دنیا میں محنت اور سرمائے کی کشمکش چلی آ رہی ہے۔ ایک طبقے کے نزدیک محنت اصل ہے اور اس کے مقابلے میں سرمایہ بے توقیر ہے‘ دوسرے طبقے کے نزدیک سرمایہ اصل ہے اور محنت ثانوی چیز ہے۔ اُن کے نزدیک سرمایہ ہے تو آپ جسمانی محنت اور ذہنی قابلیت سمیت ہر چیز خرید سکتے ہیں۔ وہ سرمائے ہی کو قوت و طاقت کا مرکز سمجھتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کو دنیا میں غلبہ حاصل ہے‘ اس کے مقابلے میں تمام اصول و اقدار بے توقیر ہیں۔ اسلام توسّط و اعتدال کا دین ہے۔ اسلام کے نزدیک سرمایہ سب کچھ نہیں ہے‘ لیکن اپنی جگہ اس کی اہمیت ہے‘ اسی لیے اسلام میں فرض‘ واجب اور نفلی صدقات کا نظام ہے۔ اسلام کے قانونِ وراثت کی حکمت بھی تقسیمِ دولت ہے۔ چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ اور حکمتِ دین کے منافی ہے۔ آج ماضی کی غلامی اپنی اصل شکل میں تو موجود نہیں ہے‘ لیکن سرمایہ داری کے غلبے نے قوموں اور ملکوں کو غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ اسلام محنت کو عظمت دیتا ہے اور محنت کش کو تکریم عطا کرتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) ''کسی شخص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر طعام نہیں کھایا‘ بے شک اللہ کے نبی دائود علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے‘‘ (بخاری: 2072)۔ (2) ''تم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر لائے‘ یہ اُس سے بہتر ہے کہ وہ کسی شخص سے سوال کرے‘‘ (بخاری: 2074)۔ انبیائے کرام علیہم السلام نے مختلف پیشے اختیار کر کے حِرفت کو تکریم عطا کی‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور ہم نے دائود کو تمہارے لیے زِرہ سازی کا فن سکھایا تاکہ تمہیں جنگ کی اذیت سے بچائے‘‘ (الانبیاء: 80)۔
امام رازی لکھتے ہیں: ''قتادہ نے کہا: سب سے پہلے جس نے زِرہ کی صنعت ایجاد کی‘ وہ حضرت دائود علیہ السلام ہیں‘ اس سے پہلے فولاد کے پتروں کو لوگ ڈھال کے طور پر استعمال کرتے‘ حضرت دائود علیہ السلام نے لوہے کے حلقے (چھلّے) بنائے اور اُن کو جوڑ کر قمیص تیار کر لی۔ حسن نے ذکر کیا: لقمان حکیم حضرت دائود علیہ السلام سے ملنے گئے‘ وہ اس وقت زِرہ بنا رہے تھے۔ انہوں نے پوچھنا چاہا لیکن خاموش رہے حتیٰ کہ حضرت دائود علیہ السلام قمیص بنا کر فارغ ہو گئے‘ تب انھوں نے کہا: خاموش رہنا حکمت ہے اور کم لوگ اسے اختیار کرتے ہیں۔ مفسرین نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود علیہ السلام کے لیے لوہے کو نرم فرما دیا تھا اور وہ اس کو آگ میں پگھلائے بغیر دھاگے کی طرح اُس سے زِرہ بُن لیتے تھے‘‘ (تفسیر کبیر‘ جز: 22، ص: 163)۔
علامہ قرطبی لکھتے ہیں: ''یہ آیت حصولِ معاش کیلئے صنعت‘ کاریگری اور حرفت کی اصل ہے۔ بعض جاہل غبی اور متکبر لوگ بعض پیشوں کو حقیر‘ خسیس اور گھٹیا سمجھتے ہیں‘ حالانکہ اسباب‘ صنعتوں اور پیشوں کو اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کا سکھایا ہوا طریقہ ہے‘ سو جو شخص کسی پیشے سے وابستہ ہے‘ وہ درحقیقت کتاب وسنت پر عامل ہے‘‘۔ مزید لکھتے ہیں: ''حضرت آدم علیہ السلام کاشتکاری کرتے تھے‘ حضرت نوح علیہ السلام لکڑی سے چیزیں بناتے تھے‘ حضرت لقمان درزی تھے‘ حضرت طالوت کپڑے رنگتے تھے‘‘ (تفسیر قرطبی‘ ج: 11، ص: 320)۔
علامہ ا بن جوزی لکھتے ہیں: ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے بیان کیا: حضرت ادریس علیہ السلام درزی تھے‘ حضرت صالح علیہ السلام تاجر تھے‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے‘ حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہما السلام بکریاں چراتے تھے‘ حضرت دائود علیہ السلام زِرہ بناتے تھے‘ حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ تھے‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کل کے لیے کچھ ذخیرہ نہیں کرتے تھے‘ ہمارے نبیﷺ اپنے اہل وعیال کیلئے مقامِ اَجیاد میں بکریاں چراتے تھے‘ حضرت حوا اون کاتتی تھیں اور اپنے ہاتھ سے کپڑا بُن کر اپنا اور اپنے بچوں کا لباس بناتی تھیں‘‘ (المنتظم‘ ج: 2، ص: 146)۔ سیدنا محمد رسول اللہﷺ نے تجارت بھی کی‘ بکریاں بھی چرائیں۔ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ نے جو بھی نبی بھیجا‘ انہوں نے بکریاں چرائیں‘ صحابۂ کرام نے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! آپ نے بھی‘ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! میں چند قیراط کے عوض اہلِ مکہ کی بکریاں چراتا تھا‘‘ (بخاری: 2262)۔ نوٹ: بکریاں چرانے والے اور حاکم دونوں کو ''رَاعِی‘‘ کہتے ہیں۔ انبیائے کرام علیہم السلام کا بکریاں چرانا امت کی نگہبانی کی تربیت کیلئے تھا۔ آپﷺ کا اس کا اظہار فرمانا اللہ تعالیٰ کے حضور تواضع کے طور پر تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپﷺ سے بڑھ کر کوئی اور مکرّم نہیں ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ''(حضرت شعیب نے حضرت موسیٰ علیہم السلام سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح اس مہر پر آپ کے ساتھ کر دوں کہ آپ آٹھ سال میری ملازمت کریں گے‘‘ (القصص: 27)۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرائیں۔
علامہ غلام رسول سعیدی نے لکھا ہے: ''آج کل جو شخص پھیری لگا کر کندھے پر گٹھڑی رکھ کر کپڑا بیچتا ہو‘ لوگ اسے کمتر سمجھتے ہیں‘ مگر حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی یہی کام کرتے تھے۔ ہمارے جلیل القدر ائمہ میں سے بعض مختلف پیشوں سے وابستہ رہے۔ حضرت امام احمد بن عمر الخصّاف بہت بڑے فقیہ اور عابد و زاہد تھے‘ اُن کی فقہ میں تصانیف ہیں۔ عربی میں ''خَصَّاف‘‘ موچی کو کہتے ہیں‘ یہ جوتوں کی مرمت کرتے تھے۔ علامہ احمد بن محمد القدوری بہت بڑے فقیہ تھے‘ اُن کی عظیم کتاب ''مُختصَر القُدُورِی‘‘ دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہے۔ ''قدوری‘‘ مٹی کی ہنڈیا بیچنے والے کو کہتے ہیں۔ ایک اور فقیہ علامہ محمود بن احمد اَلْحَصِیْری ہیں۔ ''حصیری‘‘ چٹائی بُننے والے کو کہتے ہیں۔ امام ابوبکر بن علی الحدّادی بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے ''مختصر القدوری‘‘ کی شرح لکھی ہے۔ عربی میں ''حدّاد‘‘ لوہار کو کہتے ہیں‘‘ (تبیان القرآن‘ ج: 7،ص: 639 تا 640)۔ بعض علاقوں میں مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں کو کمّی کمین کہتے ہیں اور انہیں کمتر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے تضادات کا عالَم یہ ہے کہ اگر جفت سازی بہت بڑی صنعت کی حیثیت اختیار کر لے‘ جیسے مشہور برانڈز وغیرہ‘ تو یہ سرمائے کی نسبت سے اعزاز قرار پاتا ہے اور مزدور بے توقیر رہتا ہے۔ آج کی سپِننگ اور ٹیکسٹائل ملیں وہی کام کرتی ہیں جو ماضی میں عام مزدور گھروں میں دھاگا کاتنے اور کپڑا بُننے کے کام کرتے تھے‘ مزدور بے توقیر‘ سپِننگ اور ٹیکسٹائل ملوں کے مالکان اعزاز واکرام کے حقدار قرار پاتے ہیں۔
محنت کشوں کے حقوق کے متعلق رسول اللہﷺ کے چند ارشادات حسب ذیل ہیں: (1) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں قیامت کے دن تین شخصوں کے خلاف مدعی ہوں گا‘ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے کسی کو اپنے ہاں مزدوری پر رکھا‘ اس سے پورا کام لیا اور مزدوری نہیں دی‘‘ (بخاری: 2227)۔ (2) ''مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کیا کرو‘‘ (ابن ماجہ: 2443)۔ (3) آپﷺ نے فرمایا: اے ابوذر! جس کے ماتحت اس کا کوئی مسلمان بھائی کام کرتا ہے‘ اسے چاہیے کہ جو خود کھائے‘ ویسا ہی اسے کھلائے‘ جو خود پہنے ویسا ہی اسے پہنائے‘ اس سے ایسا کام نہ لے جو اُس کی طاقت سے زیادہ ہو اور اگر ایسا کوئی کام اس کے ذمے لگا دیا ہو تو خود بھی اس کی مدد کرے‘‘ (بخاری: 30)۔ (4) ''ابومسعود انصاریؓ بیان کرتے ہیں: میں اپنے غلام کو مار رہا تھا‘ میں نے پیچھے سے آواز سنی: ابومسعود! جان لو! جتنی قدرت تمہیں اس غلام پر ہے‘ اس سے بدرجہا زائد قوت اللہ کو تم پر ہے‘ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ رسول اللہﷺ تھے۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! یہ اللہ کیلئے آزاد ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:اگر تم یہ نہ کرتے تو تمہیں جہنم کی آگ جھلسا دیتی‘‘ (مسلم: 1659)۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved