہا تھا‘ جو انقلابِ فرانس کے دنوں میں ان کے نام سے منسوب کر دیا گیا جس پر غصہ مزید بڑھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ جملہ تو روسو اپنی کتاب ''اعترافات‘‘ میں کسی دوسری شہزادی کے نام سے 1766ء میں لکھ چکا تھا جبکہ انقلاب تو 1789ء میں آیا تھا۔ لندن سے لی گئی اس کتاب کے مطابق جس ملکہ کے حوالے سے یہ جملہ مشہور کیا گیا تاکہ اس کی بے حسی کو اجاگر کیا جائے‘ وہ دل کی بہت اچھی تھی۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ بھوک سے مرتے لوگوں کا مذاق اڑائے گی۔ مصنف کا کہنا تھا کہ فرض کریں اس نے وہ جملہ کہا بھی تھا تو یقین رکھیں اس نے ان عام انسانوں کے لیے پوری محبت سے کہا ہو گا کہ اگر ان بیچاروں کو قحط کی وجہ سے روٹی نہیں مل رہی تو کم از کم کیک ہی کھلائو تاکہ زندہ تو رہیں۔ اس موضوع پر یقینا مختلف نقطہ نظر اور حوالے ہیں۔ لہٰذا اب مؤرخین جتنی بھی کتابیں لکھ کر اس ملکہ کو بے قصور ثابت کرتے رہیں‘ یہ جملہ اب اس ملکہ کے ساتھ جڑ چکا ہے‘ جس کا سرقلم کیا گیا تھا۔ جب ہجوم بپھرا ہوا ہو تو وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔
شیکسپیئر کے کلاسک ڈرامے جولیس سیزر میں بھی یہی کچھ دکھایا گیا۔ جب سیزر کو قتل کرنے کی سازش تیار ہو رہی تھی تو ان میں ایک کردار کا نام Cinna تھا۔ جب بروٹس کو ساتھ ملا کر وہ سب سازشی سیزر کو قتل کر چکے تو لاش پر مارک انتھونی اپنی تقریر سے ہجوم کو اشتعال دلاتا ہے اور ہجوم‘ جو کچھ دیر پہلے بروٹس کو سیزر کے قتل پر داد دے رہا تھا‘ وہ سیزر کے ساتھ ہمدردی محسوس کر کے سازشیوں کو ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے۔ مشتعل افراد ہر طرف آگ لگا دیتے ہیں۔ اس دوران کسی نے مجمع میں آواز دی: وہ رہا سازشی کردار Cinna۔ ہجوم اس کی طرف دوڑا تو Cinna نے چیخ کر کہا: میں وہ سازشی Cinna نہیں ہوں‘ میں اس کا ہم نام ضرور ہوں لیکن میں Cinna the Poet ہوں۔ مجمع میں سے کسی نے آواز لگائی: پھر بھی اسے نہ چھوڑنا‘ یہ بہت بری شاعری کرتا ہے۔ اور ہجوم نے اسے بھی مار ڈالا۔
اس لیے اگر پاکستان میں انقلاب رکا ہوا ہے تو اس کی وجہ زراعت اور کسان ہیں۔ کسان خود اپنی خوراک کی ضروریات بھی پوری کر رہا ہے اور شہروں میں بھی گندم بھیج رہا ہے جس سے کم از کم لوگ بھوکے نہیں مر رہے کہ کسی ملکہ کو کہنا پڑے کہ روٹی نہیں تو کیک کھا لو۔ آپ میں سے کتنے لوگوں نے اپنے علاقوں خصوصاً دیہات میں یہ سنا کہ بھوک کی وجہ سے کسی نے خودکشی کر لی؟ آپ کو کوئی نہیں ملے گا جو کہے کہ اس کے گائوں میں فلاں نے بھوک کی وجہ سے خودکشی کی۔ اگر کبھی کبھار خودکشی کا واقعہ سامنے آئے تو اکثر گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ میں اپنے ضلع لیہ کا بتا سکتا ہوں کہ آج تک کبھی یہ نہیں سنا کہ کسی نے بھوک کی وجہ سے خودکشی کر لی۔ سب جیسے تیسے اپنی گندم اگا لیتے ہیں یا کھیتوں پر مزدوری کر کے غلہ لے جاتے ہیں جو گائوں کا کلچر ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو اس خطہ‘ جو اَب بھارت اور پاکستان پر مشتمل ہے‘ کو دنیا بھر سے لیٹروں نے ہزاروں سال دل بھر کر لوٹا لیکن اس خطے کی زرخیزی اور پیداوار ختم نہ ہوئی۔ سکندر سے افغانیوں‘ ایرانیوں‘ ترکوں‘ عربوں‘ سینٹرل ایشیا‘ منگولوں اور انگریزوں تک‘ سب نے اس کے وسائل پر ہاتھ صاف کیے‘ لوگوں کی فصلیں لوٹیں‘ غلہ لوٹ کر اپنے ملکوں کو لے گئے لیکن یہاں کا کسان ہر تین ماہ بعد نئی فصل کاشت کر کے دوبارہ پیروں پر کھڑا ہو گیا کیونکہ یہ دھرتی سات دریائوں کی سرزمین ہے۔ جس دھرتی سے سات دریا گزرتے ہوں وہاں قحط یا انقلاب نہیں آتے۔
لیکن جدید تقاضوں کے ساتھ بڑھتی آبادی کے بم نے اب حالات تبدیل کر دیے ہیں۔ مجھے ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ انقلاب کا راستہ ہمارا کسان روکے کھڑا ہے‘ جو ہر قسم کے برے حالات میں بھی دیہات میں ساٹھ‘ ستر فیصد آبادی کی روٹی کا بندوبست کر رہا ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ اگر کسان کی فصل کم ہو یا کاشت صرف اپنی ضرورت کی حد تک ہو اور پاکستان کو اربوں ڈالرز کی اجناس باہر سے مہنگے داموں منگوانی پڑیں تو کب تک یہ ملک انقلاب کو روک سکتا ہے؟ لہٰذا اس کسان کو مایوس نہ کریں۔ اگر حکمران سمجھیں تو یہ کسان ان کے محسن ہیں کہ اس ساری لوٹ مار کے باوجود وہ غلہ پیدا کر رہے ہیں‘ جس کا اس وقت کوئی خریدار نہیں۔ ڈریں اس وقت سے جب کروڑوں لوگ غلہ تلاش کر رہے ہوں اور انہیں غلہ نہ ملے‘ جیسے فرانس میں نہیں مل رہا تھا اور پھر جو کچھ بادشاہ اور ملکہ ساتھ ہوا تھا‘ اس کی تفصیلات پڑھ کر تین سو سال سے زائد عرصے بعد بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
کسان اس وقت حکمرانوں اور بیورو کریسی اور عوام کے درمیان وہ پل ہے جس پر یہ سب کھڑے ہو کر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اگرحکمران اپنے پائوں پر کھڑے رہنا چاہتے ہیں تو کسان پر تشدد نہ کریں‘ اسے نہ ماریں۔ اس کی فصل خریدیں۔ کسان کی عزت کریں۔ کسان اس کرپٹ سیاسی ایلیٹ کے خلاف خونیں انقلاب کا راستہ روکے کھڑے ہیں۔ اپنے محسنوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کریں‘ ورنہ فرانس کے بادشاہ اور ملکہ کا انجام ذہن میں رکھیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved